گھاٹے کا سودا۔
میں نوکری کی تلاش میں دوکان پے گیا وہاں کچھ سدا سلف لیا اور دوکاندار کو فون پے سنتے پایا کہ کوئی لڑکا کام کے لیے دوکان پے چاہیے،میں نے فون ختم ہونے کا انتظار کیا اور کہا جناب آپ کو بندے کی اور مجھے کام کی تلاش ہے تو کیوں نا بات طے کر لیں، وہ شاطر مکار اور چالاک انسان تھا، دعا سلام کے بعد چھوٹتے ہی بولا۔۔۔وقاص بھائی آپ مجھے شکل سے ہی سیدھے سادے اور شریف انسان لگے ہو اور میں دل ہی دل میں خوش ہو گیا شکر ہے کسی نے مجھے پہچانا تو سہی، اس کے بعد اس نے سچی جھوٹی کہانی گھڑی کہ آپ کی بھابھی کا فون آیا ہے اور آپ کا بھتیجا بیمار ہے اور دوکان کی آج کچھ سیل نہیں ہوئی، بڑا پریشان ہوں کہ کیا کروں۔۔ہم ٹھہرے انسانیت کا دم بھرنے والے تو مہینے بھر کا جو کچھ خرچا پانی اور جو جمع پونجی تھی جھٹ سے جیب سے نکال کے اس کے ہاتھ پے رکھی کہ بھائی یہ میرا کل اثاثہ یہ 880 روپے ہیں تو آپ ایسا کریں اوپر والے 80 مجھے دے دیں اور باقی 800 آپ رکھ لیں جب میں نے آپ کے پاس ہی نوکری کرنی ہے پو پھر بعد میں تنخواہ کے ساتھ یہ ادھار لے لوں گا،وہ بڑی بناوٹی شکل اور الفاظ بنا کے بولا! وقاص بھائی مجھے شرم بھی آ رہی ہے کہ آپ پہلی بار نوکری کے لیے آئے اور مجھے پیسے دے دیئے۔۔آپ کل آئیں گے تو کل لوٹا دوں گا۔۔کل کے بعد آنے والی نجانے کتنی کل کل کرتے جاتا رہا چکر پے چکر لگاتا رہا اور وہ ظاہری انسانی شکل رکھنے والا مجھے بار بار ٹالتا رہا اور آخر کار نوکری تو کیا ملنا تھی 800 بھی چھوڑنے پڑ گئے۔
اور میں گھر کو بدھو لوٹے راستے میں اللہ سے مخاطب ہوا یا اللہ ایک بات تو بتا کہ یہ دنیا تُو نے کیوں اور کس لیے بنائی تھی اور کیا سوچ کے بنائی تھی؟ اور چلو دنیا بنانی تھی بنا دی پر مجھے کیوں بنایا۔۔اور چلو مجھے بنا ہی دیا تھا تو پھر ایسا گھاٹا کھانے والا کیوں بنایا؟ ایسے گھاٹے کا سودا کرنے والا کیوں بنایا...؟
No comments:
Post a Comment