السلام علیکم،میں ایک لکھاری ہوں ایسا لکھاری جو ہر موضوعات پے سوچتا اور لکھتا ہے۔

Monday, 20 January 2020

Atheist

جو لوگ جانتے ہیں کہ سائنس کی آڑ میں پاکستان میں کئی پیجز ہیں،کئی گروپس ہیں جو مسلمانوں کو اسلام سے ہٹا کر سائنس کو خدا منوانے پے تلے ہوئے ہیں۔ انہیں Atheist بنانے کے مشن پے لگے ہوئے ہیں،کوئی ڈھکے چھپے تو کوئی سرعام سائنس کو خدا مانتے اور منواتے ہیں۔ اسی پیش نظر پوسٹ کے آخر میں سوال کیا۔ اور سوال کا پس منظر یہ تھا کہ ربّ رحمٰن اگر بیٹا دینا چاہے تو سائنس بیٹی پیدا کرنا چاہے تو بھی بیٹا ہی پیدا ہو گا، اور اگر ربّ رحمٰن بیٹی دینا چاہے اور سائنس بیٹا پیدا کرنے کے سو جتن کرلے تو بھی بیٹی ہی پیدا ہو گی۔ ٹھیک اسی طرح جب حضرت حکیم لقمان علیہ السلام نے اپنے کسی جسمانی درد یا مرض کی بنا پے جب دوا بنا کر کھائی تو آرام نا آیا، دوسری اور تیسری بار بھی جب دوا کھانے کے بعد بھی جب آرام نا آیا تو ربّ رحمٰن نے اپنے بندے سے فرمایا ائے لقمان تیری بنائی ہوئی دوا میں کوئی فرق نہیں ہے، پر میں نے وہ دوا تیرے حلق سے نیچے اترنے ہی نہیں دی تو پھر دوا کا اثر کیسے ہو گا اور پھر حضرت لقمان علیہ السلام کو سمجھ آیا کہ یہ زہانت،یہ عقل و شعور،یہ حکمت دانائی تب ہی کارگر ثابت ہوتی ہے جب تک انسان انسان رہتا ہے، خود کو انسان ہی سمجھتا ہے ناکہ خود کو ہی خدا تصور کرنے لگے اس بات پے جو اسکی ہے ہی نہیں، جو اللہ کی طرف سے اسے دی اور عطا کی گئی۔ وہاں ربّ رحمٰن نے حضرت لقمان کو بتایا،سمجھایا کہ لقمان علیہ السلام جب تک میں چاہوں میری مرضی میرا کُن فیکون تیری حکمت ودانائی میں شامل حال رہے گا تب تک تُو بھی اور تیری حکمت بھی کارگر اور کارآمد ثابت ہونگے اور جو گر میں نا چاہوں تو تُو بھی اور تیری حکمت و دانائی بھی دھری کی دھری رہ جائیں گے۔، اس لیے مجھ سے اور میرے رحم و کرم اور فضل سے جڑا رہ ناکہ میری ہی دی ہوئی عطا پے مجھ ہی سے غافل و لاپرواہ ہو جانا۔ مختصر یہ ہے کہ آپ کا ہنر،آپ کی کاریگری،آپ کی زہانت تب تک چلے گی جب تک آپ میں،میں، انا،تکبر اور غرور نا آنے پائے اور خود کو ہی سب کچھ نا خیال کرنے لگ جاؤ۔

انسان ترقی کرتا ہے، ترقی کرنا اس کا حق ہے، پھر وہ سائنس کی ترقی ہو یا جدید ٹیکنالوجی کی۔ ترقی کرنا چاہیے، پر جب وہ یا کوئی انسان یہ خیال اور گمان کرنے لگتا ہے کہ جی میں تو اب کوئی چیز اور شے بن گیا ہوں،مجھے خدا کی کی بھلا کیا ضرورت ہے، میں تو خود اپنا خدا ہوں،اور پھر وہ دوسروں کا بھی خدا بننے لگ جاتا ہے تب۔۔ ہاں تبھی ربّ رحمٰن اسے بتاتا ہے کہ ائے میرے بندے تجھے انسان بنایا تھا تو انسان تو بن نا سکا اور گمان کرنے لگا خدائی کا۔ پھر ربّ رحمٰن بندے کو اسکی اوقات پے لاتا اور اسکی اصل اوقات اسے دکھاتا ہے۔ کہ یہ ہے تو اور یہ ہے تیری اوقات۔

جس کی جیتی جاگتی زندہ مثال مصر میں فرعون کی لاش ہے، وہ بھی انسان ہو کر انسان تو با بن سکا مگر خدائی کا دعویٰ کر بیٹھا اور آج سالہا سال سے عبرت کا نشان بنے لیٹا ہوا ہے۔

مطلب جہاں ربّ رحمٰن کی مرضی چلنی ہے وہاں انسان کی مرضی نہیں چلے گی، نا چل سکتی ہے نا ہی کبھی چل پائے گی۔ ہاں انسان کی مرضی تب چلے گی جب وہ عاجزی و انکساری کے ساتھ ربّ رحمٰن کے حضور جھکے گا، سجدہ ریز ہو کر دعا اور التجا کرے گا تب ہی اسے اسکی مرضی دے دی جائے گی، اور پھر بھی ربّ رحمٰن کو جو منظور ہو گا ہو گا وہی۔

میں سائنس کو مانتا ہوں، ماننا چاہیے، ایک علم ہے، ایک عقل و شعور کی قسم ہے، اس سے فائدہ اٹھانے چاہیے، پر اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ آپ سائنس کو ہی خدا ماننے لگ جاؤ، سائنس کو ہی اپنا سب کچھ مان جان لو۔

سائنس نے اتنی ترقی کر ہی لی ہے کہ جب جو چاہے جیسے چاہے انسانوں اور حیوانوں کی جنس پیدا کر لیتی ہے۔ چلو مان لیا۔ پھر زندگی موت جو اللہ کی بنائی ہوئی ہے،سائنس اس میں آج تک ایسی ایجاد کیوں نہیں کر پائی کہ موت کو ہی موت دے دی جائے، اور ہمیشہ رہنے والی ایسی کوئی دوا،کوئی طریقہ،کوئی بھی بات پیدا،بنا اور ایجاد کر لی جائے کہ موت کبھی آئے ہی نا، اور چلو موت اگر آ بھی جائے تو اسے پھر سے سائنس کے تحت اس مردہ انسان کو زندہ کر لیا جائے چلو یہ ساری باتیں چھوڑو، سائنس اتنا ہی کر لے یا کر دکھائے کہ انسان کے بڑھاپے کو ہی روک کے دکھا دے تاکہ انسان جوان کا جوان ہی رہے،بڑھاپا کبھی نا آنے پائے۔

لیکن سائنس کی بھی ایک حد ہے،اسکی بھی ایک اوقات ہے،وہ بھی انسان کے جیسے مجبور اور لاچار ہے ربّ رحمٰن کے " کٰن فیکون " کے آگے۔ سائنس کا بھی ربّ رحمٰن کے " کُن" کے آگے بس نہیں چلتا، سائنس بھی "کُن" کی منتظر رہتی ہے۔ اور ربّ رحمٰن کے " کُن فیکون " کے آگے ماتھا اور گھٹنے ٹیک دیتی ہے۔

اسی لیے پہلی پوسٹ کے آخر میں کہا تھا کہ سائنس کو تسلیم کرنا ہو گا کہ جہاں پے سائنس ختم ہو جاتی ہے ،تھک ہار کر بیٹھ جاتی ہے وہیں سے،ہاں وہیں سے ہی ربّ رحمٰن اپنے "کُن فیکون " کی طاقت، معجزے اور کرشمے دکھاتا ہے۔

حاصل کلام یہ ہے کہ سائنس کو سائنس ہی رہنے دو، سائنس کو اللہ عزوجل پے فوقیت و ترجیح مت دو، نعوذ باللہ من زالک سائنس نے اللہ کو پیدا نہیں کیا بلکہ میرے اللہ نے سائنس کو پیدا کیا،انسانوں کی بھلائی کے لیے، تاکہ وہ اس سے فائدہ حاصل کر سکے۔ پر کچھ انسانوں کی عقل اور مت ماری جاتی ہے کہ جس اللہ نے سائنس کو انسان کے فائدے کے لیے،انسان کی بھلائی اور خیر کے لیے بنایا اور پیدا کیا اسی اللہ کا شکر ادا کرنے کی بجائے سائنس کا شکر ادا کرنے اور سائنس کو ہی اپنا باپ اور خدا سمجھنے بیٹھ جاتے ہیں۔

جیسے خدا نے اپنی خدائی،معجزے،کرشمے اور قدرت دکھانے کی خاطر اور اپنے نا ماننے والے کفر و شرک کرنے والوں کو اپنا آپ منوانے کے لیے معجزے اور کرشمے سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بن باپ کے پیدا کر دکھایا تو کم اور بد عقل کفاروں نے ربّ رحمٰن پے ایمان لانے کی بجائے عیسیٰ علیہ السلام کو ہی خدا کا بیٹا ماننا شروع کر دیا، مطلب ایک چھوٹی جہالت سے نکل کر بڑی جہالت میں جا پڑنا۔

سٹیفن ہاکنگ جو بہت بڑا سائنسدان مانا جانا جاتا ہے،معذرت ہے نہیں تھا، اسکی سائنس بھی اسے ٹھیک نا کر پائی، اسکی سائنس اسے نئی زندگی نا دے پائی اور وہ بھی قدرت کے بنائے ہوئے قانون کے تحت ایک وقت مقررہ تک دنیا میں رہنے کے بعد موت کی آغوش میں منّوں مٹی تلے جا سویا۔

کہاں گیا سٹیفن اور کہاں گئی اسکی سائنس۔ دھری کی دھری رہ گئی نا، سٹیفن دنیا سے چلا گیا اور سائنس اسے روک بھی نا سکی بلکہ ٹک ٹکی باندھے سٹیفن کو جاتے اور دفن ہوتے دیکھتی رہ گئی۔

میں پھر کہہ رہا ہوں، میں سائنس کو مانتا ہوں مگر اس سے پہلے میں اللہ کو مانتا ہوں، اللہ کی قدرت اور اس کے کُن فیکون کو مانتا ہوں، میں سائنس پے ایمان رکھتا ہوں مگر اس سے پہلے اپنے اللہ عزوجل پے ایمان رکھتا ہوں،اسکی طاقت،معجزے اور کرشمے پے ایمان رکھتا ہوں اور یہ ایمان رکھتا ہوں کہ میرے اللہ بے دیگر باتوں کی طرح سائنس کو بھی انسان کی خیروبھلائی کے لیے پیدا کیا، تاکہ انسان اللہ کی بنائی ہوئی چیزوں اور باتوں سے فائدہ اٹھا کر اس کے حضور شکر گزار اور احسان مند رہے۔

اللہ ہی سب کچھ ہے، دنیا کی ہر اچھی،بھلی اور خیر کی بات اللہ ہی کی زات سے جڑی ہے، اسی نے ہر اچھی بھلی اور خیر و بھلائی اور فائدے کی بات کو پیدا اور تخلیق کیا تاکہ انسان دنیا کی زندگی میں اس سے فائدہ و نفع اٹھا سکے۔

خدارا ! سائنس سے فائدہ لو، اسے اپنا باپ یا خدا نا بناؤ۔

نوٹ: تحریر میں کوئی بھی دینی بات کے بیان کرنے میں کمی پیشی ہوئی تو اسکی تصحیح کر دے اور اللہ اس کمی پیشی کو معاف فرمائے یا سائنسی بات کے بیان کرنے میں کوئی کمی پیشی رہ گئی ہو تو سائنس اور سائنسدانوں سے معذرت۔

No comments:

Post a Comment