The Message
کسی سے اسکی زندگی چھین لینا کوئی بڑی بات اور بڑا پن نہیں ہے ۔ ۔ ۔ہاں ۔ ۔ ۔ کسی کو اسکی چھینی ہوئی زندگی لوٹا دینا واقعی ایک بہت بڑی بات اور ایک بہت بڑا، بڑا پن ہے۔
Think n join insaaniyat
www.facebook.com/insaanorinsaaniyat
waqas
السلام علیکم اس بلاگ میں آپ کو ہر وہ بات ملے گی جسمیں انسانوں کے لیے انسانیت کا میسج ہو گا ایسا میسج جو آپ کو کچھ سوچنے،سمجھنے اور پرکھنے پے مجبور کرے گا۔ تو خود بھی جوائن کریں اعر دوست احباب کو بھی Invite کریں۔ شکریہ۔ وقاص
The Message
کسی سے اسکی زندگی چھین لینا کوئی بڑی بات اور بڑا پن نہیں ہے ۔ ۔ ۔ہاں ۔ ۔ ۔ کسی کو اسکی چھینی ہوئی زندگی لوٹا دینا واقعی ایک بہت بڑی بات اور ایک بہت بڑا، بڑا پن ہے۔
Think n join insaaniyat
www.facebook.com/insaanorinsaaniyat
waqas
The Message
ذہین لیکن سست رو بچے
کچھ بچے زیادہ ذہین ہونے کے باوجود slow learner سیکھنے کے معاملے میں سست ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی چیز کے سمجھنے اور سیکھنے کے دوران وہ اس کو سوچ بھی رہے ہوتے ہیں، اسی وقت اس کے تجزیے میں بھی لگے ہوتے ہیں۔ یعنی دو کام ایک ساتھ ان کے دماغ میں چل رہے ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی سیکھنے کی رفتار سست پڑ جاتی ہے۔ ایسے بچوں کو غبی یا کند ذہن سمجھ لیا جاتا ہے، پھر جب ان کے ساتھ بار بار یہی پیش آتا ہے تو ہمارے ہاں کے جلد باز والدین جو بچوں کے ساتھ بڑی بڑی توقعات وابستہ کیے بیٹھے ہوتے ہیں، انہیں غبی اور کند ذہن ثابت کر دیتے ہیں۔بچے خود بھی نا سمجھی کی عمر میں ہوتے ہیں، اس لیے وہ تسلیم کر لیتے ہیں کہ وہ غبی اور کند ذہن ہیں۔ ان کی سیکھنے کی امنگ بھی ختم ہو جاتی ہے۔ یوں ایک متوقع ذہین دماغ غلط تشخیص سے ضائع ہو کر رہ جاتا ہے۔
آپ سنتے ہوں گے بہت سے ذہین قرار پانے والے لوگ اپنے بچپن میں کند ذہن سمجھے جاتےتھے، اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے جو بیان ہوئی۔ سچ یہ ہے کہ اس طرح کے اکثر بچے ہمارے سماج میں ضائع ہی ہوتے ہیں اور بہت معمولی کارکردگی سے زندگی بسر کرتے ہیں۔ کسی ذہین کا خود کو غبی اور نالائق سمجھ کر زندگی بسر کرنا بڑی اذیت کی بات ہے۔ایسے بچوں کو بڑے صبر اور حوصلے کے ساتھ پڑھانا پڑتا ہے۔ انتظار کرنا پڑتا ہے کہ وہ اپنی دماغی زہانت کو پورا کر لیں اور ایک ایک قدم سمجھ بوجھ کر آگے بڑھیں۔یہ بچے گروپس میں پوی طرح سیکھ اور سمجھ نہیں پاتے، کیونکہ گروپس کو اوسط رفتار سے لے کر چلنا استاد کی مجبوری ہوتی ہے۔ ایسے بچوں کو انفرادی تعلیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ان بچوں کی پہچان یہ ہے کہ اپنے اطمینان کے ساتھ جب انہیں کچھ کرنے کا موقع ملتا ہے اور بہت اعلی درجے کا کام کر لیتے ہیں۔ " اس وقت استاد اور والدین حیرت سے پوچھتے ہیں کہ اتنا کچھ کر سکتے ہو تو دوسرے اوقات میں سمجھنے میں سستی کیوں دکھاتے ہو۔ اس کا جواب بچے کے پاس نہیں ہوتا، لیکن والدین اور استاد کے پاس ہونا چاہیے۔"
ہر ہر ۔ ۔ ۔ ہاں۔ ۔ ہر ہر کام کی شروعات تو چاند اور چاند کی چاندنی جیسی ہوتی ہے ۔ ۔ ۔ دھبے تو پھر آہستہ آہستہ ۔ ۔ ۔اور آہستہ آہستہ چاند پے پڑتے اور بڑھتے رہتے ہیں اور چاندنی آہستہ آہستہ مدھم ہوتی چلی جاتی ہے اور مدھم ہوتے ہوتے ایکدن ختم ہو جاتی ہے۔
انسان چھوٹے بڑے برے کام کرنے کو ہی فقط گناہ سمجھتا ہے اور نیکی نا کرنے کو کوئی گناہ تصور ہی نہیں کرتا۔ ۔ ۔درحقیقت نیکی نا کرنا ہی اصل گناہ کبیرہ ہے ۔ ۔ ۔ گر کوئی سمجھے۔
سوچیں انسان کو لے ڈوبتی ہیں تبھی یہ مثال بنی کہ " سوچی پیا تے بندہ گیا" یہ مثال بظاہر ہنسی مذاق میں کہی اور بولی جاتی ہے پر حقیقت میں یہ نہایت سنجیدہ اور تلخ ترین مثال ہے۔
امریکہ اور افریکہ کے ممالک کی طرح عنقریب پاکستان میں بھی سپر مارکیٹ سے لے کر ریسٹورینٹ پے کچھ اسطرح کے بل بورڈ دیکھے جائیں گے
پاکستان میں پہلی بار " حلال اشیا کا سٹور، حلال کھانوں کا مرکز".۔ ۔ ۔!!!
بڑی ماریں،دھکے اور ٹھوکریں کھا لینے اور رشتوں کا زہر چکھ چکنے کے بعد کہیں جا کے انسان میں مستقل مزاجی آتی ہے۔
بات بات پے تلخ ہو جانے والا،بلا وجہ غصہ کرنے والا اور کسی کے بلانے پے بات کرنے والا کسی ایسے انسان کی توجہ کا متلاشی ہوتا ہے جو اس کی تلخی اور غصہ کے پیچھے چھپی وجوہات جان سکے اسے سمجھ کے اسے حوصلہ اور نئی ہمت و جذبہ جگا اور دے سکے۔
عورت کا کسی سمجھدار اور عقل مند مرد سے پالا پڑ جائے تو اس سے بہت جلد پالا چھڑا لیتی ہے اور کسی نیم عقلمند مرد سے پالا پڑ جائے تو اس پے اپنی عقل کو استعمال کر کے اس کے پلے پڑ جاتی ہے۔
The Message
جس انسان کی گفتار و کردار سے یہ تاثر ملے کہ وہ خود کو زبر َ تصور کروا کے آپ کو زیر ِ کر رہا ہے یہ زیر ِ کرنا چاہتا ہے تو ایسے انسان کے زیر ِ کبھی نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ایسا انسان آپ کو جسمانی و روحانی ، دنیاوی و آخروی زندگی میں نقصان و گھاٹا ہی دے گا
اور جس انسان کی گفتار و کردار سے تاثر ملے کہ وہ خود کو زیر تصور کروا کے آپ کو دنیا میں زبر َ بنانا چاہتا ہے تو ایسے انسان کے فوراً زیر ِ ہو جانا چاہیے کیونکہ ایسا انسان آپکو جسمانی و روحانی ، دنیاوی و آخروی زندگی میں نفع و فائدہ ہی دے گا۔
Think n join insaaniyat
www.facebook.com/insaanorinsaaniyat
وقاص
پاکستان میں گیسٹ ہاوس میں جانے اور رہنے والی فیملی اور انکے بچے وہاں خفیہ کیمروں سے ہوشیار اور باخبر رہیں
کیونکہ اکثر گیسٹ ہاوس میں خفیہ کیمروں کی مدد سے فیملی کی ہر لمحے کی ویڈیو بنا کے گیسٹ ہاوس مالکان نہیں Black Mail, کرنے کے ساتھ ساتھ International Market میں ڈالرز کے زریعے بیچ کے پیسہ کماتے ہیں
آپ آنے والی برائی پریشانی سے تبھی بچ سکتے ہیں جب آپ جدید دور کی جدید خرافات سے باخبر رہ کے احتیاط برتے گے۔
The Message
انسان بہت بڑا جھٹلانے، ٹھکرانے، بھلانے والا اور نہایت احسان فراموش ثابت ہوا ہے، وہ جھٹلانے،ٹھکرانے، بھلانے والا اور احسان فراموش ہے جس نے ربّ رحمان کے پیغمبروں اور رسولوں کو جھٹلایا انکی لائی کتاب کو ٹھکرایا اگر اپنے نفع و فائدہ کے لیے انکی بات کو مان بھی لیتے تو اپنا نفع فائدہ نکل جانے کے بعد انکی بات کو بھلا دیتے اور انکی ہدایت کے بدلے احسان فراموش بن بیٹھتے رہے
انسان کی انہی عادات و اطوار کو دیکھتے ہوئے ربّ رحمان نے سورۃ الرّحمٰن اتاری اور سورۃ میں انسان کو بتایا،سمجھایا اور جتلایا کہ انسان تم میری کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے۔ ۔ ۔ تم میری کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے۔ ۔ ۔ اور تم میری کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے۔ ۔ ۔!!!
Think n join insaaniyat
www.facebook.com/insaanorinsaaniyat
waqas
The Mesage
ربّ رحمان قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے سورۃ آل امران آیت نمبر 64 :
کہو، "اے اہل کتاب! آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرائیں، اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنا لے" اس دعوت کو قبول کرنے سے اگر وہ منہ موڑیں تو صاف کہہ دو کہ گواہ رہو، ہم تو مسلم (صرف خدا کی بندگی و اطاعت کرنے والے) ہیں"
پر ہم انسان اپنے نفس کی غلامی کرتے ہوئے شیطان کی بات مانتے ہوئے آپس میں ایک دوسرے کو اس بات کی طرف بلاتے ہیں جسمیں ہمارا دوسروں کے ساتھ اور دوسروں کا ہمارے ساتھ اختلاف ہو پھر اس کے بعد اپنے فرقے کی تبلیغ کرتے ہیں اپنے فرقے کا پرچار کرتے ہیں اور اس کے بعد وقت کے ساتھ ساتھ نئے سے نئے فرقے اور مسلک بنتے ہیں ،نفرتیں عام ہوتی اور پھیلتی چلی جاتی ہیں اور پھر شروفساد ،قتل و غارت عروج پے پہنچ جاتا ہے اور جب پوچھو کہ یہ کیا کیا تم لوگوں نے تو کہتے ہیں کہ ہم تو زمین میں اصلاح کرنے والے ہیں امن و امان کی فضا قائم کرنے والے ہیں بیشک یہی شروفساد کرنے والے ہیں مگر نہیں جانتے۔
Think n join insaaniyat
www.facebook.com/insaanorinsaaniyat
waqas
میں کہہ سکتا ہوں میں نے اپنے خون کے اور محبت کے رشتوں کو آج تک نہیں چھوڑا پر جس کسی نے بھی چھوڑا تو انہوں نے ہی مجھے چھوڑا پھر وہ چاہے خون کے رشتوں ہوں یا محبت کے۔ ۔ ۔ پر میں نے خود کسی کو نہیں چھوڑا۔ ۔ ۔!!!
اسی طرح ربّ رحمان نے بھی آج تک اپنے کسی بندے ، بندی کو نہیں چھوڑا جس کسی مجھ جیسے کتے اور کتیا نے چھوڑا تو انہوں نے ربّ رحمان کو چھوڑا پر ربّ رحمان نے خود آج تک کسی کو نہیں چھوڑا۔ ۔ ۔!!!
نوٹ : اعتراض کرنے والوں کے لیے: جو ربّ رحمان سے جڑے رہتے ہیں وہی انسان رہتے ہیں اور جو ربّ رحمان سے کٹ جاتے ہیں شیطان انہیں کتا اور کتے سے بھی بد تر بنا دیتا ہے۔
شرک جب ربّ رحمان برداشت نہیں کر سکتا تو پھر انسان بھی تو ربّ رحمان کا بنایا ہوا ہے تو پھر انسان اپنے ساتھ کسی کو کیسے شرک کرنے دے سکتا ہے۔ ۔ ۔!!!
اور جب ربّ رحمان کے ہاں شرک کی معافی نہیں ہے تو پھر انسان اپنے ساتھ شرک کرنے والے انسان کو کیسے معاف کر سکتا ہے ۔ ۔ ۔!!!
آپ کے خیال میں اپنوں میں شادی کرنے کے کیا کیا فائدے اور نقصان ہیں اور غیروں میں شادی کرنے کے کیا کیا فائدے اور نقصانات ہیں؟
The Message
انسان کا انسانوں پے احسان عظیم ہوگا گر وہ اپنی اولاد کو انسان بنا جائیں
اسی طرح اس انسان کا بھی انسانوں پے احسان عظیم ہو گا کہ وہ اپنے ماتحت اور رعایا سے انسانیت سے پیش آ کے انکو انسان بنا جائے۔
Think n join insaaniyat
www.facebook.com/insaanorinsaaniyat
وقاص
اہم سوال جو فرضی پوچھا جا رہا ہے پر معاشرے میں حقیقت بن کے اکثر دیکھنے اور پڑھنے میں آتا ہے کہ
ایک لڑکا اپنے گھر بھر سے لڑ بھڑ کے خون کے سارے رشتے ناتے توڑ کے یا انہیں ناراض کرکے سب کی محبتوں کو فقط ایک لڑکی کی محبت میں قربان کر کے اس لڑکی سے شادی کر لیتا ہے تو سوال یہ بنتا ہے کہ کیا لڑکی کو ایسے لڑکے سے شادی کر لینا چاہیے یا اسے یہ کہہ کے چھوڑ دینا چاہیے "کہ جس لڑکے نے اپنے ماں باپ بہن بھائی، سب رشتے ناتوں کو چھوڑ ، انہیں توڑ اور ناراض کرسکتا ہے تو وہ کل کو مجھے بھی چھوڑ سکتا ہے میری محبت اور اعتماد کو توڑ اور ریزہ ریزہ کر سکتا ہے تو میں تم سے شادی نہیں کروں گی، آج سے تمہارے میرے راستے الگ الگ ہیں" ۔ ۔ ۔!!!
اسی طرح ایک لڑکی اپنے گھر بھر سے لڑ بھڑ کے خون کے سارے رشتے ناتے توڑ کے یا انہیں ناراض کرکے سب کی محبتوں کو فقط ایک لڑکے کی محبت میں قربان کر کے اس لڑکے سے شادی کر لیتی ہے تو سوال یہ بنتا ہے کہ کیا لڑکے کو ایسی لڑکی سے شادی کر لینا چاہیے یا اس یہ کہہ کے چھوڑ دینا چاہیے " کہ جس لڑکی نے اپنے ماں باپ بہن بھائی ، سب رشتے ناتوں کو چھوڑ ،انہیں توڑ اور ناراض کرسکتی ہے تو وہ کل کو مجھے بھی چھوڑ سکتی ہے میری محبت اور اعتماد کو توڑ اور ریزہ ریزہ کر سکتی ہے تو میں تم سے شادی نہیں کروں گا،آج سے تمہارے میرے راستے الگ الگ ہیں". ۔ ۔ ۔!!!
آپ ایک لڑکا اور لڑکی ہونے کے ناتے اسے اپنے اوپر رکھ کے چاہے جواب دیں یا اسے ایک کہانی سمجھ کے جواب دیں کہ ایسی سنگین ترین صورتحال میں ایک لڑکا اور لڑکی کو کیا کرنا چاہیے
نوٹ: آپ لڑکا ہیں تو ایک لڑکا ہونے کے ناتے لڑکے کی حمایت میں نہیں کمنٹس پاس کرنا اور آپ لڑکی ہیں تو بھی ایک لڑکی ہونے کے ناتے لڑکی کی حمایت میں کمنٹس پاس نہیں کرنا پر ہاں۔ ۔ !! جو حق و سچ ہو جو اصول اور کے عین مطابق ہو وہ اس پے بولئیے گا۔
شکریہ۔
میرا دل کرتا ہے کہ زندگی میں ہوش سنبھالنے سے لے کر اب تک میں نے ربّ رحمان کی جو جو اور جتنی جتنی نافرمانیوں،روگردانیاں کی ہیں انکی معافی تلافی کے لیے ربّ رحمان مجھے فرشتوں کی طرح اتنی طاقت اور سکت عطا فرمائے کہ میں ہاتھ جوڑے اسوقت تک سجدہ میں پڑا رہوں جبتک ربّ رحمان مجھے خود نا کہیں کہ "ائے میرے بندے سجدے سے سر اٹھا کہ تیرا سجدہ اور معافی قبول ہو چکی ہے اور میں شکرانے کے لیے ایکبار پھر سجدے میں چلا جاؤں۔ ۔ ۔آمین
ایکبار درود پاک پڑھیں۔
جو جو انسان مجھے فیسبک پے کافی عرصہ سے جانتے ہیں میری تحریروں سے مجھے پہچانتے ہیں آپ سب کی خیال میں میں کیسا ہوں یا آپ کے زہن و گمان میں میرا کیسا خاکہ بنا ہوا ہے؟
Waiting Your Reply.
The Message
کسی خوبصورت لڑکی کا کسی لڑکے کو بھائی کہنا بھی اگر اسے برا نا لگے تو سمجھ لو کہ اسمیں انسانیت ہے، وہ قناعت پسند ہے اور نفس کو مار چکا ہے ۔ ۔ ۔ایسا انسان ہی انسانوں کے لیے دو جہانوں میں خیروبھلائی کا باعث ہوتا ہے
اور کسی خوبصورت لڑکے کا کسی لڑکی کو بہن کہنا بھی اگر اسے برا نا لگے تو سمجھ لو کہ اسمیں انسانیت ہے وہ قناعت پسند ہے اور نفس کو مار چکی ہے ایسی انسان ہی انسانوں کے لیے دو جہانوں خیروبھلائی کا باعث ہوتی ہے
Think n join insaaniyat
www.facebook.com/insaanorinsaaniyat
وقاص
ضرور پڑھیں
عنوان۔ ۔ ۔
ننھی دکان
ایک گھر کے قریب سے گزر رہا تھا اچانک مجھے گھر کے اندر سے ایک دس سالہ بچے کی رونے کی آواز آئی ۔آواز میں اتنا درد تھا کہ مجھے مجبوراً گھر میں داخل ہو کر معلوم کرنا پڑا کہ یہ دس سالہ بچا کیوں رو رہا ہے۔اندر داخل ہو کر میں نے دیکھا کہ ماں اپنے بیٹے کو آہستہ سے مارتی اور بچے کے ساتھ خود بھی رونے لگتی۔میں نے آگے ہو کر پوچھا بہن کیوں بچے کو مار رہی ہو جبکہ خود بھی روتی ہو۔۔۔۔۔اس نے جواب دیا کہ بھائی آپ کو تو معلوم ہے کہ اس کے والد اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں اور ہم بہت غریب بھی ہیں ۔میں لوگوں کے گھروں میں مزدوری کرتی ہوں اور اس کی پڑھائی کا مشکل سے خرچ اٹھاتی ہوں۔یہ کم بخت سکول روزانہ دیر سے جاتا ہے اور روزانہ گھر دیر سے آتا ہے۔جاتے ہوئے راستے میں کہیں کھیل کود میں لگ جاتا ہے اور پڑھائی کی طرف زرا بھی توجہ نہی دیتا۔جس کی وجہ سے روزانہ اپنی سکول کی وردی گندی کر لیتا ہے۔میں نے بچے اور اس کی ماں کو تھوڑا سمجھایا اور چل دیا۔۔۔۔ایک دن صبح صبح سبزی منڈی کچھ سبزی وغیرہ لینے گیا۔تو اچانک میری نظر اسی دس سالہ بچے پر پڑی جو روزانہ گھر سے مار کھاتا تھا۔کیا دیکھتا ہوں کہ وہ بچہ منڈی میں پھر رہا ہے اور جو دوکاندار اپنی دوکانوں کےلیے سبزی خرید کر اپنی بوریوں میں ڈالتے تو ان سے کوئی سبزی زمین پر گر جاتی اور وہ بچہ اسے فوراً اٹھا کر اپنی جھولی میں ڈال لیتا۔میں یہ ماجرہ دیکھ کر پریشانی میں مبتلا ہو رہا تھا کہ چکر کیا ہے۔میں اس بچے کو چوری چوری فالو کرنے لگا۔جب اس کی جھولی سبزی سے بھر گئی تو وہ سڑک کے کنارے بیٹھ کر اسے اونچی اونچی آوازیں لگا کر بیچنے لگا۔منہ پر مٹی گندی وردی اور آنکھوں میں نمی کے ساتھ ایسا دونکاندار زندگی میں پہلی بار دیکھ رہا تھا۔۔۔دیکھتے دیکھتے اچانک ایک آدمی اپنی دوکان سے اٹھا جس کی دوکان کے سامنے اس بچے نے ننھی سی دکان لگائی تھی۔اس شخص نے آتے ہی ایک زور دار پاؤں مار کر اس ننھی سی دکان کو ایک ہی جھٹکے میں ساری سڑک پر پھیلا دیا اور بازو سے پکڑ کر اس بچے کو بھی اٹھا کر دھکا دے دیا۔ننھا دکاندار آنکھوں میں آنسو لیے دوبارہ اپنی سبزی کو اکٹھا کرنے لگا اور تھوڑی دیر بعد اپنی سبزی کسی دوسری دکان کے سامنے ڈرتے ڈرتے لگا لی۔بھلا ہو اس شخص کا جس کی دکان کے سامنے اب اس نے اپنی ننھی دکان لگائی اس شخص نے اس بچے کو کچھ نہی کہا۔تھوڑی سی سبزی تھی جلد ہی فروخت ہو گئی۔اور وہ بچہ اٹھا اور بازار میں ایک کپڑے والی دکان میں داخل ہوا اور دکان دار کو وہ پیسے دیکر دکان میں پڑا اپنا سکول بیگ اٹھایا اور بنا کچھ کہے واپس سکول کی جانب چل دیا اور میں بھی اس کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔بچے نے راستے میں اپنا منہ دھو کر سکول چل دیا۔میں بھی اس کے پیچھے سکول چلا گیا۔جب وہ بچہ سکول گیا تو ایک گھنٹا دیر ہو چکی تھی۔جس پر اس کے استاد نے ڈنڈے سے اسے خوب مارا۔میں نے جلدی سے جا کر استاد کو منع کیا کہ یتیم بچہ ہے اسے مت مارو۔استاد فرمانے لگے کہ سر یہ روزانہ ایک گھنٹا دیر سے آتا ہے میں روزانہ اسے سزا دیتا ہوں کہ ڈر سے سکول ٹائم پر آئے اور کئی بار میں اس کے گھر بھی پیغام دے چکا ہوں۔چلو بچہ مار کھانے کےبعد کلاس میں بیٹھ کر پڑھنے لگا۔میں نے اس کے استاد کا موبائل نمبر لیا اور گھر کی طرف چل دیا۔گھر جاکر معلوم ہوا کہ میں جو سبزی لینے گیا تھا وہ تو بھول ہی گیا ہوں۔حسب معموم بچے نے سکول سے گھر آکر ماں سے ایک بار پھر مار کھائی ۔ ساری رات میرا سر چکراتا رہا۔اگلے دن صبح کی نماز ادا کی اور فوراً بچے کے استاد کو کال کی کہ منڈی ٹائم ہرحالت میں منڈی پہنچے۔جس پر مجھے مثبت جواب ملا۔ سورج نکلا اور بچے کا سکول جانے کا وقت ہوا اور بچہ گھر سے سیدھا منڈی اپنی ننھی دکان کا بندوبست کرنے نکلا۔میں نے اس کے گھر جا کر اس کی والدہ کو کہا کہ بہن میرے ساتھ چلو میں تمہیں بتاتا ہوں آپ کا بیٹا سکول کیوں دیر سے جاتا ہے۔وہ فوراً میرے ساتھ منہ میں یہ کہتے ہوئے چل پڑی کہ آج اس لڑکے کی میرے ہاتھوں خیر نہی۔چھوڑوں گی نہی اسےآج۔منڈی میں لڑکے کا استاد بھی آچکا تھا۔ہم تینوں نے منڈی کی تین مختلف جگہوں پر پوزیشنیں سنبھال لی اور ننھی دکان والے کو چھپ کر دیکھنے لگے۔حسب معمول آج بھی اسے کافی لوگوں سے جھڑکیں لینی پڑیں اور آخر کار وہ لڑکا اپنی سبزی فروخت کر کے کپڑے والی دکان کی طرف چل دیا۔۔۔۔۔اچانک میری نظر اس کی ماں پر پڑی تو کیا دیکھتا ہوں کہ۔بہت ہی درد بھری سیسکیاں لے کر زاروقطار رو رہی تھی۔اور میں نے فوراً اس کے استاد کی طرف دیکھا تو بہت شدت سے اس کے آنسو بہہ رہے تھے۔دونوں کے رونے میں مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے انہوں نے کسی مظلوم پر بہت ظلم کیا ہو اور آج ان کو اپنی غلطی کا احساس ہو رہاہو۔اس کی ماں روتے روتے گھر چلی گئی اور استادبھی سسکیاں لیتے ہوئے سکول چلا گیا۔حسب معمول بچے نے دکان دار کو پیسے دیے اور آج اسکو دکان دار نے ایک لیڈی سوٹ دیتے ہوئے کہا کہ بیٹا آج سوٹ کے سارے پیسے پورے ہوگئے ہیں ۔اپنا سوٹ لے لو۔بچے نے اس سوٹ کو پکڑ کر سکول بھیگ میں رکھا اور سکول چلا گیا۔آج بھی ایک گھنٹا لیٹ تھا وہ سیدھا استاد کے پاس گیا اور بھیگ ڈیسک پر رکھ کر مار کھانے کے لیے پوزیشن سنبھال لی اور ہاتھ آگئے بڑھا دیے کہ استاد ڈنڈے سے اس کو مار لے۔استاد کرسی سے اٹھا اور فوراً بچے کو گلے لگا کر اس قدر زور سے رویا کہ میں بھی دیکھ کر اپنے آنسوؤں پر قابو نہ رکھ سکا۔میں نے اپنے آپ کو سنبھالا اور آگے بڑ کر استاد کو چپ کرایا اور بچے سے پوچھا کہ یہ جو بیگ میں سوٹ ہے وہ کس کے لیے ہے۔بچے نے جواب دیا کہ میری ماں امیر لوگوں کے گھروں میں مزدوری کرنے جاتی ہے اور اس کے کپڑے پھٹے ہوئے ہوتے ہیں کوئی کوئی جسم کو مکمل ڈھانپنے والا سوٹ نہی ہے اس لیے میں نے اپنی ماں کے لیے یہ سوٹ خریدہ ہے۔تو یہ سوٹ اب گھر لے جا کر ماں کو آج دو گے؟؟؟میں نے بچے سے سوال پوچھا ۔۔۔۔جواب نے میرے اور اس کے استاد کے پیروں کے نیچے سی زمین ہی نکال دی۔۔۔۔ بچے نے جواب دیا نہی انکل جی چھٹی کے بعد میں اسے درزی کو سلائی کے لیے دے دوں گا۔اور روزانہ تھوڑے تھوڑے پیسے جمع کر کے سلائی دوں گا جب سلائی کے پیسے پورے ہوجائیں گئے تب میں اسے اپنی ماں کو دوں گا۔۔۔۔۔استاد اور میں یہ سوچ کر روتے جا رہے تھے کہ ابھی اس معصوم کو اور منڈی جانا پڑے گا ،اور لوگوں سے دھکے کھانے پڑیں گے۔اور ننھی دکان لگانی پڑے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آخر کب تک غریبوں کے بچے ننھی دکانیں لگاتے رہیں گے۔یا اللہ سب غریبوں کی مدد فرماآمین۔۔۔۔!!!
ایکبار درود پاک پڑھ لیں۔
نوٹ: ساری کہانی میں دو کچھ کمی اور بے حسی سی رہ گئی ہے،اب کہانی میں کہاں کس سے کونسی اور کیسی کمی اور بے حسی رہ گئی ہے یہ آپ نے سوچ سمجھ اور پرکھ کے اس کمی خامی اور بے حسی کو واضح کرکے بتانا ہے اور اگر آپ نے صحیح صحیح بتا دیا تو آپ کو میرا سلام ہے۔
انسان مسلسل ایک کے بعد ایک دکھ درد کو سہنے اور گزرنے کے بعد جب دکھ درد سے بھری کہانیاں پڑھ پڑھ کے اور دکھ درد سے بھرے ڈرامے اور فلمیں دیکھ دیکھ کے جہاں انسان پتھر سے موم ہوتا ہے حیوانیت سے انسانیت کا سفر کرتا ہے وہیں انسان احساسات و جذبات میں اتنا اور اس قدر کمزور ہو جاتا ہے کہ کسی بھی اپنے پرائے کا دکھ درد پڑھتا دیکھتا اور سنتا ہے تو بے اختیار ہو کے بے اختیار آنسوؤں کا دریا بہانے لگتا ہے اور بعض دفعہ تنہائی میں بیٹھے بیٹھے کسی وجہ یا بلاوجہ خود بخود ہی آنسو بہانے لگتا ہے اور حیوان نما انسان پھر ایسے احساسات و جذبات میں کمزور انسان کی کمزوری سے ناجائز فائدہ اٹھاتا ہے اور اس کے بعد دو کام ہوتے ہیں ایسا انسان یا تو حیوان نما انسانوں کے ہاتھوں خود کو لٹوا کے بار بار مر مر کے مرتا رہتا ہے یا پھر ایک بار مر کے دنیا میں جینا سیکھ جاتا ہے۔
میرے فیسبک پے دو Account ہیں جن میں سے ایک Account کو میں 95% وقت دیتا ہوں اور 5% دوسرے Account کو وقت دیتا ہوں اور دونوں Accounts میرے Official Account ہیں پر اسکے باوجود بھی میں دونوں Accounts کو چاہ کے بھی برابر کا وقت نہیں دے پاتا۔ ۔ ۔ !!!
تو میں سوچ رہا تھا کہ جب میں دو Accounts کو برابر کا وقت توجہ نہیں دے پاتا اور برابر کی انکی دیکھ بھال نہیں کر پارہا تو وہ مرد جنہوں نے دو شادی کی ہوتی ہیں وہ گوشت پوست سے بنی احساسات و جذبات سے بھری جیتی جاگتی دو دو بیویوں کو کیسے برابر کا وقت دے پاتا ہے؟ کیسے انکے حقوق پورے کر پاتا ہے؟ کیسے انہیں برابر کا پیار محبت اور توجہ دے پاتا ہے اور انکی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ کیسے انکی ضروریات زندگی کو برابر کا پورا کرتا ہے؟ اور جب ایک مرد دو بیویوں کے حقوق برابر کے ادا نہیں کر پاتا تو پھر تین یا چار بیوی رکھنے والا مرد کیسے اور کس طرح سے تین یا چار بیویوں کے پورے پورے اور برابر برابر کے حقوق کیسے ادا کر سکتا ہے؟
اور اس بارے میں وہی مرد صحیح بتا سکتا ہے جس کی ایک سے زیادہ بیویاں ہیں۔
کچھ نصیحتیں ان لڑکیوں کے لیے جنکو اپنا گھرچھوڑ کے سسرال جانا ہے ..
پلیز صرف سمجھنے کے لیے ... شادی شدہ لوگ اپنے جذبات پے قابو رکھیں . شکریہ
ہر ماں باپ کی سب سے بڑی خواہش یہی ہوتی ہے کہ وہ اپنے جگر کے ٹکڑے کو کسی اچھی فیملی کسی اچھے لڑکے کے ساتھ منسوب کریں اور جب ایسا ہو جاتا ہے تو ان کا دل دوسرے وسوسوں میں گھرنے لگتا ہے ۔لخت جگرکی شادی ایک بہت بڑا امتحاں ہے جس میں غم اورخوشی دونوں عنصر موجود ہوتے ہیں ۔والدین بہن بھائی اور سہیلیاں سب اسے آنسووں کی برسات میں رخصت کرتی ہیں ۔اس وقت ان کی زبان پر ایک ہی دعا ہوتی ہے اے اللہ اسے تمام خوشیاں دینا کہ سدا سہاگن رہے اپنے گھر میں خوشحال زندگی بسر کرے ۔سسرال والوں کی آنکھ کا تارا بنی رہے ۔دعاوں کی سوغات کے ساتھ سسرال جانے والی لڑکی کی ذمے داری بھی بڑھ جاتی ہے ۔اسے خود کو مکمل طور پر بدلنا پڑتا ہے ایک لڑکی اپنے میکے میں اگرخوب شوخ طبیعت کی مالک ہے تو سسرال میں اسے اپنے مزاج کی اس شوخی پر قابو پانا ہوتا ہے ۔ایک خوشحال زندگی کے لے ضروری ہے کہ وہ وقت سے پہلے اندازہ لگالے کہ سسرال والے کسیے ہیں۔اس گھر کا ماحول کیسا ہے ؟رہن سہن کیا ہے ؟کتنے افراد ہیں اور کون کس مزاج کا ہے ؟شوہر کا مزاج کیسا ہے ؟اگر سسرال والوں کا مزاج اچھا ہے ۔سب ملنسار ہیں ،خوب ہنستے ہنساتے ہیں ، خوش مزاج ہیں تو ہرلڑکی ایسے ماحول میں گزارہ کر سکتی ہے ، لیکن اگر وہ سب ہر کام ایک حد میں رہ کر کرنے کے عادی ہیں تو لڑکی کو بھی اپنا مزاج تھوڑا تبدیل کر لینا پڑے گا ۔سسرال والے اگر کم گو ہیں ،تو لڑکی کو بھی اپنی زبان اورمزاج پر قابو رکھنا ہوگا۔شوہر کے مزاج میں غصہ ہے تواس وقت نہ تو شوخیاں کرنا چاہیے اور نہ ہی خود اپنا غصہ ظاہرکر نا چاہیے ۔خاموش رہنا ہی ضروری ہے ۔بعد میں جب موڈ خوشگوار ہو جائے تو نہایت نرمی اور پیار سے غصے کی وجہ معلوم کرنا چاہیے ۔بیوی کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ سب سے زیادہ اپنے شوہر پر توجہ دے اوراس کا کہنا مانے فرمانبردار رہے ۔ شوہر جب اول روز سے ہی بیوی کو فرمانبردار پائے گا تو وہ خود بھی وفا دار رہے گا۔ یاد رہے کہ آپ کو صرف شوہر کے ساتھ ہی نہیں رہنا بلکہ اس کے پورے گھر کے ساتھ رہنا ہے ۔ آپ کو نہ صرف شوہر کی پرواہ کریں گی تو باقی گھر والوں سے آپ کےتعلقات متاثر ہوسکتے ہیں۔آپ کو نہ صرف شوہر سے بلکہ اس کے تمام گھر والوں سے بنا کر رکھنے کی ضرورت ہے ۔شادی کے بعد بہت کچھ دیکھنا پڑتا ہے ۔ماں باپ کے گھر لڑکی بہت آزاد ہوتی ہے ۔اسے اپنے فیصلوں میں خود مختاری حاصل ہوتی ہے ۔اپنی مرضی سے کھانا پینا سونا جاگنا ہوتا ہے جب کہ شادی کے بعد ایسا نہیں ہوتا اور ہونا بھی نہیں چاہیے ۔جب آپ ایک نئے ماحول میں آئی ہیں توخود کو اس ماحول کا عادی بنانے کے لے بھر پور کوشش کریں ۔بہت سی لڑکیاں شادی کے بعد ہر بات میں سسرال کے لیے یہاں کا لفظ استعمال کرتی ہیں۔مثلا ہمارے یہاں تو یہ نہیں ہوتا یا ہماری امی کے گھر تو سالن دوسرے طریقے سے بنتا ہے ۔میں تویہاں یہی سب دیکھ رہی ہوں ۔ان الفاظ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپ سسرال والوں سے غیریت برت رہی ہیں ۔اپنی سسرال کی طرف سے ہر اس جائز تقریب میں شرکت کریں جس میں سسرال والے آ پ کی شمولیت چاہتے ہیں ۔ہر شخص سے خلوص سے ملیں سب کے نام اور رشتے یاد درکھنے کی کوشش کریں۔ سب سے گھل مل جائیں اگر کوئی آپ کی ساس یا نند سے ملنے آتا ہے تو آپ اس کو برابر کی عزت دیں ۔ساس کی رشتہ دار خوا تین سے احترام سے ملیں۔نندوں کی سہیلیوں سے اپنی سہیلیوں کی طرح ملیں ۔آپ سلام دعا اچھے طریقے سے کر کے ان کی خاطر تواضح کا بندوبست کریں۔اس سے آنے والے پر بہت اچھا اثر ہو گا ۔اگر آپ کی سسرال کی طرف سے کوئی تحفہ آپ کو ملتا ہے وہ خوشی خوشی قبول کریں، آپ کو پسند نہ بھی آئے تو بھی دینے والے کا شکریہ ادا کریں ۔آپ کو کوئی جوڑا ملا ہے تو اسے استعمال کریں ۔کوئی سجاوٹ کی چیز دے تو اسے اپنے کمرے میں سجائیں ۔اگر کوئی شے آپ کو واقعی پسند آجائے تو دل سے تعریف کریں ۔کچھ لڑکیاں ہر معاملے میں اپنی ناپسندگی کا اظہار کرتی ہیں اس طرح ا ن کو صرف برا کہنے والا ہی سمجھ لیا جاتاہے اوراگر واقعی کسی معاملے میں ناپسندگی کا اظہار کریں تو کوئی انہیں اہمیت نہیں دیتا کہ یہ تو ہر وقت یہی بولتی ہے جس پر ان کو برا محسوس ہوتا ہے کہ ہماری توکوئی اہمیت ہی نہیں ہے۔اپنے آپ کو سسرال کے ماحول میں ڈھال لینا ہی اچھی لڑکی کا کام ہے ۔عموما خواتین اپنے میکے کی تقریبات میں تو دل کھول کر خرچ کر نا پسند کرتی ہیں جب کہ سسرال کی تقریب میں واجبی سی دلچسپی کا مظاہرہ کرتی ہیں جس کی وجہ سے شوہر کی نظر میں ان کا مقام بلند نہیں ہو پاتا ۔دونوں طرف کے رشتوں میں توازن کرنا سکھائیں۔قسمت سے آپ کو اچھی سسرال مل گئے ہیں تو اس کی قدر کریں ۔اگر خدا نخواستہ سسرال والے اچھے نہیں تو صبر سے کا م لیں۔انشاءاللہ زندگی میں آگے چل کر آپ ہی سکون کو محسوس کرسکیں گی۔اللہ سبحانہ تعالی ہر لڑکی کے بہترین نصیب فرمائیں آمین ثم آمین(((
ایکبار درود پاک پڑھیں