السلام علیکم،میں ایک لکھاری ہوں ایسا لکھاری جو ہر موضوعات پے سوچتا اور لکھتا ہے۔

Thursday, 14 December 2017

رائے

کنواروں اور شادی شدہ جوڑوں سے رائے درکار ہے

ہم نے اپنے معاشرے کے بڑے بوڑھوں سے آج تک یہی سنا اور سنتے آئے ہیں " کہ جن کی اولاد ہو جاتی ہے ان جوڑوں میں طلاق کم ہی واقع ہوتی ہے کیونکہ اولاد میاں بیوی کے رشتے کو توڑنے سے روکے اور بچائے رکھنے کے ساتھ ساتھ میاں بیوی کے رشتے میں ایک پُل کا کردار ادا کرتی ہے یعنی معاملہ چاہے کتنا ہی بگڑ یا خراب ہو جائے پر دونوں میاں بیوی اولاد کی خاطر سوچ و بچار کرکے آپس میں صلح کر لیتے ہیں تو یوں زندگی رکتی و چلتی اور آگے بڑھتی رہتی ہے اور شادی کے چند سال گزر جانے کے بعد میاں بیوی کسی اور کافی حد تک ایکدوسرے کو جان،پہچان اور سمجھ لیتے ہیں اور چند سال ساتھ رہنے کی بنا پے وقت کے ساتھ ساتھ زہنی ہم آہنگی بھی بن جاتی ہے "  اور سب سے اہم بات " کہ زندگی اور شادی کا دوسرا نام سمجھوتا ہے، وہ سمجھوتا جو آپ اپنی پہلی شادی پے تو کسی صورت نا کرتے نا ہی کرنا چاہتے ہیں پر بد قسمتی سے پہلی طلاق کے ہو جانے کے بعد خوش قسمتی سے دوسری شادی ہو جانے پے آپ بہت سی جگہوں اور معاملوں پے ہنسی و خوشی سمجھوتا کرنے کو ترجیح دیتے ہیں یہ سوچتے ہوئے کہ وقت کے ساتھ بہت کچھ سنبھل سنور اور سدھر جائے گا اور وہ رشتہ جو آج کچا یا کمزور ہے وہ آنے والے کل میں پکا اور مظبوط ہو جائے گا جو پھر کبھی کسی کے توڑنے پے بھی ٹوٹ نہیں پائے گا۔ ۔ ۔ کیونکہ سمجھوتا نا کرنے پے آپ پہلے اپنی ایک طلاق دے یا لے چکے ہوتے ہیں اور ایک تلخ تجربے سے گزر چکے ہوتے ہیں اس لیے زندگی اور شادی شدہ زندگی کے ساتھ سمجھوتا کرنے کے لیے زہن سازی کر چکے ہوتے ہیں اور دوسری یا تیسری بار طلاق جیسے ناپسندیدہ اور تکلیف دہ تجربے سے پھر سے نہیں گزرنا چاہتے ہیں
۔
۔
۔

پر کئی ایک آدھ جگہ پے شادی شدہ جوڑے اور غیر شادی شدہ افراد سے سنا اور قریب سے دیکھا بھی ہے " کہ آپ اگر شادی کر رہے ہیں تو شادی کے پہلے سال ہی بچہ پیدا نا کریں " اسوقت تک کہ میاں بیوی کے درمیان زہنی ہم آہنگی،قربت اور پیار و محبت جب تک قائم و دائم نا ہو جائے،جبتک دونوں ایک دوسرے کو جان و پہچان،اور سمجھ نا لیں،زہنی ہم آہنگی بنا نا لیں تبتک آپ کو اولاد کو پیدا کرنے کا زریعہ نہیں بننا چاہیے " ایسی سوچ رکھنے والوں کا کہنا ہے " کہ اگر کل کو میاں بیوی کے درمیان زہنی ہم آہنگی قائم نہیں ہوتی اور اس دوران اولاد دنیا میں آ گئی تو کل کو اولاد آپ کی مجبوری نا بنے،آپ کے پاؤں کی بیڑیاں نا بن سکیں،کیونکہ اگر میاں یا بیوی میں سے کوئی ایک فرد بھی ناسمجھ و کم عقل اور بدکردار نکلا تو اولاد کے نا ہونے کی صورت میں آپ اپنے شریک حیات کو طلاق دے اور لے کے اپنی ساری زندگی کو برباد ہونے سے بچا سکتے ہیں اور اگر ایسے میں اولاد بھی پیدا ہو گئی تو پھر آپ کسی ایک کے برا ہونے کی وجہ سے اس سے طلاق لیں گے تو آپ دونوں کی طلاق میں اولاد چکی کے دو پٹوں میں پسیج جائے گی اور وہ وارثوں کے ہوتے ہوئے بھی ساری زندگی لاوارثوں اور محرومیوں کی زندگی گزارے گی

تو کس سے اتفاق کرتے ہیں اور آپ کی اپنی زاتی سوچ و فکر اور آپ کا تجربہ اس معاملے میں کیا کہتا ہے کہ شادی کے بعد پہلے ہی سال میں اولاد کے پیدا کرنے کا زریعہ بننا چاہیے یا پھر دو سے تین سال میاں بیوی کو اچھی طرح سے دیکھ بھال لینے کے بعد اولاد کے پیدا کرنے جا زریعہ بننا چاہیے۔

نوٹ: انسان اولاد کو پیدا کرنے کا زریعہ بنتا ہے درحقیقت انسان کو پیدا اور تخلیق تو ربّ رحمان ہی کرتا ہے۔

آپ کیا کہتے ہیں اس بارے میں؟

No comments:

Post a Comment