آگ کی تپش فقط اسوقت محسوس ہوتی ہے جب وہ اپنے تن کو لگتی ہے دوسروں کے تن کو لگی ہوئی آگ تو ہمیشہ تماشہ لگتی ہے۔
Copy.
السلام علیکم اس بلاگ میں آپ کو ہر وہ بات ملے گی جسمیں انسانوں کے لیے انسانیت کا میسج ہو گا ایسا میسج جو آپ کو کچھ سوچنے،سمجھنے اور پرکھنے پے مجبور کرے گا۔ تو خود بھی جوائن کریں اعر دوست احباب کو بھی Invite کریں۔ شکریہ۔ وقاص
آپ لوگوں کو جب لاجواب کر دیتے ہیں تو وہ آپ سے متاثر ہوکے آپ کو عزت دیتے ہوئے آپ کا دوست بننے کی بجائے آپ سے بیر رکھ کے آپ سے نفرت کرکے آپ کے دشمن بن جاتے ہیں
بچوں کے ضدی بننے میں کن باتوں کا دخل ہورا ہے اور وہ کون سی وجوہات اور پہلو ہوتے ہیں کہ ایک بچہ جا اچھا بھلا نوجوان بھی والدین،بہن بھائیوں یا آس پاس کے رشتوں سے ضد لگا لیتا ہے کہ اچھا جب آپ مجھے ایسا کہہ اور سمجھتے ہیں تو ہاں میں ایسا ہی ہوں یا ایسا ہی اب بنوں گا۔
ہماری نظر میں صرف وہی برا ہوتا ہے جو کام ہم نہیں کرتے اور ہماری نظر میں فقط وہی اچھا ہوتا ہے جو کام ہم کرتے ہیں۔
انسان جیسا دکھتا ہے ویسا ہوتا نہیں ہے،اسے دیکھنے کے لیے نظر کی نہیں نظریے کی ضرورت ہوتی ہے۔
Copy.
مجھے بھی انسان بس نظر سے دیکھتے ہیں نظریے سے نہیں دیکھتے۔
نظر سے دیکھنے کے بعد کوئی آپ کے قریب آئے یا نا آئے پر جب کسی کو اسکے نظریے سے دیکھا جاتا ہے تو انسان پھر کبھی ایسے انسان سے دور نہیں جانا چاہتا۔
کہتے ہیں دنیا میں صرف دو قسم کے انسان ہوتے ہیں ایک اچھے اور دوسرے برے۔ ۔ ۔ غلط کہتے ہیں۔ ۔ ۔ دنیا میں تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں ایک اچھے دوسرے برے اور تیسرے تھوڑے اچھے اور تھوڑے برے۔ ۔ ۔ اچھے تو اچھے ہوتے ہیں اور برے صرف برے ہوتے ہیں پر تھوڑے اچھے اور تھوڑے برے نا اچھے نا ہی برے ہوتے ہیں یہ اچھے بننا چاہتے ہیں اور برائی سے بچنا بھی چاہتے ہیں پر حالات و واقعات انہیں ایسے موڑ پے لا کھڑا کرتے ہیں کہ یہ چاہ کے بھی اچھے نہیں بن پاتے، اچھائی اور برائی کے درمیان لٹکے اور اٹکے رہتے ہیں کبھی اچھائی تو کبھی برائی انہیں اپنی طرف کھنیچ لیتی ہے۔ ۔ ۔ پر انسان کی اس تیسری قسم کو جب کبھی بھی پوری طرح سے اچھائی ملتی ہے اور مکمل اچھا بننے کا موقع ملتا ہے تو یہ اچھے انسانوں سے بھی زیادہ اچھے بن کے معاشرے میں سامنے آتے، ابھرتے،نکھرتے اور سنوارتے ہی چلے جاتے ہیں " کہ خود اچھے انسان بھی ان اچھے انسانوں پے رشک اور فخر کرتے ہیں" ۔
جب حیوانوں کی دنیا میں حیوان ڈھونڈنے نہیں پڑتے تو پھر انسانوں کی دنیا میں" انسان " کیوں ڈھونڈنے پڑتے ہیں۔ ۔ ۔!!!
انسان ہر اس غلط بات کو ہی فقط غلط کہتا ہے جو اسکے فائدے اور مفاد میں نا ہو پر جس غلط بات میں اسکا فائدہ اور مفاد ہو اس غلط بات کو بھہ صحیض اور ٹھیک کہتا ہے۔
میری فطرت میں شامل ہے کہ مجھ سے غیر فطری، غیر اخلاقی اور غیر شرعی کسی قسم کا کوئی بھی کام جانے انجانے میں ہو جائے تو میں کئی کئی دن خود سے نفرت کرتا رہتا ہوں، خود سے ہی بھاگتا رہتا ہوں، خود کا سامنا نہیں کر پاتا اور غلطی سے بھی آئینے کے سامنے آ جاؤں تو آئینے میں خود کو نہیں دیکھتا
میں یہ سوچتا ہوں کہ کوئی بھی غیر فطری،غیر اخلاقی و غیر شرعی کام کے ہو جانے پے میں جب خود کا سامنا کرنے سے کتراتا اور خود سے بھاگتا رہتا ہوں تو روز آخرت ربّ رحمان کے سامنے کیسے اور کس منہ سے پیش ہونگا؟ کیسے ربّ رحمان کا سامنا کر پاؤں گا؟
بس دل چاہتا ہے کہ موت کے بعد میں کیسی ایسی دنیا اور ایسی جگہ چلا اور بھیج دیا جاؤں جہاں میں صحیح معنوں میں انسانیت سے بھرا انسان ، مسلمانیت سے بھرا مسلمان اوت اور مومنیت سے بھرا مومن بن سکوں اور پھر مجھے موت دی جائے اور میں ربّ رحمان کے حضور سرخرو ہو سکوں اور ربّ رحمان بھی میری طرف نظر التفات فرمائے اور مجھ سے بھرپور راضی و خوش ہو جائے
کاش۔ ۔ ۔کاش۔ ۔ ۔ کاش۔ ۔ ۔ کہ ایسا ہی ہو جائے۔آمین۔
میں جب پاکستان اور ابّا جی سعودیہ تھے تو Skype پے بات ہوتی تھی تو بات سے بات کے دوران ابّا نے کہا کہ تُو جب سعودیہ تھا میری ٹانگیں دباتا تھا اور مجھ سے بات چیت کر لیا کرتا تھا تو اب جبکہ تو پاکستان ہے تو مجھے وہ دن بڑے یاد آتے ہیں پھر بات کا رخ بدلا اور ابّا نے میری کسی بات پے کہا کہ انسان آخر کس سے اپنے دل کا حال بیان کرے کس سے گلے شکوے کرے اللہ سے نا کرے تو کس سے کرے
میں نے جھٹ سے کہا کہ آپ اللہ سے اپنا حال دل بیان تو کر سکتے ہیں پر گلے شکوے نہیں کر سکتے۔ ۔ ۔
تو ابّا نے کہا کہ اللہ سے گلے شکوے نا کریں تو پھر انسان سے کریں اس انسان سے جو کوئی بات سننے کا روادار نہیں ہے
اور آج میں اس میں تھوڑا سا مزید کچھ کہنا چاہتا ہوں کہ جب کوئی بچہ کسی دوسرے بچے کو مارتا پیٹتا ہے تو مظلوم بچے کے والدین ظالم بچے کے والدین سے رابطہ کرتے اور شکوہ شکایات کرتے ہیں کہ آپ کے بچے نے ہمارے بچے کو مارا پیٹا اور اس کے ساتھ ظلم و زیادتی کی ہے انسان کس کی مخلوق ہے,یقیناً اس بزرگ و برتر ربّ رحمان کی تو جب ایک انسان دوسرے انسان سے انسانیت سے پیش نہیں آئے گا، اپنے مفادات کی خاطر دوسرے انسان کو نقصانات پہنچائے گا، اپنے نفس و حوس میں دوسروں کا رزق چھینے گا تو پھر متاثرہ و مظلوم اللہ کے پاس اپنے مدعا اور گلے شکوے لے کر نہیں جائے گا تو پھر کس کے پاس جائے گا؟
جب ربّ رحمان کے بندے مظلوم کی داد رسی نا کریں، اسکی مشکل و پریشانی کو نا سنیں تو پھر وہ اللہ ربّ العزت کے سامنے گلے شکوے نا کرے تو پھر کس سے کرے
آپ ہی بتا دیں کہ انسان اپنے گلے شکوے اللہ سے نا کرے تو کس سے کرے۔ ۔ ۔؟؟؟
کچھ باتیں جو ہمارے کام کی نہیں ہوتی، جنمیں ہمیں دلچسپی نہیں ہوتی پھر بھی انہیں لے اور سن لینا چاہیے۔ ۔ ۔کیونکہ نہیں پتا کہ جو بات ابھی ہمارے کام کی نہیں، پر آنے والے وقت میں وہ بات ہمارے کسی کام آ جائے۔
زندگی پانے کا نام نہیں بلکہ کھونے کا نام ہے ہر وہ انسان اور ہر وہ شے جسے انسان اپنے آپ سے بھی زیادہ عزیز رکھتا ہے اس انسان اور اس شے کو کھونا پڑتا ہے اور پھر جو کھونے میں حاصل ہوتا ہے وہ کبھی پانے میں کوئی حاصل نہیں کر پاتا ہے۔
پردیس میں پردیسی کام سے تھک ہار کے جب رات کو گھر آتے ہیں تو گھر میں ہی کھانا پکاتے ہیں
تو کل جب میں کام سے گھر آیا اور پیاز کاٹ رہا تھا تو میرا زہن منتشر تھا ،کچھ Family Matter پے سوچ و فکر زہن میں گردش کر رہی تھی اور ساتھ پیاز بھی کاٹ رہا تھا بس انگلی کٹتے کٹتے بچی عین اسی وقت مجھے خیال آیا کہ عورتوں کے جو انگلیاں کٹتی یا جلتی ہیں تو وہ بھی کھانا پکاتے وقت اپنی کسی سوچ و فکر میں گم ہوتی ہیں اپنی الجھنوں کو سلجھا رہی ہوتی ہیں تبھی انکے ہاتھ کٹتے اور جل جاتے ہیں
Am i Right?
آپ کو پتا ہے کہ حضرت انسان جنت سے کس بات پے نکالا گیا تھا؟
آدم و حوا علیہ السلام کے ایک دوسرے کے سامنے بے پردہ ہو جانے کی وجہ سے۔
اور آج لڑکے لڑکیاں فقط بے پردہ نہیں ہوتے بلکہ بے پردہ ہونے کے ساتھ ساتھ شرم و حیا، عزت و عفت کی ساری حدیں پھلانگ جاتے ہیں اور ربّ رحمان کی رحمت کے سائے تلے سے نکل کے اور شیطان کے سائے تلے چلے جاتے ہیں اور شیطان انہیں دو جہانوں میں اسی طرح ربّ رحمان کے نعمتوں سے محروم کیے رکھتا ہے جیسے اس نے انسان کے ماں باپ آدم و حوا کو جنت سے نکلوا کے بیشمار نعمتوں سے محروم کروایا تھا۔
تو بے پردگی و بے حیائی انسان کو زلت و رسوائی کے اس نچلے سے بھی نچلے درجے پے لے جاتی ہے جو سیدھا جہنم میں جا پہنچتا ہے۔
کچھ چہرے اور کچھ آوازیں بھلائے بھی نہیں بھولتے اور بس جی چاہتا ہے " ہم جب جب چاہیں فوراً سے پہلے وہ چہرے سامنے آ جائیں وہ آوازیں کانوں میں رس سا گھول جائیں۔
بیوی اس شوہر کی اتنی عزت نہیں کرتی جس نے اس سے شادی کے وقت جہیز لیا ہو جتنی اس شوہر کی عزت و احترام کرتی ہے جس نے جہیز لینے سے ہی انکار کر دیا ہو۔
کبھی ایسا ہوا کہ قرآن پاک کی تلاوت،آذان،نعت یا کوئی دل کو چھو جانے والا بیان سنتے وقت آپ پے رقت طاری ہو گئی ہو، پل بھر میں دل کی کیفیت ہی بدل گئی ہو،آپ اپنی سدھ بدھ کھو بیٹھے ہوں اور آنکھوں سے ٹھاٹھے مارتا ہوا سمندر بے اختیار
ہو کے بہہ نکلا ہو اور ایسے میں دنیا سے دل اچاٹ سا محسوس ہونے لگ گیا ہو۔ ۔ ۔ اگر آپ ایسی کیفیت سے کبھی گزرے ہیں تو آپ کامل مومن نا سہی پر آپ میں مومنا صفات میں سے کوئی نا کوئی مومن صفت موجود ضرور ہے۔ ۔ ۔ بس کامل مومن بننے کے لیے اپنے تن من کو زرا سا کھنگالنا ہے اور ایک دن آپ کامل مومن بن جائیں گے۔ ۔ ۔مومن کی صفات میں سے ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ معاف کرنے والا اور لینے کی بجائے دینے اور نوازنے والا ہوتا ہے۔
معاشرے میں کچھ انسان خود غرض و اذیت پسند ہوتے ہیں دوسروں کو اذیت و تکلیف دینا ہی انکا پسندیدہ مشغلہ ہوتا ہے اور انکی کوئی بھی طلب،خواہش آرزو ، منت و مراد جب پوری نہیں ہوتی تو وہ دوسروں کو زلیل و رسوا کرتے اور اذیت دیتے رہتے ہیں، دوسروں کو اذیت دینے میں انہیں مزا آتا ہے، اپنے نفس کی تسکین کا سامان کرتے رہتے ہیں اور دوسروں کو دکھ درد دے کے اپنی دکھ درد کا ازالہ کرنے کی ناکام کوششیں اور سعی کرتے رہتے ہیں، دوسروں کو اذیت دے کے اپنے اندر کے خالی پن کو بھرنے کی ناکام کوشیشیں کرتے رہتے ہیں اور اگر انکو اپنے آس پاس کے انسانوں کو ازیت دے کے بھی اپنے سارے مقاصد حاصل کرنا پڑیں تو وہ حاصل کر گزرتے ہیں ۔ ۔ ۔ ہاں۔ ۔ ۔ ایسے انسان ہی شیطان و حیوان کہلاتے ہیں
اسی طرح معاشرے میں کچھ انسان خود اذیت پسند ہوتے ہیں وہ خود اذیت پسند انسان۔ ۔ ۔ جنکا دوسروں کے دکھ درد کو بانٹنا پسندیدہ مشغلہ ہوتا ہے اور انکی کوئی بھی طلب،خواہش آرزو ، منت و مراد جب پوری نہیں ہوتی تو وہ دوسروں کی طلب،خواہش،آرزو اور منت و مرادوں کو پورا کرتے رہتے ہیں، دوسروں کو خوشیاں دے کر انہیں مزا آتا ہے، ایسے میں اپنی روح کی تسکین کا سامان کرتے رہتے ہیں اور دوسروں کے دکھ درد کو بانٹ کے اپنے دکھ درد کا ازالہ کرنے کی کوششیں اور سعی کرتے رہتے ہیں، دوسروں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرکے اپنے اندر کے خالی پن کو بھرنے کی کوشیشیں کرتے رہتے ہیں اور ۔ ۔ ۔ اور اگر انکو اپنے آپ کو دکھ درد،تکلیف اور اذیت دے کے بھی اگر آس پاس کے انسانوں کے جائز و نیک مقاصد پورے کرنے پڑیں تو وہ خود کو دکھ درد،تکلیف اور اذیت دینے سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں۔ ۔ ۔ ہاں ۔ ۔ ۔ ایسے انسان ہی درحیقیقت انسان،مسلمان اور مومن کہلاتے ہیں۔
آپ نے کیا بننا اور کہلوانا ہے یہ آپ نے طے کرنا ہے۔
آپ کے خیال میں موسم انسان کی طبیعت و مزاج پے کتنا اثر انداز ہوتے ہیں
مجھے سردیوں سے بہت کوفت ہوتی ہے، دل اوبنے اور ڈوبنے سا لگتا ہے، خاموشی،ویرانی اور اداسی سی محسوس ہوتی ہے مجھے سردیوں میں اور طبیعت بہت زیادہ بے چین، افسردہ افسردہ سی رہتی ہے، جیسے سب کچھ ختم ہو گیا ہو یا سب کچھ تباہ و فناہ ہو گیا ہو اور چار سو ہُو کا عالم ہے
سردی آپ کے نزدیک کیسا موسم ہے اور آپ سردی کو کیسا دیکھتے ہیں؟
یہ انتظار اتنا طویل کیوں ہو جاتا ہے " کہ بعض دفعہ زندگی ہارنے اور تکھنے لگتی ہے مگر یہ بے رحم انتظار ختم نہیں ہوتا بلکہ پھر بھی انتظار ہی رہتا ہے اور اسی انتظار میں بعض دفعہ زندگی تھک ہار کے ہمیشہ کے لیے خاموش ہوجاتی ہے اور یہ انتظار تب بھی انتظار ہی رہتا ہے۔ ۔ ۔
اچھے انسان کے جھوٹ میں بھی کوئی اچھائی چھپی ہوتی ہے اور جھوٹے انسان کے سچ میں بھی کوئی برائی چھپی ہوتی ہے۔
ضرب المثل ہے " کہ گدھا/ گدھی کیا جانے ادرک کا سواد" پر بعض دفعہ ہم واقعی میں کسی گدھے / گدھی کو ادرک کا زائقہ چھکوا کے ہی دم لیتے ہیں پھر چاہے چھکنے کے بعد الٹی کرکے وہ ادرک ہمارے منہ پے ہی کیوں نا تھوک دے پر ہم اسے ادرک کا سواد چھکوانے کے درپے ہوئے رہتے ہیں
نہیں سمجھے۔ ۔ ۔ تو سمجھائے دیتا ہوں کہ گدھے / گدھی طبیعت و مزاج رکھنے والے انسان کے ساتھ گدھا/ گدھی نہیں بنا جاتا بلکہ کنارہ کیا جاتا ہے۔
کیا سمجھے۔ ۔ ۔
آپ لڑکے ہو اور آپ نے کسی کو تن من اور سچے دل سے چاہا ہے پر کسی بھی وجہ سے اس لڑکی سے آپکا نکاح نا ہو سکا اور ایک وقت تک آپ خود سے ناراض رہنے کے بعد اب وقت اور اپنوں کے ہاتھوں مجبور ہو کے کسی اور لڑکی سے نکاح کرنے جا رہے ہو تو کیا آپ اپنی ہونے والی شریک حیات کو اپنی پہلی چاہت کے بارے میں بتاؤ گے؟
آپ لڑکی ہو اور آپ نے کسی کو تن من اور سچے دل سے چاہا ہے پر کسی بھی وجہ سے اس لڑکے سے آپکا نکاح نا ہو سکا اور ایک وقت تک آپ خود سے ناراض رہنے کے بعد اب وقت اور اپنوں کے ہاتھوں مجبور ہو کے کسی اور لڑکے سے نکاح کرنے جا رہی ہو تو کیا آپ اپنے ہونے والی ہمسفر کو اپنی پہلی چاہت کے بارے میں بتاؤ گی؟
اور کیا کسی بھی انسان کو شادی کرتے وقت یا شادی کے بعد اپنی پہلی چاہت ، اپنے ہونے اور بننے والے شریک حیات و ہمسفر کو بتانا چاہیے؟ اگر ہاں تو بتانے کے کیا کیا نقصانات و فائدے سامنے آئیں گے اور اگر نہیں بتاتے تو نا بتانے کے بعد میں، کیا کیا نقصانات یا فائدے سامنے آ سکتے ہیں؟
کبھی زندگی تو کبھی موت اپنی طرف کھینچتی ہے پر نا زندگی نا پار لگتی ہے اور نا موت آر پار ہوتی ہے۔
The Message
اگر ہر وکیل کیس لڑتے وقت آخرت کو زرا سا بھی یاد کرلے کہ روزِ آخرت کوئی وکیل نہیں ہو گا تو کوئی وکیل کبھی جھوٹا کیس نا پکڑے اور اگر ہر جج فیصلہ سناتے وقت آخرت کو زرا سا بھی یاد کرلے تو کوئی جج کبھی ناانصافی پے مبنی کوئی فیصلہ نا سنائے۔ ۔ ۔
بیشک! یوم الآخر نا تو کوئی وکیل ہو گا نا ہی کوئی جج سوائے ربّ رحمان کے، جس دن انسان کے اعضاء ہی اسکی گواہی دیں گے اور اس دن ہر ظالم کو ظلم کرنے کی سزا اور مظلوم کو جزا مل کے رہے گی۔
Pls Join insaaniyat
www.facebook.com/insaanorinsaaniyat
waqas
جب دو انسان مسلسل ایکدوسرے سے بات چیت کرتے رہتے ہیں ، ملتے جلتے رہتے ہیں،پسند نا پسند ملنے لگتی ہے،ایکدوسرے کے لیے احساسات و جذبات جاگنے لگتے ہیں پر ۔ ۔ ۔ پر دونوں اپنے اپنے حالات و معاملات اور خاندانی روایات کو سامنے رکھتے ہیں تو محبت ہونے سے پہلے ہی ایکدوسرے سے خود ہی دور ہو جاتے ہیں۔ ۔ ۔
کیونکہ ۔ ۔ ۔ان راستوں پے نہیں چلنا چاہیے جنکی کبھی کوئی منزل نہیں ہوتی ہے۔
آجکل پاکستان میں کرپشن کا بڑا چرچا ہے تو سوال یہ ہے کہ کیا آپ نے زندگی میں زندگی کے کسی شعبے میں کوئی بھی چھوٹی یا بڑی کرپشن کی؟
اگر کی تو کیوں کس بنا پے کی؟
اور اگر نہیں تو کس بنا و وجہ سے آپ کرپشن سے باز رہے؟
آپ کیا سمجھتے ہیں کہ انسان کے ناپاک رہنے کی وجہ سے انسان نفسیاتی و جناتی اثرات میں گھرا رہتا ہے؟ اور جتنا زیادہ اور جسقدر ناپاک رہتا ہے اتنا زیادہ نفسیاتی و جناتی اثرات میں گھرتا چلا جاتا ہے؟
آپ کا علم و تجربہ اس بارے کیا کہتا ہے؟
جو اور جیسا دور چل رہا ہے اس دور میں کنوارہ لڑکا اور کنواری لڑکی ملنا اہم ہے،ایمان والا لڑکا اور ایمان والی لڑکی ملنا اہم ہے،اچھے کردار و گفتار والا لڑکا و لڑکی ملنا اہم ہے، پھر بھلے لڑکا و لڑکی شکل و صورت میں عام سے بھی ہوں تو نکاح کے بعد دونوں اپنے ایمان اور اعلی کردار و گفتار کی وجہ سے ایک دوسرے کے لیے خاص اور اہم ہو جاتے ہیں اور ایسے جوڑے دنیا میں تو مثالی زندگی گزارتے ہی ہیں آخرت میں بھی کامیاب ہوتے ہیں
پر آج کے دور میں شکل و صورت اور دنیاوی مال و متاع کو اہمیت دی جاتی ہے،پھر بھلے لڑکے کی کتنی ہی گرل فرینڈز جیسی لعنتیں رہ چکی ہوں اور پھر لڑکی کے بھی چاہے کتنے بوائے فرینڈز جیسے لعنتیں رہ چکے ہوں،پھر لڑکا و لڑکا بھلے ہی کنوارے نا رہے ہوں،تو ایسے میں نکاح ہو جانے کے بعد بھی اکثروں کی آپس میں طلاق ہو جاتی ہیں اور دونوں ایکدوسرے کے لیے عام سے بھی عام ہو کے رہ جاتے ہیں،ایسے جوڑے ہی دنیا میں بھی اپنی جگ ہنسائی کا سبب بنتے ہیں اور آخرت میں بھی ناکام رہتے ہیں۔
جب کسی ڈنگر کو اسکی ڈگری کے تحت کوئی عہدہ ملتا ہے تو وہ عوام سے ڈنگر پن سے ہی پیش آئے گا ناکہ انسانیت سے۔
تعلیمی ڈگری لینے کے بعد بھی اگر آپ میں انسانیت پیدا نہیں ہوئی تو وہ ڈگری آپ کے تعلیم یافتہ ہونے کا نہیں بلکہ ڈنگر ہونے کا ثبوت ہوتی ہے کہ ڈگری لے کے بھی ڈنگر کا ڈنگر ہی ہے۔
ہم جب بھی جہالت سے بھرے کسی کام کو دیکھتے سنتے ہیں تو ہر بندے کی زبان پے یہی بات ہوتی ہے کہ یہ اکیسویں صدی ہے اور دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے تو یہ لوگ کیسی کیسی جہالت کر رہے ہیں تو میں یہ کہتا ہوں کہ دنیا کے بننے سے لے کے دنیا کے ختم ہونے تک جہالت اور شعور ساتھ ساتھ رہیں گے دنیا چاہے اکیسویں تو کیا اکتیسویں صدی میں بھی میں بھی داخل ہو جائے پر جہالت ختم نہیں ہو گی کیونکہ قیامت شعور پے نہیں بلکہ جہالت پے ہی قائم ہو گی۔
ایک انسان ربّ رحمان کی محبت میں اٹھتے بیٹھتے،چلتے پھرتے اور جاگتے سوتے اپنی زبان کو زکر و اذکار سے تر رکھتا ہے
اور ایک انسان ربّ رحمان کو اٹھتے بیٹھتے ،چلتے پھرتے اور جاگتے سوتے اپنی پریشانی کو دور کرنے کی لیے یاد کرتا رہتا ہے
بیشک محبت میں ربّ رحمان کو یاد کرنا اعلی و اولا اور افضل ہے۔
بعض دفعہ حالات و وقت اور مجبوری کی حالت میں انسان سے کچھ ناجائز رشتے بن جاتے ہیں پر حالات و وقت کے اچھا ہونے اور مجبوری کے ختم ہو جانے کے بعد بھی اگر ناجائز رشتے استوار و قائم رکھے جائیں تو تب انسان کی پکڑ و گرفت ہونے کے ساتھ ساتھ اس پے عذاب نازل کیا جاتا ہے۔
زندگی سے تو دشمنی چل رہی ہے
موت سے ہی دوستی کر لیں ہم
زندگی تو مل کے نہیں دیتی وقاص
آؤ موت سے ہی گلے مل لیں ہم۔ ۔ ۔
ایک دوست کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول سنایا " کہ جو شخص جلدی کے ساتھ ہر ایک بات کا جواب دے دیتا ہے وہ صحیح جواب نہیں دے پاتا"
تو دوست نے جھٹ کہا " کہ تمہاری طرح"
اب بتائیں کہ کون صحیح ہے میں یا میرا دوست؟
میرا اپنا تجربہ اور اپنی انفرادی سوچ ہے کہ نفسیاتی امراض کے پیچھے 101% حرام کمانا، حرام کھانا اور حرام رشتے بنانا شامل ہے
ان انسانوں اور خاندانوں میں نفسیاتی امراض کی شرع بہت اور نہایت کم ہوتی ہے جو حلال کماتے، حلال کھاتے اور حلال تعلق بناتے ہیں بنسبت ان انسانوں اور خاندانوں کے جو حرام کماتے،حرام کھاتے اور حرام تعلقات بناتے ہیں
مختصراً۔ ۔ ۔ یہ کہ اگر کسی بھی انسان کے ساتھ کسی بھی کسی قسم کا کوئی بھی نفسیاتی مسئلہ یا الجھن ہے تو اسے غور و فکر کرنا چاہیے کہ آیا کہ میرے اس نفسیاتی مسئلے ، الجھن کے پیچھے کونسی اور ایسی کیا حرام بات ہے جسکی وجہ سے میں اس مسئلے اور الجھن میں الجھا ہوا/ہوئی ہوں
اور یہ ضروری نہیں کہ آپ کے حرام کمانے یا حرام کھانے سے ہی آپ کسی نفسیاتی مسئلے اور الجھن کا شکار ہوں بہت ممکن ہے کہ آپ حلال کماتے، حلال کھاتے اور حلال تعلقات بناتے ہوں پر آپ کے آس پاس گھر یا نوکری کی جگہ پے آپکا کوئی اپنا خون کا رشتہ یا دوست حرام کماتا ،حرام کھاتا اور حرام تعلقات بناتا ہو جس کے ساتھ آپ کا تعلق تو حلال ہے پر وہ حرام تعلق بناتا ہو جو آپ چاہتے ہوں کہ وہ حرام تعلق نا بنائے، آپ حلال کھاتے ہیں پر وہ آپ کو اپنے ساتھ حرام کھلاتا ہو اور اس کی وجہ سے آپ نفسیاتی مسئلے و الجھن کا شکار ہوں۔ ۔ ۔ ایسے ہی جیسے شیطان آپ کو سیدھی راہ سے ہٹانے، بہکانے اور بھٹکانے میں جب ناکام ہو جاتا ہے تو وہ کسی اور بہکے اور بھٹکے ہوئے انسان کے زریعے آپ پے وار کرکے آپ کو بہکاتا اور بھٹکاتا ہے
اپنے اوپر اور اپنے آس پاس کے تمام انسانوں پے نظر دوڑائیں وہ وہ انسان جن جن سے آپکا خونی و معاشرتی تعلق ہے اور سوچیں کہ آخر میرے اس نفسیاتی مسئلے، کیفیت اور الجھن کے پیچھے کہیں نا کہیں کوئی نا کوئی غیر شرعی اور حرام کام شامل ضرور ہے جس کی وجہ سے میں اس پریشانی میں گرفتار ہوں۔
کس کس کو اس پوسٹ سے اتفاق و اختلاف ہے؟
میں ایک عرصے تک بلکہ یوں کہہ لو کہ بچپن سے لے کے آج تک اپنی ہر قسم کی فیلنگز کو چھپاتا آیا ہوں کچھ شرم و حیا اور کچھ وہی بات کہ لوگ میرے بارے میں کیا سوچیں گے، کیا رائے قائم کریں گے، اچھا یا برا کہیں گے اور اس جیسی ان گنت باتیں زہن میں گردش کرتی رہتی تھی اور میں اپنی ہر بات کو من میں دبائیں خود سے اور خدا سے ہم کلام ہوتا آیا ہوں۔ ۔ ۔اور یہ سلسلہ آج بھی قائم ہے اور خود سے اور خدا سے یہ رشتہ ان شاءاللہ مزید بہتر اور مظبوط ہو گا، میں بڑا تو ہو گیا پر شائد من سے آج بھی ایک چھوٹے بچے جیسا ہوں جسے ہر بات کہنے میں مشکل پیش آتی ہے جو بچے کے جیسا اظہار و اقرار کرنے میں کمزور سا رہتا ہے
پر اب آ کے حالات اور وقت کی مار کھا کھا کے اپنی من کی ہر بات کو Share کرنے لگا ہوں یہ سوچتے ہوئے کہ وقاص تُو کیا ہے یہ تُو جانتا ہے اور اس سے بڑھ کے تیرا ربّ رحمان تجھے تجھ سے زیادہ بہتر جانتا ہے پھر لوگ کیا اور کیسے سوچتے ہیں انہیں سوچ لینے دے انکی سوچ سے نا تو تُو اچھا بن جائے گا ناہی برا ۔ ۔ ۔
کیا آپ بھی اپنے من کی باتوں کو چھپاتے ہیں یا میری طرح خود سے اور خدا سے ہم کلام ہوتے ہیں یا پھر کھل کے ایک حد اور دائرے میں رہ کے بیان کرتے ہیں؟