میکسیکو: پیٹرول پائپ لائن کے پھٹنے بلکہ چوروں کےپائن لائن کے پھاڑنے سے بہت سے لوگوں نے مگ،جگ،بوتل اور بالٹیاں اٹھائے پیٹرول پائپ لائن کی قدم بڑھائے اور دھڑا دھڑ پیٹرول بھرنے لگے۔
"انسان خود سے کہتا ہے جو درحقیقت اس کے اندر کا شیطانی نفس اسے کہہ اور بھڑکا رہا ہوتا ہے کہ یعنی مفت میں بہہ ہی تو رہا ہے تو کیوں نا پھر اس مفت کے پیٹرول کو اپنے لیے بوتل بالٹیوں میں بھرا جائے اور پھر چند گھنٹے،چند دن مفت کے مال کا مزا اٹھایا جائے اور اپنے کارنامے پے دل ہی دل میں خوش ہوا جائے کہ یار مفت کے مال کا مزا اور چس ہی اور ہے" اور پھر اسی اثنا میں پیٹرول بھرتے بھرتے اور دیکھتے ہی دیکھتے آگ بھڑک اٹھی اور سب مفت میں پیٹرول بھرنے والوں کو آگ نے اپنی لپیٹ میں لے لیا اور موت نے بھی سب کو بانہوں میں سمیٹ لیا۔
اسی طرح کا واقعہ 2017 کے جون میں پاکستان میں احمد پور شرقیہ میں بھی واقع ہو چکا ہے کہ آئل ٹینکر کے گرنے اور پھٹنے سے ٹینکر سے پیٹرول بہنے لگا تو آس پاس،گردونواح اور سڑک سے گزرتے کار ، موٹر بائیک مسافر تک نے اپنی سواری روک کر "معذرت کے ساتھ باپ کا مال" سمجھ کر پیٹرول کو بوتل بالٹیوں میں بھرنا چاہا اور پھر اچانک آگ بھڑک اٹھی، آگ کے بھڑکنے کے فوراً بعد یقیناً ہر مرد و زن نے وہاں سے بھاگنے اور دوڑنے کی پوری پوری کوشش کی ہو گی مگر آگ نے سانپ کی طرح اپنے شکار کو ایسا لپیٹا اور دبوچا کہ کوئی بھی وہاں سے بھاگ اور نکل نا سکا اور سب انسان جل کے راکھ اور خاکستر ہو کے رہ گئے، انکی شکل کیا پہچانی جاتی بہتوں کی ہڈیاں تک جل کر راکھ ہو چکی تھی اور دل کو دہلا اور ہلا دینے والا خوفناک منظر بعد میں آنے والوں کے لیے عبرت کا سماں مہیا کر رہا تھا۔
اب اگر دیکھا جائے تو آئل ٹینکر ایک حادثے کا شکار ہوا تھا،اور اس کا پیٹرول بہہ رہا تھا پر اس پیٹرول کو مفت میں بھرنے کا کسی بھی انسان کو کوئی حق نا تھا، یا یوں کہنا بہتر ہے کہ ٹینکر کے پیٹرول کو بھرنا چوری کے زمرے میں آتا تھا اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ لوگ چوری کا پیٹرول بھرتے آگ کی نظر ہو کے نہایت ہی ازیتناک،خوفناک اور حرام موت سے مرے۔
آئیں زرا اس کو سمجھتے ہیں کہ یہ کام چوری تھا کہ نہیں، فرض کریں محلے کے کسی دو گھروں میں خون خوار قسم کی لڑائی ہو جاتی ہے اور اس دوران ہی وہ لوگ ایک دوسرے کو قتل کر دیتے ہیں اور آپ یہ سارا منظر دیکھ رہے ہوتے ہو اور آپ ان کے گھر گھس کے دنیا کا مال متاع سمیٹنے لگتے ہو کہ گھر کے مالک تو مر کھپ گئے ہیں تو بھلا کس نے مجھے روکنا اور ٹوکنا ہے، ویسے بھی دنیا کی ریت ہے "کہ لٹے ہوئے کو اور لوٹو اور برباد ہو جانے والے کو اور برباد کرو" اور ویسے بھی ان کے گھر کا اب کون مالک ہے؟ کون ان کے گھر کا سامان استعمال کرے گا؟ کوئی بھی نہی۔۔۔ کون ان کے گھر اور سامان کا ولی وارث ہے؟ شیطان آپ کو کہتا ہے تُو ہے، تُو ہی تو ہے اس گھر اور اس میں موجود ہر سامان کا تن تنہا اور اکیلا وارث۔۔چل جا اور اپنا حق اٹھا لے تو کیا یہ چوری نا ہو گی، یا چوری میں نہیں گنا جائے گا، ہاں یقیناً یہ چوری میں شمار ہو گا، یہ چوری ہی ہو گی۔ اور بہت بری چوری ہو گی کہ ایک تو دو گھر اپنی جہالت سے برباد ہو گئے آیا کہ آپ انکی جہالت سے کچھ عبرت پکڑتے بلکہ عبرت پکڑنے کی بجائے آپ کے نفس نے الٹا کلابازی ماری اور شیطانیت پکڑ لی اور اتنی بربادی دیکھنے کے بعد بھی آپ خود غرض و بے حس بنتے ہوئے انکے گھر میں چوری کرنے جا گھسے۔
اور ٹھیک اسی طرح آج میکسیکو میں حادثہ پیش آیا کہ کچھ چوروں نے پیٹرول لائن کو توڑا اور پھر پیٹرول چوری کرنے لگے اور دیکھا دیکھی اسی دوران پائپ لائن کو توڑتے ہوئے ایک چنگاری سے آگ بھڑک اٹھی اور وہاں موجود تمام مفت خوروں اور چوروں کو آگ نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
یہاں اس بات کے سمجھنے سے چند ایک اور باتیں سمجھ آتی ہیں کہ زندگی خود غرض و بے حس انسان کے ساتھ بھی خود غرضی اور بے حسی سے پیش آیا کرتی ہے اور زندگی اس انسان کو کبھی معاف نہیں کرتی جس نے کبھی بھی کسی انسان کو کسی بھی شکل میں کوئی بھی نقصان و گھاٹا دیا ہو اور وقت آنے پے زندگی اس انسان سے ٹھیک اسی طرح بدلہ لیتی ہے جس طرح اس نے کسی انسان کو نقصان و گھاٹا پینچایا ہوتا ہے۔
دوسری بات جو سمجھ آتی ہے وہ یہ کہ دنیا میں ہر وہ وہ شے آپ کی ہے جو آپ نے اپنی محنت و مشقت سے اور حق و حلال طریقے سے کمائی اور جوڑی ہے اس پے آپ کا پورا پورا حق ہے اور ہر وہ وہ شے جو آپ نے اپنی محنت و مشقت سے اور حق و حلال طریقے سے نہیں کمائی وہ آپ کی نہیں ہے، اس پے آپ کو کوئی تو کیا زرا سا بھی کوئی بھی حق نہیں ہے پھر بھلے وہ شے اپنا وارث رکھنے والی ہو یا اس شے کا کوئی ولی وارث بھلے نا ہو۔ ہاں کوئی انسان اپنی رضا،مرضی اور خوشنودی سے کوئی شے آپ کو تحفتاً دے دے تو وہ آپ لے سکتے ہو پر یہ بھی یاد رہے کہ تحفہ کیوں کس لیے دیا گیا ہے! کیونکہ اس مادی اور فانی دنیا میں کوئی کسی کو یونہی تحفہ نہیں دیا کرتا اور مفت میں تو کوئی بخار نہیں دیتا۔
تیسری بات انسان برائی میں اسوقت تک گِھرا اور پڑا رہتا ہے جب تک برائی کی آگ اسے جھلسا کے نہیں رکھ دیتی یا اپنا آپ اسے بتا نہیں دیتی۔۔پر کچھ بدبخت ایسے بھی ہوتے ہیں جو برائی کی آگ کا مزا چکھ چکنے کے بعد بھی برائی کرنے سے باز نہیں آتے اور آخر کار ایکدن برائی کی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لے کر ایسا جھلساتی و جلاتی اور مزا چھکاتی ہے کہ وہ ایک بُری و حرام موت کا مزا چکھ لیتے ہیں۔
چوتھی بات کہ اچھائی کا انجام کبھی بھی بُرا نہیں ہوتا اور برائی کا انجام کبھی بھی اچھا نہیں ہوتا،اچھائی کی آخر ہمیشہ اچھائی پے ہوتی ہے اور برائی کی آخر ہمیشہ برائی پے ہوتی ہے
پانچویں بات یہ کہ کبھی بھی دیکھا دیکھی کسی بھی کام کے کرنے یا اس میں شامل ہونے میں جلد بازی نا کریں جبتک اسکی تحقیق نا کر لیں آیا کہ یہ کام جو یہ لوگ کر رہے ہیں کیا یہ مناسب،ٹھیک اور جائز بھی ہے یا پھر یہ کام غلط،غیر مناسب اور ناجائز ہے اور پھر فیصلہ کریں آیا کہ مجھے یہ کام ان لوگوں کے ساتھ مل کے کرنا ہے یا کہ مجھے ان لوگوں اور اس کام سے دور رہنا ہے۔
ہم بچپن سے پڑھتے سنتے آرہے ہیں کہ لالچ بری بلا ہے ، لالچ بری بلا ہے پر افسوس ہم نے اس جملے اور اس سطر پے کبھی غور و فکر ہی نہیں کیا کہ یہ چھوٹی سی بات ، چھوٹا سا جملہ، چھوٹی سی سطر اپنے اندر کتنی بڑی بات چھپائے ہوئے ہے ، بس ہم بچپن سے یہ بات یہ سطر پڑھتے اور سنتے ہی آ رہے ہیں اور نجانے کب تک پڑھتے اور سنتے رہتے ہوئے کب تک لالچ و حرص کی زندگی جیتے جاتے ہیں۔۔!
اور آج ایک بات زہن نشین کر لیں گھٹی کی طرح پانی میں گھول کے پی لیں کہ دنیا میں کوئی شے،ہاں کوئی بھی شے جو بظاہر مفت میں مل رہی ہے اس کی ایک نا ایک دن آپ کو کوئی نا کوئی قیمت چکانا ہو گی پھر وہ قیمت چاہے فوراً چکانا پڑے یا پھر چاہے کچھ وقت گزرنے کے بعد اسکی قیمت چکانا پڑے پر ہر شے کی ایک قیمت ہے اور وہ شے اپنی قیمت آپ سے وصول کرے گی خاص کر وہ بات جو ناحق کی ہو ،وہ شے جو ناحق کمائی ہو اور وہ وہ کام جو آپ نے ناحق کیے ہوں وہ آپ سے اپنی قیمت ایک دن ضرور ضرور وصول کریں گے اسوقت تک جبتک آپ اس ناحق بات،ناحق کمائی اور ناحق کیے گئے کاموں سے توبہ تائیب نہیں کر لیتے یا ان ان باتوں اور کاموں کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ نہیں دیتے۔
افسوس! انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اس تحریر کو لکھتے ہوئے ابھی ٹی وی پے خبر سنی کہ نواب شاہ کے قریب 25 ہزار لیٹر پیٹرول سے بھرا ٹینکر الٹ گیا اور شہری ٹینکر سے پیٹرول بھرنے میں مصروف عمل ہیں، ہاہ۔۔یہ دنیا ایک پیٹرول کی بوتل بھرنے کی خاطر اپنی ساری زندگی داؤ پے لگا دیتی ہے، رسک لینا ہی ہے تو پھر کسی تعمیری کام میں رسک لو، انسان ہمیشہ اور اکثر تخریبی کام میں نجانے رسک کیوں لیتا ہے۔
خیر میں نے آپ سب کو باخبر کرکے اپنا کام کر دیا ہے اب آپ کا کام ہے کہ لالچ بری بلا کو گلے لگاتے ہو اور جل سڑ جاتے ہو یا پھر لالچ بری بلا کو برا جان اور سمجھ کر اسے دور بھگاتے اور بچتے ہو۔
یاد دہانی کے لیے ایک بار پھر ، " لالچ بری بَلا ہے".
تحریر- وقاص
No comments:
Post a Comment