بھوک
آئے روز کہیں نا کہیں سے خبر سننے پڑھنے کو ملتی رہتی ہے کہ نومولود بچے کو کچرے کے ڈرم میں پھینک دیا گیا، نومولود بچے کو فلش، گٹر یا نالی میں بہا دیا گیا وغیرہ وغیرہ۔
میں سوچ رہا تھا کہ جس معاشرے میں پیٹ کی بھوک حلال زرائع سے پوری نا ہوتی ہو، جہاں ایک وقت کی روٹی مل جانے کے بعد دوسرے وقت کی روٹی کی فکر ستاتی ہو ایسے معاشرے میں حلال زرائع ( نکاح ) سے جنسی بھوک کیسے پوری ہو سکتی ہے، کہ جہاں ایک دن کے کھانے کی قیمت اگر 300 روپے ہے تو نکاح کرنے کے لیے زمین، گھر، بجلی،گیس، پانی اور مستقل روزگار کے لیے لاکھوں روپے درکار ہیں جو کہ ناممکن سا ہو کے رہ گیا ہے تو پھر ایسی خبروں کا عام ہونا کوئی خاص، انہونی،اچھوتی یا اچھنبھے کی بات تو نہیں ہے، اگر ہمارے ملک کی خدانخواستہ یہی حالت رہی تو زنا بالرضا مزید عام ہو جائے گا جس کے خطرناک اور بھانک نتائج سامنے آئیں گے اور خاندانی نظام و نظم و ضبط درہم برہم اور تباہ ہو کے رہ جائے گا۔
قیامت کی بہت سی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ قیامت کے نزدیک بے حیائی اور زنا فنا عام ہو جائے گا پر یہاں میرا آپ سب سے ایک سوال ہے آیا کہ آخری زمانے میں کیا زنا صرف بے حیائی کی وجہ سے ہی پھیلے گا؟
جہاں 40% زنا اگر بے حیائی کی وجہ سے پھیل رہا ہے تو وہیں 60% زنا غربت و افلاس کی وجہ سے پھیل رہا ہے۔۔لڑکیوں کے سر میں چاندی آ جاتی ہے مگر رشتے نہیں آتے، لڑکوں کی 35،35 سال عمریں ہو جاتی ہیں مگر وہ پھر بھی بے گھر اور بیروزگار مارے مارے پھر رہے ہوتے ہیں۔۔ایسے حالات میں ایک شریف زادی اپنا اور اپنوں کا پیٹ بھرنے کی خاطر بہت ہی سستے میں (روٹی کی قیمت میں) اپنا جسم بیچتی نظر آتی ہے اور لڑکا کہیں دھاڑی مزدوری کرکے سستے میں لڑکی کا جسم خریدتا نظر آتا ہے یا شادی کا انتظار کرتے کرتے لڑکا لڑکی شادی نا ہونے کے سبب اپنے جنسی جذبات کی تسکین شادی سے پہلے ہی پوری کر لیتے ہیں کہ آخر کب تک انتظار کیا جائے۔۔مگر حلال کی نا تو روٹی میسر آتی ہے نا ہی حلال کی زندگی ملتی ہے ۔۔ایسے میں میرے اور آپ جیسے کچھ لوگ منہ میں انگلیاں دبا لیتے ہیں، کچھ منہ پے ہاتھ رکھ لیتے اور کچھ کانوں کو ہاتھ لگا لگا کر کہتے نظر آتے ہیں کہ ہائے کیسا زمانہ آ گیا ہے کلموہی کو زرا بھی شرم نا آئی منہ کالا کرتے اور پھر اب بچے کو زندہ مارنے چلی تھی۔۔اس بغیرت کو شرم نا آئی کہ گھر میں کنواری بہنیں بیٹھی ہیں اور دوسروں کی بہن بیٹیوں کی عزت جو تار تار کرتا پھرتا ہے۔۔مگر کوئی بھی گہرائی میں نہیں اترتا کہ آخر ایک شریف زادی اور ایک شریف زادہ کیسے حرام کاری کرنے پے تُل گئے۔۔۔! اتنی ہمت و حوصلہ آخر کب کیسے اور کیونکر آ گیا۔۔اتنی نفاسانیت اور شیطانیت آخر کیسے اور کس طرح سے آ گئی۔۔
آہ۔۔۔کیا ہی خوب کہا کسی نے " کہ وقت کرتا ہے پرورش برسوں۔۔حادثے اچانک نہیں ہوا کرتے ہیں"۔
"عظیم ہیں وہ لوگ جو انسان کی پیٹ کی اور جنسی بھوک کو مٹانے میں انسانوں کے لیے حلال مواقع اور زریعے پیدا کرتے ہیں اور انکی زندگیوں میں آسانیاں لاتے ہیں"۔
وقاص
No comments:
Post a Comment