السلام علیکم،میں ایک لکھاری ہوں ایسا لکھاری جو ہر موضوعات پے سوچتا اور لکھتا ہے۔

Thursday, 30 January 2020

شکوا

اے خالق و مالک! آخر تُو نے دنیا کی زندگی اتنی مشکل اور کٹھن کیونکر بنائی ہے۔۔۔! جواب ملا "کہ ابھی تو دنیا کی زندگی اتنی مشکل اور کٹھن بنائی ہے تو بھی تُو میرے پاس نہیں آتا ہے اور مجھ سے دور رہتا ہے، گر زندگی کو آسان ترین بنا دیتا تو سوچ زرا! کیا تُو میرے پاس میرے در پے آتا اور کیا مجھے یاد کرتا۔۔۔!

انسان اور انسانیت

ہم سب انسان ہیں تو ہمیں ہر بات اور کام کرتے ہوئے سوچنا چاہیے کہ آیا کہ ہم جو بات اور کام کرنے جا رہیں کہ کہیں وہ "انسانیت کے معیار" سے گرے ہوے تو نہیں ہیں۔

Wednesday, 29 January 2020

اپنے

اپنا وہ نہیں ہوتا جسے آپ اپنا سمجھتے ہو بلکہ اپنا وہ ہوتا ہے جو آپ کو اپنا سمجھے اور اصل اپنا وہ ہوتا ہے جو صرف زبانی کلامی اپنا نہ کہتا رہے بلکہ عملی طور پے اپنے عمل سے اپنا بن کے دکھائے۔

Tuesday, 28 January 2020

دعا

جیسے بچھڑے بچے کے مل جانے پے ماں تڑپ کے ساتھ بھاگ کر بے اختیار ہو کے بچے کو گلے لگاتی اور پیار کرتی ہے ویسے ہی اے خالق و مالک! میں تجھ سے بچھڑ گیا ہوں تو مجھے خود سے اور خود کو مجھ سے ملا کے گلے لگے لے۔   

Monday, 27 January 2020

اچھا برا

ہر انسان اپنے بارے میں بہتر جانتا ہے اور ایک بات یاد رکھ لیں کہ اگر آپ اچھے ہیں اور کوئی آپ کو بُرا بنانے پے تلا ہوا ہے تو یقیناً اس کے کسی فائدے یا مفاد کو آپ سے نقصان مل رہا ہے
اسی طرح اگر آپ بُرے ہیں اور کوئی آپ کو اچھا بنانے پے تُلا ہوا ہے تو اس کے پیچھے اس کا بھی آپ کی زات سے کوئی فائدہ و مفاد جڑا ہوا ہے۔

ٹھگ

ایک بات اچھی طرح زہن نشین کر لیں کہ آپ کی تعلیم، قابلیت و صلاحیت اور تجربہ نا ہونے کے برابر ہے اور کوئی انسان یا کمپنی آپ کو آپ کی تعلیم، قابلیت و صلاحیت اور آپ کے ناتجربہ کار ہونے کے بعد بھی آپ کو پرکشش تنخواہ اور دیگر مراعات کی پیشکش کر رہے ہیں تو فوراً سمجھ جائیں کہ یہ انسان اور کمپنی ایک نمبر کے ٹھگ ہیں۔

Sunday, 26 January 2020

رشتے

عورت، مرد سے دو صورتوں میں رشتہ ناتہ جوڑتی ہے پہلا مردانہ وجاہت اور دوسرا مال و دولت دیکھ کر اسی طرح مرد بھی دو صورتوں میں زنانہ حسن و جمال اور وراثتی جائیداد میں حصہ دیکھ کر عورت سے رشتہ تعلق جوڑتا ہے اور مگر نہیں دیکھا جاتا تو دل، سوچ، کردار و گفتار اور انسانیت نہیں دیکھی جاتی ہے اور اسی لیے جب رشتے، دنیاداری لالچ، طمع اور مفاد کی بنیاد پے بنائے جاتے ہیں تو گنتی کے چند مہینوں یا چند سالوں میں ریت کے گھر کی طرح ڈھ اور گر سے جایا کرتے ہیں۔

Saturday, 25 January 2020

معیار

اکثر انسان گندی،گھٹیا اور گری ہوئی بات پے اپنا معیار فوراً گندا گھٹیا اور گرا کر مقابلہ کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں مگر اچھی، سلجھی اور اعلی بات پے فوراً تو کیا دیر سے بھی اپنا معیار نہ تو اچھا کرتے ہیں ناہی اعل معیار سے مقابلہ کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔

دعا و التجا

یا اللہ دنیا میں میرا شمار خیر و بھلائی اور انسانیت بانٹنے والوں میں فرما اور آخرت میں اپنے رحم و کرم پانے اور بخشش پا جانے والوں میں سے مجھے اٹھا۔آمین۔

ایکبار درود پاک پڑھیں۔

Friday, 24 January 2020

مقدمہ

دنیا میں کوئی کسی پے تو کوئی کسی پے سچا جھوٹا کیس بناتا اور چلاتا ہے پر اصل کیس تو روز آخرت سامنے ہو گا جب جہاں دو جہانوں کا خالق و مالک ربّ رحمٰن جج ہو گا اور وہاں ہمارے اعمال ہونگے اور گواہ کے طور ہمارے اپنے اعضا ہونگے۔

Thursday, 23 January 2020

پاک و صاف

جس طرح جسم کے ناپاک ہو جانے پے جسم کو پاک کرنا لازم اور اہم ہوتا ہے اسی طرح دل دماغ،سوچ نیت اور روح کے ناپاک ہو جانے پے انہیں پاک کرنا کئی گنا زیادہ لازم اور اہم ہوتا ہے مگر افسوس کہ لوگ صرف ظاہری جسم کے پاک کر لینے پے ہی خود کو پاک و صاف تصور کرنے لگتے ہیں۔

Tuesday, 21 January 2020

نفسا نفسی

لوگ اپنی جیب اور اپنا پیٹ بھرنے کی خاطر دوسرے کی جیب اور پیٹ کاٹتے ہیں اور اپنی گردن بچانے کے لیے دوسرے کی گردن کاٹتے اور اڑا دیتے ہیں اور افسوس کی بات کہ پھر بھی خود کو "انسان" کہلواتے ہیں۔

Monday, 20 January 2020

سوچیں

سوچیں اور پریشانیاں پہلے چہرے پے اترتی ہیں اور گر ختم نا ہوں تو پھر یہی سوچیں اور پریشانیاں انسان کو زمین میں اتار دیا کرتی ہیں۔

Atheist

جو لوگ جانتے ہیں کہ سائنس کی آڑ میں پاکستان میں کئی پیجز ہیں،کئی گروپس ہیں جو مسلمانوں کو اسلام سے ہٹا کر سائنس کو خدا منوانے پے تلے ہوئے ہیں۔ انہیں Atheist بنانے کے مشن پے لگے ہوئے ہیں،کوئی ڈھکے چھپے تو کوئی سرعام سائنس کو خدا مانتے اور منواتے ہیں۔ اسی پیش نظر پوسٹ کے آخر میں سوال کیا۔ اور سوال کا پس منظر یہ تھا کہ ربّ رحمٰن اگر بیٹا دینا چاہے تو سائنس بیٹی پیدا کرنا چاہے تو بھی بیٹا ہی پیدا ہو گا، اور اگر ربّ رحمٰن بیٹی دینا چاہے اور سائنس بیٹا پیدا کرنے کے سو جتن کرلے تو بھی بیٹی ہی پیدا ہو گی۔ ٹھیک اسی طرح جب حضرت حکیم لقمان علیہ السلام نے اپنے کسی جسمانی درد یا مرض کی بنا پے جب دوا بنا کر کھائی تو آرام نا آیا، دوسری اور تیسری بار بھی جب دوا کھانے کے بعد بھی جب آرام نا آیا تو ربّ رحمٰن نے اپنے بندے سے فرمایا ائے لقمان تیری بنائی ہوئی دوا میں کوئی فرق نہیں ہے، پر میں نے وہ دوا تیرے حلق سے نیچے اترنے ہی نہیں دی تو پھر دوا کا اثر کیسے ہو گا اور پھر حضرت لقمان علیہ السلام کو سمجھ آیا کہ یہ زہانت،یہ عقل و شعور،یہ حکمت دانائی تب ہی کارگر ثابت ہوتی ہے جب تک انسان انسان رہتا ہے، خود کو انسان ہی سمجھتا ہے ناکہ خود کو ہی خدا تصور کرنے لگے اس بات پے جو اسکی ہے ہی نہیں، جو اللہ کی طرف سے اسے دی اور عطا کی گئی۔ وہاں ربّ رحمٰن نے حضرت لقمان کو بتایا،سمجھایا کہ لقمان علیہ السلام جب تک میں چاہوں میری مرضی میرا کُن فیکون تیری حکمت ودانائی میں شامل حال رہے گا تب تک تُو بھی اور تیری حکمت بھی کارگر اور کارآمد ثابت ہونگے اور جو گر میں نا چاہوں تو تُو بھی اور تیری حکمت و دانائی بھی دھری کی دھری رہ جائیں گے۔، اس لیے مجھ سے اور میرے رحم و کرم اور فضل سے جڑا رہ ناکہ میری ہی دی ہوئی عطا پے مجھ ہی سے غافل و لاپرواہ ہو جانا۔ مختصر یہ ہے کہ آپ کا ہنر،آپ کی کاریگری،آپ کی زہانت تب تک چلے گی جب تک آپ میں،میں، انا،تکبر اور غرور نا آنے پائے اور خود کو ہی سب کچھ نا خیال کرنے لگ جاؤ۔

انسان ترقی کرتا ہے، ترقی کرنا اس کا حق ہے، پھر وہ سائنس کی ترقی ہو یا جدید ٹیکنالوجی کی۔ ترقی کرنا چاہیے، پر جب وہ یا کوئی انسان یہ خیال اور گمان کرنے لگتا ہے کہ جی میں تو اب کوئی چیز اور شے بن گیا ہوں،مجھے خدا کی کی بھلا کیا ضرورت ہے، میں تو خود اپنا خدا ہوں،اور پھر وہ دوسروں کا بھی خدا بننے لگ جاتا ہے تب۔۔ ہاں تبھی ربّ رحمٰن اسے بتاتا ہے کہ ائے میرے بندے تجھے انسان بنایا تھا تو انسان تو بن نا سکا اور گمان کرنے لگا خدائی کا۔ پھر ربّ رحمٰن بندے کو اسکی اوقات پے لاتا اور اسکی اصل اوقات اسے دکھاتا ہے۔ کہ یہ ہے تو اور یہ ہے تیری اوقات۔

جس کی جیتی جاگتی زندہ مثال مصر میں فرعون کی لاش ہے، وہ بھی انسان ہو کر انسان تو با بن سکا مگر خدائی کا دعویٰ کر بیٹھا اور آج سالہا سال سے عبرت کا نشان بنے لیٹا ہوا ہے۔

مطلب جہاں ربّ رحمٰن کی مرضی چلنی ہے وہاں انسان کی مرضی نہیں چلے گی، نا چل سکتی ہے نا ہی کبھی چل پائے گی۔ ہاں انسان کی مرضی تب چلے گی جب وہ عاجزی و انکساری کے ساتھ ربّ رحمٰن کے حضور جھکے گا، سجدہ ریز ہو کر دعا اور التجا کرے گا تب ہی اسے اسکی مرضی دے دی جائے گی، اور پھر بھی ربّ رحمٰن کو جو منظور ہو گا ہو گا وہی۔

میں سائنس کو مانتا ہوں، ماننا چاہیے، ایک علم ہے، ایک عقل و شعور کی قسم ہے، اس سے فائدہ اٹھانے چاہیے، پر اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ آپ سائنس کو ہی خدا ماننے لگ جاؤ، سائنس کو ہی اپنا سب کچھ مان جان لو۔

سائنس نے اتنی ترقی کر ہی لی ہے کہ جب جو چاہے جیسے چاہے انسانوں اور حیوانوں کی جنس پیدا کر لیتی ہے۔ چلو مان لیا۔ پھر زندگی موت جو اللہ کی بنائی ہوئی ہے،سائنس اس میں آج تک ایسی ایجاد کیوں نہیں کر پائی کہ موت کو ہی موت دے دی جائے، اور ہمیشہ رہنے والی ایسی کوئی دوا،کوئی طریقہ،کوئی بھی بات پیدا،بنا اور ایجاد کر لی جائے کہ موت کبھی آئے ہی نا، اور چلو موت اگر آ بھی جائے تو اسے پھر سے سائنس کے تحت اس مردہ انسان کو زندہ کر لیا جائے چلو یہ ساری باتیں چھوڑو، سائنس اتنا ہی کر لے یا کر دکھائے کہ انسان کے بڑھاپے کو ہی روک کے دکھا دے تاکہ انسان جوان کا جوان ہی رہے،بڑھاپا کبھی نا آنے پائے۔

لیکن سائنس کی بھی ایک حد ہے،اسکی بھی ایک اوقات ہے،وہ بھی انسان کے جیسے مجبور اور لاچار ہے ربّ رحمٰن کے " کٰن فیکون " کے آگے۔ سائنس کا بھی ربّ رحمٰن کے " کُن" کے آگے بس نہیں چلتا، سائنس بھی "کُن" کی منتظر رہتی ہے۔ اور ربّ رحمٰن کے " کُن فیکون " کے آگے ماتھا اور گھٹنے ٹیک دیتی ہے۔

اسی لیے پہلی پوسٹ کے آخر میں کہا تھا کہ سائنس کو تسلیم کرنا ہو گا کہ جہاں پے سائنس ختم ہو جاتی ہے ،تھک ہار کر بیٹھ جاتی ہے وہیں سے،ہاں وہیں سے ہی ربّ رحمٰن اپنے "کُن فیکون " کی طاقت، معجزے اور کرشمے دکھاتا ہے۔

حاصل کلام یہ ہے کہ سائنس کو سائنس ہی رہنے دو، سائنس کو اللہ عزوجل پے فوقیت و ترجیح مت دو، نعوذ باللہ من زالک سائنس نے اللہ کو پیدا نہیں کیا بلکہ میرے اللہ نے سائنس کو پیدا کیا،انسانوں کی بھلائی کے لیے، تاکہ وہ اس سے فائدہ حاصل کر سکے۔ پر کچھ انسانوں کی عقل اور مت ماری جاتی ہے کہ جس اللہ نے سائنس کو انسان کے فائدے کے لیے،انسان کی بھلائی اور خیر کے لیے بنایا اور پیدا کیا اسی اللہ کا شکر ادا کرنے کی بجائے سائنس کا شکر ادا کرنے اور سائنس کو ہی اپنا باپ اور خدا سمجھنے بیٹھ جاتے ہیں۔

جیسے خدا نے اپنی خدائی،معجزے،کرشمے اور قدرت دکھانے کی خاطر اور اپنے نا ماننے والے کفر و شرک کرنے والوں کو اپنا آپ منوانے کے لیے معجزے اور کرشمے سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بن باپ کے پیدا کر دکھایا تو کم اور بد عقل کفاروں نے ربّ رحمٰن پے ایمان لانے کی بجائے عیسیٰ علیہ السلام کو ہی خدا کا بیٹا ماننا شروع کر دیا، مطلب ایک چھوٹی جہالت سے نکل کر بڑی جہالت میں جا پڑنا۔

سٹیفن ہاکنگ جو بہت بڑا سائنسدان مانا جانا جاتا ہے،معذرت ہے نہیں تھا، اسکی سائنس بھی اسے ٹھیک نا کر پائی، اسکی سائنس اسے نئی زندگی نا دے پائی اور وہ بھی قدرت کے بنائے ہوئے قانون کے تحت ایک وقت مقررہ تک دنیا میں رہنے کے بعد موت کی آغوش میں منّوں مٹی تلے جا سویا۔

کہاں گیا سٹیفن اور کہاں گئی اسکی سائنس۔ دھری کی دھری رہ گئی نا، سٹیفن دنیا سے چلا گیا اور سائنس اسے روک بھی نا سکی بلکہ ٹک ٹکی باندھے سٹیفن کو جاتے اور دفن ہوتے دیکھتی رہ گئی۔

میں پھر کہہ رہا ہوں، میں سائنس کو مانتا ہوں مگر اس سے پہلے میں اللہ کو مانتا ہوں، اللہ کی قدرت اور اس کے کُن فیکون کو مانتا ہوں، میں سائنس پے ایمان رکھتا ہوں مگر اس سے پہلے اپنے اللہ عزوجل پے ایمان رکھتا ہوں،اسکی طاقت،معجزے اور کرشمے پے ایمان رکھتا ہوں اور یہ ایمان رکھتا ہوں کہ میرے اللہ بے دیگر باتوں کی طرح سائنس کو بھی انسان کی خیروبھلائی کے لیے پیدا کیا، تاکہ انسان اللہ کی بنائی ہوئی چیزوں اور باتوں سے فائدہ اٹھا کر اس کے حضور شکر گزار اور احسان مند رہے۔

اللہ ہی سب کچھ ہے، دنیا کی ہر اچھی،بھلی اور خیر کی بات اللہ ہی کی زات سے جڑی ہے، اسی نے ہر اچھی بھلی اور خیر و بھلائی اور فائدے کی بات کو پیدا اور تخلیق کیا تاکہ انسان دنیا کی زندگی میں اس سے فائدہ و نفع اٹھا سکے۔

خدارا ! سائنس سے فائدہ لو، اسے اپنا باپ یا خدا نا بناؤ۔

نوٹ: تحریر میں کوئی بھی دینی بات کے بیان کرنے میں کمی پیشی ہوئی تو اسکی تصحیح کر دے اور اللہ اس کمی پیشی کو معاف فرمائے یا سائنسی بات کے بیان کرنے میں کوئی کمی پیشی رہ گئی ہو تو سائنس اور سائنسدانوں سے معذرت۔

Saturday, 18 January 2020

ہم پاکستانی

چند دن پہلے ایک پاکستانی کے ہاں مجھے نوکری کرنے کا اتفاق ہوا اس کا کہنا تھا کہ وقاص بھائی مجھے میری بیوی کہتی ہیں "آپ ہر بار پاکستانیوں کو ہی نوکری پے رکھتے ہیں اور ہر بار پاکستانی آپ کو دھوکہ دیتے اور ٹھگتے ہیں" اور نوکری کے ٹھیک تیسرے دن کی شام کو میں نوکری چھوڑ دیتا ہوں اور اس پاکستانی کا اپنی بیوی سے منسوب کردہ بات میرے زہن میں ہتھوڑے کی طرح گھومنے لگ جاتی ہے۔

منزل

مشکل راستوں سے گزرنے کے بعد منزل کا ملنا تو دور منزل کا فقط دکھ جانا ہی انسان کو نہال کر جاتا ہے۔

بھوک

بھوک پیٹ کی ہو یا علم کی کچھ نا کچھ سیکھاتی ہے اور جانتے ہو کہ پیٹ اور علم کی بھوک کب ختم ہوتی ہے جب زندگی ختم ہوتی ہے۔

نکاح

نکاح کے وقت اس نے الگ اور منفرد انداز اپنایا وقاص
جھکی پلکوں کو تین بار جھپکا کر قبول ہے کہہ دیا۔

تعلیم یافتہ و انپڑھ

میں پورے یقین کامل سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر دنیا کی ساری اچھی نوکریاں، اچھے کاروبار اور ساری عزت اگر انپڑھ لوگوں کے حصے میں آیا کرتی تو دنیا میں کوئی انسان کبھی بھی تعلیم حاصل کرنے کی کوشش تک نا کرتا بلکہ سب انپڑھ ہی رہتے کیونکہ دنیا میں تعلیم حاصل کرنے کی نیت، مقصد اور زاویہ فقط مادہ پرستی و مفاد پرستی میں ہی بدل کے رہ گیا ہے اس لیے آج جگہ جگہ تعلیم یافتہ تو مل جاتے ہیں مگر انسانیت رکھنے والا انسان شاز و نادر ہی ملا کرتا ہے۔

انسانیت

نفرت ہوتی ہے مجھے بعض دفعہ انسان ہونے پے بھی یہ سوچ کر " کہ حیوان ہر وقت اپنی حیوانیت اور شیطان ہمیشہ اپنی شیطانیت میں قائم رہتا ہے جبکہ واحد انسان اپنی انسانیت پے قائم نہیں رہتا ہے۔

میٹھی چھری

منافق اور میٹھی چھری انسان مالک کی ہر کڑوی کسیلی بات کو ہنس کر ٹال دیتا ہے جبکہ بعد میں مالک کو نقصان دیتا اور اسکی جڑیں کاٹتا رہتا ہے اس کے برعکس سچا کھرا، سیدھا اور مخلص انسان مالک کے مال و جان کی دل سے حفاظت اور دیکھ بھال کرتا ہے پر مالک کی ناانصافی پے مبنی کسی بات کے جواب میں جب سچی کھری اور سیدھی بات کرتا ہے تو مالک اسے نوکری سے برخاست کر دیتا ہے جبکہ منافق میٹھی چھری نوکری پے قائم رہتا ہے۔

ایک بات

ایک بات یاد رکھیں

کہ انسان کو انسان، شیطان کو شیطان اور حیوان کو حیوان ہی راس آتے ہیں

مسئلہ وہاں پیدا ہوتا ہے جب انسان کسی شیطان و حیوان سے جا ملتا ہے یا شیطان و حیوان کسی انسان سے جا ٹکراتا ہے، تب وہاں سے اختلاف ،تُو تُو میں میں، لڑائی جھگڑا اور فساد شروع ہوتا ہے۔

خاصیت

ربّ رحمٰن پتا ہے کس کو اپنا بناتا اور خود کس کا بنتا ہے جو اس کی صفات کو اپنے اندر لاتا اور پیدا کرتا ہے جیسے ربّ رحمٰن کی صفات و شان میں سے ایک صفت اور شان یہ بھی ہے کہ دنیا کا کوئی انسان بھی ربّ رحمٰن کو نا مانے نا پوجے نا اسکا نام لیوے اور نا ہی اسکا بنے مگر وہ پھر بھی سب کا ہوتا ہے، سب کو پالتا پوستا ہے، سب کو بلاتفریق نعمتوں سے نوازتا ہے کیونکہ وہ "ربّ رحمٰن" سب کا جو ہوتا ہے

اور جو انسان ربّ رحمٰن کی یہ صفت اپنے اندر پیدا کر لے تو ایسے بندے کے بارے ہی ربّ رحمٰن فرماتا ہے کہ میں اس کی آنکھ بن جاتا ہوں، اس کا ہاتھ اور پیر بن جاتا ہوں حتکہ اس کا دل بن جاتا ہوں اور میں اس سے راضی و خوش ہو جاتا ہوں۔

حساب

ملازم اگر اپنی تنخواہ سے ایک روپیہ بھی ضرورت سے زائد اپنی جیب میں ڈال لے تو مالک اس سے پوچھ گوچھ کرتا ہے تو پھر انسان جب ربّ رحمٰن کی نعمتوں کو بے دریغ اور ضرورت سے زائد استعمال اور زائع کرے گا تو اس سے بھی روزِ آخرت ایک ایک بات کا حساب کتاب لیا جائے گا جیسے کہ ربّ رحمٰن نے فرمایا " کہ اس دن چھوٹی سے چھوٹی بدی اور چھوٹی سے چھوٹی نیکی کا بھی پورا پورا حساب کتاب کیا جائے گا۔

حقیقت

دنیا پتا ہے کیا ہے؟ دنیا کو اگر کسی کرپٹ انسان سے فائدہ اور مفاد مل رہا ہے تو اور ایک اچھے انسان سے فائدہ و مفاد نہیں مل رہا تو دنیا کرپٹ انسان سے رشتہ ناتہ جوڑ لے گی اور اچھے انسان کو چھوڑ چھاڑ دے گی۔۔یہ ہے دنیا اور یہی ہے اس دنیا کی تلخ، کڑوی اور بھیانک حقیقت۔

غلطی کوتاہی

بچے سے گر کوئی غلطی کوتاہی ہو جائے تو والدین کے سامنے جوابدہ ہونے کے ڈر سے والدین کے پوچھنے پے ان کے سامنے ہاتھ جوڑے معافی مانگ کے کھڑا ہو جاتا ہے اور والدین بچے کی غلطی کو بھول کر اس کے سیدھے،سچے اور کھرے پن والے انداز پے فریفتہ اور واری جاتے ہیں اور اسکو آگے بڑھ کر گلے لگاتے اور پیار اور اپنائیت بھرے لہجے میں کہتے ہیں کہ بیٹا آئندہ یہ غلطی اور بھول چوک مت کرنا

اے خالق و مالک میں بھلے کتنا ہی بڑا کیوں نا ہو جاؤں اور بن جاؤں پر تیرے حضور تو چھوٹا اور حقیر ہی رہوں گا نا تو اگر مجھ سے جب کوئی غطی اور بھول چوک ہوتی ہے تو میں تیرے حضور تجھے جوابدہ ہونے کے ڈر سے ہاتھ جوڑے معافی مانگے کھڑا ہوتا ہوں تو پھر تو آگے بڑھ کر مجھے گلے لگا کر پیار اور اپنائیت سے فرما دیا کر کہ اے میرے بندے آئندہ یہ غلطی بھول چوک مت کرنا۔۔!

تھامنا اور ڈھانپنا

انسان کی زندگی میں کوئی ایک تو ایسا انسان ہو جس کے پاس انسان بے خوف و خطر اپنی ہر ہر بات کھل کے کہے اور وہ آپ کو اپنے دامن میں چھپا لے آپ کو ڈھانپ دے ایسے ہی جیسے انسان اپنے ربّ رحمٰن کے حضور تنہائی میں ہر ہر بات بے خوف و خطر ہو کے کہہ دیتا ہے اور ربّ رحمٰن بندے کو تھام اور ڈھانپ لیتا ہے۔

کاروباری دنیا

کاروباری دنیا کے لوگ مارکیٹ میں چلے ہوئے انسان کو ہاتھوں ہاتھوں لیتے ہیں مگر ایسے میں گر کوئی تمہیں انسانیت کے ناتے کاروباری دنیا میں ہاتھ پکڑ کر چلنا سیکھائے اور تمہارے ٹھیک ٹھیک واجبات بھی ادا کرتا رہے تو ایسے میں اس انسان کو کبھی چھوڑنا مت پھر اس کے ساتھ اسوقت تک چلنا کم سے کم جب تک وہ مارکیٹ کے لحاظ سے چلتا رہے۔

چلنا

جو تمہیں دنیا میں چلنا سیکھائے اس کے ساتھ کبھی چالو پن سے پیش مت آنا،کیوں! کیونکہ جس نے تمہیں چلنا سیکھایا تم اس کے ساتھ نہیں چل سکے تو کسی اور کے ساتھ کیا اور کیسے چلو گے؟ پھر تم چلنا چاہو گے بھی تو چل نہیں پاؤ گے اور بار بار گرتے پڑتے رہو گے اور کیا پتا گرنے پڑنے کی وجہ سے تم چلنے کے قابل ہی نا رہو، اس لیے ایک اصول اپنا لو کہ جو تمہارے ساتھ چلے کم سے کم اس کے ساتھ تو ضرور چلو،جہاں تک چلا جا سکے۔

اہم و وہم

کوئی بھی کچھ بھی اہم نہیں ہوتا ہے، گر کوئی اور کچھ اہم ہوتا ہے تو مطلب اہم ہوتا ہے، فائدہ مفاد اہم ہوتا ہے اور اپنا آپ اہم ہوتا ہے ہاں باقی سب کچھ اور سب بیکار ہوتا ہے۔

Friday, 17 January 2020

بوجھ

بوجھ دو قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ جب اٹھایا جاتا ہے تو نظر آتا ہے ایک وہ جو ہر وقت دل دماغ پے بوجھ بن کے سوار رہتا ہے اور جو کسی کو نظر بھی نہیں آتا ہے اور بیشک نظر نا آنے والے بوجھ ہی اکثر انسان کی جان لے جایا کرتے ہیں۔

احساس

ایک روم میٹ سال بھرے سے وقت بے وقت اپنی من مرضی سے موبائل پے اونچی آواز میں گانے فلمیں چلاتا آ رہا تھا آج جب میرے صبر کی حد ختم ہوئی تو میں نے اسی کے انداز میں اونچی آواز میں گانا چلانا تھا کہ تو تھوڑی سی جھڑپ ہو گئی اسکا کہنا تھا کہ اونچی آواز میں گانا کیوں چلایا ہے...

ایک اور دوست نے بتایا کہ میں کسی کے پاس اسکے دفتر ملنے گیا تو بڑی شان بے نیازی سے اس نے دونوں ٹانگے ٹیبل کے اوپر رکھ دی جو میرے منہ سے باکل قریب تھی، میں نے بھی فوراً اسی کے انداز میں دونوں ٹانگیں ٹیبل پے رکھ دی تو وہ بولا او سوری مجھے احساس نہیں ہوا۔۔۔

نوٹ: پہلی بات کہ لوگوں کو انہی کے انداز میں ملو تو برا کیوں مان جاتے ہیں؟

دوسری بات کہ جب تک کسی کو احساس نا دلاؤ تو اُسے خود احساس کیوں نہیں ہوتا؟

تیسری بات، دوسروں کی جو بات ہمیں بری لگتی ہے ہو بہو وہی بات آخر ہم دوسروں کو کیوں دیتے ہیں؟

وقاص

زندگی


وقت پے زندگی ملتی رہے تو انسان جیتا رہتا ہے پر زندگی کے پیچھے بھاگ بھاگ کے جب انسان تھک ہار جاتا ہے پھر زندگی بانہیں پھیلا کے سامنے بھی کھڑی ہو تو انسان پہلے تو زندگی کو حیرت سے تکتا اور گھورتا رہتا ہے کہ زندگی اب کیا کرنے آئی ہے۔۔اور پھر زندگی سے منہ موڑ کے کھڑا ہو جاتا ہے۔

Thursday, 16 January 2020

خوبصورتی

تمہارے پاس اگر ظاہری خوبصورتی ہے تو میرے پاس سوچ کی خوبصورتی ہے، تمہاری خوبصورتی ایک وقت کے بعد ڈھل کر ختم ہو جائے گی جبکہ میری سوچ کی خوبصورتی میرے ڈھلنے اور مر جانے کے بعد بھی خوبصورت ہی رہے گی۔

سفر suffer

دنیا تب تمہارے ساتھ چلتی ہے جب تم کامیاب ہو جاتے ہو،سفر کی حالت میں کوئی تمہارے ساتھ نہیں چلتا اور جو کوئی سفر کی حالت میں بھی تمہارے ساتھ Suffer کرے تو پھر منزل پے پہنچنے پے اس کا ساتھ کبھی مت چھوڑنا۔

بھوک

بھوک

آئے روز کہیں نا کہیں سے خبر سننے پڑھنے کو ملتی رہتی ہے کہ نومولود بچے کو کچرے کے ڈرم میں پھینک دیا گیا، نومولود بچے کو فلش، گٹر یا نالی میں بہا دیا گیا وغیرہ وغیرہ۔

میں سوچ رہا تھا کہ جس معاشرے میں پیٹ کی بھوک حلال زرائع سے پوری نا ہوتی ہو، جہاں ایک وقت کی روٹی مل جانے کے بعد دوسرے وقت کی روٹی کی فکر ستاتی ہو ایسے معاشرے میں حلال زرائع ( نکاح ) سے جنسی بھوک کیسے پوری ہو سکتی ہے، کہ جہاں ایک دن کے کھانے کی قیمت اگر 300 روپے ہے تو نکاح کرنے کے لیے زمین، گھر، بجلی،گیس، پانی اور مستقل روزگار کے لیے لاکھوں روپے درکار ہیں جو کہ ناممکن سا ہو کے رہ گیا ہے تو پھر ایسی خبروں کا عام ہونا کوئی خاص، انہونی،اچھوتی یا اچھنبھے کی بات تو نہیں ہے، اگر ہمارے ملک کی خدانخواستہ یہی حالت رہی تو زنا بالرضا مزید عام ہو جائے گا جس کے خطرناک اور بھانک نتائج سامنے آئیں گے اور خاندانی نظام و نظم و ضبط درہم برہم اور تباہ ہو کے رہ جائے گا۔

قیامت کی بہت سی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ قیامت کے نزدیک بے حیائی اور زنا فنا عام ہو جائے گا پر یہاں میرا آپ سب سے ایک سوال ہے آیا کہ آخری زمانے میں کیا زنا صرف بے حیائی کی وجہ سے ہی پھیلے گا؟

جہاں 40% زنا اگر بے حیائی کی وجہ سے پھیل رہا ہے تو وہیں 60% زنا غربت و افلاس کی وجہ سے پھیل رہا ہے۔۔لڑکیوں کے سر میں چاندی آ جاتی ہے مگر رشتے نہیں آتے، لڑکوں کی 35،35 سال عمریں ہو جاتی ہیں مگر وہ پھر بھی بے گھر اور بیروزگار مارے مارے پھر رہے ہوتے ہیں۔۔ایسے حالات میں ایک شریف زادی اپنا اور اپنوں کا پیٹ بھرنے کی خاطر بہت ہی سستے میں (روٹی کی قیمت میں) اپنا جسم بیچتی نظر آتی ہے اور لڑکا کہیں دھاڑی مزدوری کرکے سستے میں لڑکی کا جسم خریدتا نظر آتا ہے یا شادی کا انتظار کرتے کرتے لڑکا لڑکی شادی نا ہونے کے سبب اپنے جنسی جذبات کی تسکین شادی سے پہلے ہی پوری کر لیتے ہیں کہ آخر کب تک انتظار کیا جائے۔۔مگر حلال کی نا تو روٹی میسر آتی ہے نا ہی حلال کی زندگی ملتی ہے ۔۔ایسے میں میرے اور آپ جیسے کچھ لوگ منہ میں انگلیاں دبا لیتے ہیں، کچھ منہ پے ہاتھ رکھ لیتے اور کچھ کانوں کو ہاتھ لگا لگا کر کہتے نظر آتے ہیں کہ ہائے کیسا زمانہ آ گیا ہے کلموہی کو زرا بھی شرم نا آئی منہ کالا کرتے اور پھر اب بچے کو زندہ مارنے چلی تھی۔۔اس بغیرت کو شرم نا آئی کہ گھر میں کنواری بہنیں بیٹھی ہیں اور دوسروں کی بہن بیٹیوں کی عزت جو تار تار کرتا پھرتا ہے۔۔مگر کوئی بھی گہرائی میں نہیں اترتا کہ آخر ایک شریف زادی اور ایک شریف زادہ کیسے حرام کاری کرنے پے تُل گئے۔۔۔! اتنی ہمت و حوصلہ آخر کب کیسے اور کیونکر آ گیا۔۔اتنی نفاسانیت اور شیطانیت آخر کیسے اور کس طرح سے آ گئی۔۔

آہ۔۔۔کیا ہی خوب کہا کسی نے " کہ وقت کرتا ہے پرورش برسوں۔۔حادثے اچانک نہیں ہوا کرتے ہیں"۔

"عظیم ہیں وہ لوگ جو انسان کی پیٹ کی اور جنسی بھوک کو مٹانے میں انسانوں کے لیے حلال مواقع اور زریعے پیدا کرتے ہیں اور انکی زندگیوں میں آسانیاں لاتے ہیں"۔

وقاص