السلام علیکم،میں ایک لکھاری ہوں ایسا لکھاری جو ہر موضوعات پے سوچتا اور لکھتا ہے۔

Tuesday, 2 May 2017

المیہ

المیہ

ہمارے معاشرے کے المیوں میں سے ایک المیہ یہ بھی ہے کہ جب کوئی انسان کسی کے پاس اپنی مشکل و پریشانی کو بیان کرتا ہے تو اگلا انسان اسکی زندگی کو سامنے رکھ کے اسکی مشکل و پریشانی کو سمجھ کے اس کا حل نکالنے کی بجائے اپنی کامیاب زندگی کی داستان کو سامنے رکھ کے اسپے طنز و طرار کے نشتر پے نشتر چلانے لگ جاتا ہے کہ میں نے فلاں مشکل و پریشانی میں ایسا اور ویسا کیا ،یہ اور وہ کیا ،اس سے اور اس سے مل کے اپنا حل نکال لیا

پر انسان یہ کیوں نہیں سمجھتا کہ ہر انسان کے پاس ہر قابلیت و صلاحیت نہیں ہوتی، ہر سوچ و بیچار نہیں ہوتی اور اگر ہوتی تو پھر وہ بھلا تمہارے پاس کیوں آتا بلکہ خود ہی اسکا کوئی حل نکال لیتا۔

تو در حقیقت ہمارا انسانی و اخلاقی حق اور فرض تو یہی بنتا ہے کہ جب کوئی قسمت و حالات کا مارا و ستایا ہوا کوئی انسان ہمارے پاس اپنا کوئی مدعا یا مشکل و پریشانی لے کر آتا ہے تو ہمیں اسے اور اسکی زندگی کو سامنے رکھتے ہوئے اسکی مشکل و پریشانی کو سمجھتے ہوئے اسکی مشکل و پریشانی کا حل نکالیں چاہیے ناکہ اپنی زندگی اور قابلیت و صلاحیت کا جھنڈا گاڑھتے اور لہراتے ہوئے اور کامیابیوں کے پہاڑ گنواتے ہوئے اسکی ہتک و تزلیل کرتے ہوئے اسکی عزتِ نفس مجروح کرنا شروع کر دیں اور یہ کہیں کہ " جب میں نے یہ اور وہ ،ایسے اور ویسے کر کے اپنی فلاں مشکل و پریشانی کا حل کیا تو پھر تم کیوں نہیں کر سکے ،تم کیوں نہیں بن سکے،تم اپنی مشکل و پریشانی کو ختم کیوں نہیں کر سکے"

ائے انسان ! حالات و واقعات کا مارا و ستایا ہوا کوئی انسان گر تیرے در پے بھولے سے آ بھی جائے تو اسپے طعنے تشنے نا کر،اسکی ہتک و عزت نفس مجروح نا کر بلکہ اسکی مدد کر اسکی مشکل و پریشانی کو سمجھ کے اسکو دور کر اور گر تُو یہ سب نا کر سکے تو پھر اسے اس  انسان سے ملا دے جو اسے اور اسکی مشکل و پریشانی کو سمجھ کے اسکی مدد کرے، بس اتنا اس پے احسان کر۔

Think n join insaaniyat

www.facebook.com/insaanorinsaaniyat

waqas

No comments:

Post a Comment