مجھے مرزا غالب کا ایک شعر رہ رہ اور بار بار رہ رہ کے یاد آتا رہتا ہے اور ربّ رحمان کی نافرمانیوں کرنے اور ہو جانے کے بعد اسی شعرکو یاد کر کر کے دل دماغ اور روح تڑپ تڑپ اور بلک بلک جاتی ہے اور دل کرتا ہے کہ زار و قطار اور دھاڑیں مار مار کے اتنا اور اس قدر روؤں کہ رو رو کے آنکھیں ختم ہو جائیں بینائی چلی جائے اور پھر ربّ رحمان اپنے رحم و کرم سے مجھے پھر آنکھیں عطا فرما دے اور میں پھر سے رو رو کے آنکھیں ختم کر دوں اور اسی طرح ربّ رحمان مجھے آنکھیں عطا فرماتا رہے اور میں ربّ رحمان کی نافرمانیوں ، نادانیوں،روگردانیوں پے رو رو کے آنکھیں کی بینائی ختم کرتا رہوں اور اس وقت تک روتا رہوں کہ جبتک ربّ رحمان خود نا فرما دے
ائے میرے بندے ! تیرا رونا ، تڑپنا ، بلکنا اور سسکنا مجھے پسند آیا اور تیری شامساری و عاجزی و انکساری میں اپنی نافرمانیوں پے آنکھوں سے جو دریا بہایا اسمیں تُو ، تیرا جسم اور تیری روح ایسے ہی دھل کے پاک و صاف اور پاکیزہ ہو گئی ہے جیسے تُو اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے کے بعد پاک و صاف اور پاکیزہ تھا اور میں شکرانے میں ربّ رحمان کے حضور سربسجود ہو جاؤں
کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالب
شرم مگر تم کو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں آتی
ائے میرے بندے ! تیرا رونا ، تڑپنا ، بلکنا اور سسکنا مجھے پسند آیا اور تیری شامساری و عاجزی و انکساری میں اپنی نافرمانیوں پے آنکھوں سے جو دریا بہایا اسمیں تُو ، تیرا جسم اور تیری روح ایسے ہی دھل کے پاک و صاف اور پاکیزہ ہو گئی ہے جیسے تُو اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے کے بعد پاک و صاف اور پاکیزہ تھا اور میں شکرانے میں ربّ رحمان کے حضور سربسجود ہو جاؤں
کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالب
شرم مگر تم کو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں آتی
No comments:
Post a Comment