Must Read It
دو سچی کہانیاں
کہانی نمبر 1
ہم دو بہنیں اور تین بھائی تھے ، ابو کا اپنا کاروبار تھا تو بھائی ابو کے ساتھ کاروبار میں ہاتھ بٹاتے تھے جسکی وجہ سے گھر میں پیسے کی ریل پیل تھی ہم بہنوں نے جب جس شے کی فرمائش کرنی ابو نے فوراً پوری کر دینی، والدہ گھر کے کام کاجوں میں مصروف رہتی تھی ان دنوں کیبل کا رواج عام ہو رہا تھا تو ہم نے ابو سے کہہ کے کیبل لگوا لی اور سکول سے آتے ساتھ دونوں بہنیں بیٹھ کے بھارتی ڈرامے اور فلمیں دیکھا کرتیں، آہستہ آہستہ پڑھائی پر سے دھیان ہٹتا اور گھٹتا گیا اور نتیجتاً میری بہن تو جیسے تیسے پاس ہو گئی اور میں میٹرک میں بری طرح فیل ہو گئی فیل ہونے کے بعد ابو نے یہ کہہ کر گھر بیٹھا دیا " کہ میں نے کونسا تم سے نوکریاں کروانی ہیں جو تمہیں اتنا آگے تک پڑھاؤں،جو اور جتنا پڑھ لیا ہے اتنا کافی ہے" اور میں گھر بیٹھ گئی جبکہ میری بہن ضد کر کے پڑھتی رہی اور میرے پاس فراغت ہی فراغت تھی،گھر میں کام کاج کرنے والی آنٹی آتی تھی اور جو باقی کام بچتا وہ والدہ کر دیا کرتی تھی،جس کی وجہ سے مجھے کھلی آزادی تھی اپنی مرضی سے جاگتی کھاتی پیتی اور سوتی تھی، فراغت کی وجہ سے سارا سارا دن کیبل پے ایک کے بعد ایک ڈرامہ اور فلمیں دیکھا کرتی ان دنوں میں مشکل سے 16 سال کی ہونگی کہ فلمیں دیکھ دیکھ کر میرے جذبات و احساسات ابھرنے اور مچلنے لگے کہ میری بھی شادی ہو اور میں اپنے شوہر کے ساتھ اسی طرح سب کچھ کروں جیسے فلموں میں ہیرو ہیروئن کرتے ہیں اور میں نے گھر میں امی سے کہا کہ میری شادی کردیں امی میری بات سن کے پہلے حیران ہوئی اور پھر کہا تمہیں یہ اچانک شادی کا خیال کب اور کیسے آ گیا ، شام کو ابو گھر آئے تو امی نے ان کے سامنے میری شادی کی بات رکھی اور کہا کہ اس کا دماغ خراب ہو گیا ہے بھلا عمر ہی کیا ہے اسکی جو ہم اسکی شادی کردیں ابو کھلے مزاج کے انسان تھے انہوں نے امی کی بات کو ٹوکتے ہوئے کہا کہ اگر ہماری بیٹی شادی کرنا چاہتی ہے تو اسمیں برائی ہی کیا ہے۔ ۔ ۔ اسطرح چھ مہینے کے اندر اندر ابو کے دوست کے بیٹے سے میری شادی ہو گئی راحیل ایک کاروباری انسان تھے ایکسپورٹ و امپورٹ کا کاروبار تھا بیرون ممالک آنا جانا لگا رہتا تھا، شادی کو چار سال بیت گئے اور میرے 3 بچے بھی ہو گئے ، ہر لحاظ سے زندگی پرسکون اور خوشحال تھی، شوہر بھی حد سے چاہنے والا تھا پر پھر بھی میں راحیل سے نجانے خوش اور مطمئن نا تھی۔ ۔ ۔میرا دل کرتا تھا راحیل بھی ہو بہو ڈراموں اور فلموں میں ہیرو کے جیسا مجھ سے پیش آئیں، میری خوبصورتی کی تعریفیں کریں میرے لیے شعری کریں اور میرے ساتھ لمبی چوڑی پیار و محبت کی باتیں کرے پر راحیل ایسا نہیں کرتے تھے اور میرے جذبات مجروح ہوتے تھے، راحیل بیرون ملک جاتے تو میری بیچینی اور بھی زیادہ بڑھ جاتی اور میرا دل چاہتا کہ میں کسی غیر مرد سے باتیں کروں اسے اپن جذبات اسے بتاؤں اور میری تنہائی میں میرا بہترین ساتھی ہو، اسی خواہش کے ہاتھوں مجبور ہو کے میں نقاب لگا کے ایک ویڈیو شاپ پے جا کے انڈین فلمیں لا لا کر دیکھتی پر ایک دن میں نے دوکاندار سے کہا کہ مجھے انگلش فلم دے دیں وہ نا سمجھا تو میں نے اسے کہا کہ دوسری والی انگلش فلم مجھے دے دیں تو اس نے تھوڑا حیران ہوتے ہوئے مجھے اغیر اخلاقی فلم دے دیں جنہیں میں نے گھر لا کے آرام سے بیٹھ کے دیکھی اور اپنے غیر سخلاقی جذبات کی تسکین کرتی رہی۔
راحیل بیرون ملک سے جب گھر آئے تو کچھ دن بعد انہوں نے اپنے کاروباری دوست کی بمع فیملی دعوت کی تو راحیل کے دوست کے بھی تین بچے تھے دو چھوٹی بیٹیاں اور ایک بڑا بیٹا جو لگ بھگ 16،17 سال کا تھا اور خوبصورت بھی بہت تھا مجھے فوراً خیال آیا کہ جیسے یہی میرا ہیرو ہے ، دعوت گزر گئی پر میرے زہن میں راحیل کے دوست کا بیٹا آیان نقش ہو گیا ، کچھ دن بعد راحیل کام کے سلسل میں پھر بیرون ملک میں گئے تو میں نے ان سے یہ کہہ کے آیان کا نمبر لے لیا کہ مجھے گھر سے باہر کام کاج کے سودا سلف لانے ہوتے ہیں تو بڑی مشکل ہوتی ہے تو آیان سے کہہ کر منگوا لیا کروں تو راحیل نے بات سمجھتے ہوئے آیان کا نمبر دے دیا اور میں نے آیان کو کال کرکے گھر پے بلوا لیا اور اس کے آنے سے پہلے ہی منصوبے کے تحت Dvd میں غیر اخلاقی فلم لگا دی اور ریموٹ صوفہ پے ہی چھوڑ دیا جونہی آیان آیا تو میں یہ کہہ کے کیچن میں چلی گئی کہ تم بیٹھو Tv دیکھو میں آتی ہوں اور کیچن سے جھانک کے دیکھا تو آیان غیر اخلاقی فلم لگا چکا تھا اور بہت Upset سا لگ رہا تھا اسی دوران میں کمرے میں داخل ہوئی تو اسے اچانک Tv بند کردیا پر میں اسے بہانے سے کمرے میں لے گئی اور اپنی غیر اخلاقی جذبات کی تسکین کرلی،اسی طرح یہ سلسلا چلتا رہا اور راحیل کے بیرون ملک جانے پے میں آیان سے دل بہلاتی رہی اور اسے آئے روز نئے نئے تحفے دیتی رہی جسکا آیان کے والدین کو ایک دن علم ہوا تو بات کھل کے سامنے آ گئی اور راحیل کے دوست نے راحیل کو ساری بات تفصیل سے بتا دی اور راحیل نے مجھے مارنے کے ساتھ ساتھ طلاق دے کے گھر سے نکال دیا یوں میں اپنے بھائی کے گھر رہنے لگی جب بھائی اور بھابھی کو طلاق کی وجہ پتا چلی تو بھابھی نے بھائی سے کہا اسے گھر سے نکالو میرا تو اپنا بیٹا ابھی بہت معصوم ہے اور میں اسے گھر نہیں رکھ سکتی جو میرے لیے ڈوب مرنے اور زلت کی بات تھی، بھائی نے کسی آس پاس کے محلے میں مجھے دو کمروں کا گھر خرید کے دے دیا اور آج میں اپنے غیر اخلاقی جذبات کے ہاتھوں تباہ و برباد ہو کے تن تنہا زندگی گزار رہی ہوں اور اپنے گناہوں کی معافی اور توبہ کر رہی ہوں ۔ ۔آخر میں تمام والدین سے گزارش اور درخواست کرتی ہوں کہ اپنی اولاد پے نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ انکو Tv،ڈراموں، فلموں سے اسوقت تک دور رکھیں اور بچائیں جبتک وہ 18 سے 20 سال کی عمر کو پہنچ کے مکمل طور پے بالغ نا ہو جائیں ورنہ آپ کی اولاد ایک دن میری طرح تباہ و برباد ہو کے معاشرے میں تن تنہا رہ جائیں گے۔
کہانی نمبر 2
ہم پانچ بہن بھائی تھے پانچ بہن بھائیوں میں، میں اکلوتی بہن تھی، ہمارا گھرانہ مذہبی تھا اور ابو امام مسجد تھے بھائی بھی سب داڑھی رکھتے تھے پر میں اپنے والدین اور بھائیوں کی لاڈلی تھی جسکی وجہ سے اپنی ہر بات منوا لیا کرتی تھی، گھر میں Tv, Tape نا تھے پر میں نے ضد کر کے Tv منگوایا اور پھر ضد کرکے کیبل بھی لگوا لی، نیا نیا شوق تھا تو سارا وقت Tv میں گھسی رہتی ،والدین اور بھائی کو Tv سے الرجی تھی جسکی وجہ سے صرف میں ہی Tv دیکھا کرتی تھی، انڈین فلمیں دیکھنے کے بعد مجھے شاہ رخ خان بہت اچھا لگنے لگا اور میں اسکی فلم کو چینل تبدیل کرکر کے ڈھونڈ ڈھونڈ کے دیکھا کرتی تھی، اور فلموں کا یہ شوق دن بدن بڑھتا چلا گیا اور میں خود کو فملوں کی دنیا کی ہیروئن سمجھ کے ہواؤں میں اڑا کرتی تھی کہ میرا شوہر بھی شاہ رخ خان جیسا کلین شیو ہو گا ، مجھے بانہوں میں بھر کے پیار کرے گا اور میں اسکی ہیروئن بن کے رہوں گی۔ ۔ ۔ دن اور سال گزرتے گئے اور میں شادی کی عمر کو پہنچ گئی گھر بھر میں میری شادی کی فکر ہونے لگی تو ابو نے ایک معزز اور شریف خاندان کے بیٹے سے میرا رشتہ طے کردیا،لڑکا تعلیم یافتہ اور عالم کا کورس کر رہا تھا، میں جتنی بھی لاڈلی سہی پر اپنے رشتے کے معاملے میں والدین اور بھائیوں کے سامنے اپنی مرضی اور پسند کا اظہار نا کر سکی اور یوں میری شادی ہو گئی شوہر نمازی پرہیزی اور سلجھا ہوا انسان تھا، ساس سسر بھی بہت پیار دینے اور عزت کرنے والے تھے، گھر میں کسی شے کی کمی نا تھی، دنیا کی ہر آسائش اور نعمت موجود تھی پر اس سب کے بعد بھی مجھے اپنا داڑھی والا شوہر ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا اسی دوران میرا ایک بیٹا بھی پیدا ہو گیا شادی کے دو سال تو جیسے تیسے گزارے پر تیسرے سال میں نے شوہر سے بلا وجہ لڑنا جھگڑنا شروع کر دیا اور وہ شریف انسان میری ہر بری بات کو ٹال دیتا اور میں پھر کوئی بہانہ کرکے اسکے اور ساس سسر کے ساتھ آئے دن لڑتی جھگڑتی رہتی تاکہ میرا شوہر مجھے طلاق دے دے اور میں کسی کلین شیو خوبصورت اور خوبرو مرد سے شادی کروں اور اسکی ہیروئن بن کے زندگی گزاروں، آخر کار میں ایک دن میں اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئی اور میرے شوہر نے میری خاطر مجھے طلاق دے دی اور بیٹا اپنے پاس رکھ لیا، میں اپنے میکے آ گئی،میکے آنے کی دیر تھی کہ محلے میں میرے والد اور بھائیوں پے محلے والوں نے طرح طرح کی باتیں کرنا شروع کر دی کہ باپ مسجد امام اور بھائی سارے حافظ قرآن اور بیٹی کے کرتوت تو دیکھو زرا کہ اتنے اچھے شوہر کے ساتھ بھی نا بنی اور شوہر سے طلاق لے کے آ گئی، گھر میں سب مجھ سے ناراض تھے پر میں نے کسی کی پرواہ نا کی اور پھر سے اپنے من پسند ہیرو شاہ رخ خان کی فلمیں شوق سے دیکھنا شروع کر دیا، پھر سے سپنے اور خیال بنتی رہی، میں نے امی سے دبے دبے لفظوں میں کہا کہ اب میری کسی کلین شیو لڑکے سے شادی کرنا پہلے آپ نے اپنی مرضی کی اور اب میں اپنی مرضی کروں گی، طلاق کے چھے مہینے بعد بہت سے رشتے آئے پر کوئی حافظ تو کوئی عالم تو کوئی مسجد کا امام تھا پر میں سب کے رشتوں سے انکار پے انکار کرتی رہی اسی طرح پانچ سال بیت گئے میں اپنے والدین اور بھائیوں پے بوجھ لگنے لگی اور سب بھائیوں کی بھی شادی ہو گئی سب بھابیاں بھی مجھ سے الجھنے لگی تھی ، پر میں پھر بھی ہر داڑھی اور نمازی پرہیزی مرد کے رشتوں سے مسلسل انکار ہی کرتی رہی، آخر ایک مرد کا رشتہ آیا جو کسی بینک میں نوکری کرتا تھا شکل و صورت کا بھی اچھا تھا اور سب سے بڑی بات کلین شیو تھا تو میں نے جھٹ سے شادی کے لیے ہاں کردی اور یوں میری دوسری شادی ہو گئی پر شادی کے چھے مہنے کے اندر اندر ہی مجھ پے اپنے شوہر کی تمام برائیاں کھل کے سامنے آ گئی جنمیں وہ آزاد خیال تھا، اپنے دوستوں کو گھر لاتا اور رات رات بھر شراب نوشی کرتا اور نشے کی حالت میں مجھ زدوکوب کرتا اور نا مجھے وقت دیتا نا ہی مجھے پیار کرتا تھا جسکی وجہ مجھے بعد میں پتا چلی کہ اسکی بینک میں بہت سی لڑکیوں سے دوستی ہے اور وہ انکے ساتھ خوش باش رہتا ہے، پر میں مجبور و بے بس تھی اب اگر طلاق لے کر پھر سے میکے جاتی تو والدین اور بھائی جیسے تیسے مجھے قبول کر لیتے پر بھابیاں مجھے کسی صورت بھی قبول نا کرتی۔ ۔ ۔ یہی سوچ کے آج میں اپنے شوہر کی باندی اور غلام بن کے زندگی گزار رہی ہوں اور اپنے پہلے شوہر اور بیٹے کو یاد کرکر کے رات رات بھر روتی اور اللہ سے معافیاں مانگتی رہتی ہوں کہ اللہ مجھے معاف کردے کہ میں نے اپنے پاؤں پے آپ کلہاڑی ماری اور آج یہ دن دیکھ رہی ہوں ۔ ۔ ۔آخر میں ان والدین سے ہاتھ جوڑ کے کہتی ہوں کہ خدارہ اپنے بچوں کی ہر اچھی بری ضد کو پورا مت کریں اس سے پہلے کہ پھر کوئی لڑکی میری طرح جہالت اور ناسمجھی کے ہاتھوں اپنی ہنستی بستی زندگی کو اپنے ہی ہاتھوں تباہ و برباد کر لے اور اپنے نابالغ بیٹے بیٍٹیوں کے معاملے میں بہت محتاط اور احتیاط سے کام لیں کیونکہ بچہ چھوٹے سے پودے کی طرح ہوتا ہے پودے کا رخ جس سمت موڑ دو گے پودا اسی سمت اور رخ پے پروان چڑھے گا اور تناور درخت بننے کی صورت میں آپ درخت کو کاٹ پیٹ تو سکتے ہیں پر درخت کی سمت یا رخ کو تبدیل نہیں کر سکتے ہیں۔
نوٹ: بچے/ بچی کی بچپن میں جو اچھی بری نفسیات بن جائے وہ تھوڑی بہت کمی پیشی کے ساتھ بڑھ کا گھٹ تو سکتی ہے پر مکمل طور پے ختم نہیں ہوتی۔
اسے زیادہ سے زیادہ Share کریں کیا پتا آپ کے Share کرنے سے کسی ایک لڑکی کی بھی اگر زندگی سدھر اور سنبھل جاتی ہے تو میرا آپ کا اور انسانیت کی خیر کا مقصد پورا ہو جائے گا۔
وقاص
No comments:
Post a Comment