السلام علیکم،میں ایک لکھاری ہوں ایسا لکھاری جو ہر موضوعات پے سوچتا اور لکھتا ہے۔

Saturday, 26 January 2019

ادھوری کہانی

ہوتی ہیں کچھ ایسی کہانیاں کہ جن کی شروعات تو ہوتی ہے پر ان کا اختتام کبھی نہیں ہوتا۔۔جو ختم ہو کے پھر بھی چلتی ہی رہتی ہے۔

انسان و حیوان

میں حقیقی زندگی میں آس پاس کے انسانوں کے رویے اور انکی حرکات و سکنات و واقعات کو دیکھتا ہوں یا جب بھی کبھی ایسا ڈرامہ،فلم دیکھتا ہوں کہ جس میں ایک انسان اپنی زندگی کو آسان بنانے کی خاطر دوسرے کی زندگی کو مصیبت میں ڈالتا ہے یا اپنی خوشی کی خاطر کسی دوسرے کی خوشی کا قتل کر دیتا ہے یا اپنی کسی نفسانی خواہش کو پورا کرنے کے لیے کسی دوسرے انسان پے جنسی درندگی کا حملہ کرتا ہے تو اس وقت میرا دل جلنے لگتا اور دماغ جام ہو کے رہ جاتا ہے کہ آیا یہ حضرت انسان ہی ہے جو اپنے ہی جیسے گوشت پوست کے انسان کو نقصان پہنچا رہا ہے۔۔۔تو پھر جانور اور انسان میں فرق باقی کیا رہ جاتا ہے۔۔اور کئی گھنٹے میں اسی مخمسے میں الجھا اور پھنسا رہتا ہوں کہ جانور کا انسان کو نقصان دینا اور اس پے حملہ کرنا تو بالکل سمجھ میں آتا ہے کیونکہ وہ جانور ہے اور جانور کبھی کسی بھی مخلوق پے حملہ کر سکتا ہے پر انسان کا انسان کو نقصان دینا اور اس پے حملہ کرنا سمجھ سے باہر ہے۔

اور جو انسان ،کسی انسان کو بھی کسی قسم کا کوئی نقصان پہنچاتا ہے یا کسی انسان پے کسی بھی قسم کا کوئی جانی و مالی حملہ کرتا ہے تو وہ یاد رکھے وہ جانور تو ہو سکتا ہے پر انسان ہرگز ہرگز نہیں ہو سکتا ہے۔

Thursday, 24 January 2019

نامہ اعمال

روز آخرت ایک پلڑے میں میرے نامہِ اعمال رکھے جائیں گے تو دوسرے پلڑے میں میرے ربّ رحمٰن کی رحمت و بخشش رکھ دی جائے گی۔

دل سے نکلی بات

دل تو سبھی رکھتے ہیں پر دل سے لکھتا کوئی کوئی ہے اور دل سے نکلنے والی بات اپنا آپ اپنا اثر رکھتی ہے۔۔پتا ہے کیوں۔۔کیونکہ دِلاں دے وچ ربّ وسدا ہے، اور پھر دل سے نکلی ہوئی بات وہ بندے کی نہیں ہوتی۔۔۔اسے ودیعت ہوتی ہے عطا کی جاتی ہے۔ اسی لیے دل سے کیا گیا ہر کام اپنا ایک خاص انداز،خاص لب و لہجہ اور اپنی ایک خاص پہچان رکھتا ہے۔

کام

دیکھنا،سوچنا،پرکھنا،مشاہدہ کرنا اور پھر۔۔اور پھر اس پے لکھنا ہی تو میرا کام ہے اور میرے پاس اس کے علاوہ کرنے کو رہ بھی کیا گیا ہے۔   

شخصیت

میں ایک شخصیت ہوتا وقاص
گر جو کسی کا ساتھ ملا ہوتا۔

Wednesday, 23 January 2019

واہ ری دنیا

پہلے خود پاگل کرتی،پاگل پن پیدا کرتی ہے اور جب انسان پاگل ہو کر پاگل پن کا مظاہرہ کرتی ہے تب کہتی ہے یہ تو پاگل ہو گیا ہے،اس کے شر سے ہمیں بچاؤ، پر یہ نہیں سوچتی کہ یہ پاگل پن اور شر تمہارا ہی تو دیا ہوا ہے جو وہ تمہیں واپس کیا جا رہا ہے۔

Monday, 21 January 2019

بچپن میں اور یادیں

بچپن کی بہت سی اچھی باتوں میں سے ایک اچھی بات یہ بھی ہے "کہ انسان غم کے سامنے بھی کھڑا مسکرا رہا ہوتا ہے".

Sunday, 20 January 2019

قانون

دنیا کے قانون کو سمجھنے سے پہلے قدرت کے قانون کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے اور جب انسان قدرت کے قانون کو سمجھ جاتا ہے پھر وہ رحمت تو بن سکتا ہے پر کسی کے لیے بھی زحمت نہیں بن سکتا۔

مفت کا مال

میکسیکو: پیٹرول پائپ لائن کے پھٹنے بلکہ چوروں کےپائن لائن کے پھاڑنے سے بہت سے لوگوں نے مگ،جگ،بوتل اور بالٹیاں اٹھائے پیٹرول پائپ لائن کی قدم بڑھائے اور دھڑا دھڑ پیٹرول بھرنے لگے۔

"انسان خود سے کہتا ہے جو درحقیقت اس کے اندر کا شیطانی نفس اسے کہہ اور بھڑکا رہا ہوتا ہے کہ یعنی مفت میں بہہ ہی تو رہا ہے تو کیوں نا پھر اس مفت کے پیٹرول کو اپنے لیے بوتل بالٹیوں میں بھرا جائے اور پھر چند گھنٹے،چند دن مفت کے مال کا مزا اٹھایا جائے اور اپنے کارنامے پے دل ہی دل میں خوش ہوا جائے کہ یار مفت کے مال کا مزا اور چس ہی اور ہے" اور پھر اسی اثنا میں پیٹرول بھرتے بھرتے اور دیکھتے ہی دیکھتے آگ بھڑک اٹھی اور سب مفت میں پیٹرول بھرنے والوں کو آگ نے اپنی لپیٹ میں لے لیا اور موت نے بھی سب کو بانہوں میں سمیٹ لیا۔

اسی طرح کا واقعہ 2017 کے جون میں پاکستان میں احمد پور شرقیہ میں بھی واقع ہو چکا ہے کہ آئل ٹینکر کے گرنے اور پھٹنے سے ٹینکر سے پیٹرول بہنے لگا تو آس پاس،گردونواح اور سڑک سے گزرتے کار ، موٹر بائیک مسافر تک نے اپنی سواری روک کر "معذرت کے ساتھ باپ کا مال" سمجھ کر پیٹرول کو بوتل بالٹیوں میں بھرنا چاہا اور پھر اچانک آگ بھڑک اٹھی، آگ کے بھڑکنے کے فوراً بعد یقیناً ہر مرد و زن نے وہاں سے بھاگنے اور دوڑنے کی پوری پوری کوشش کی ہو گی مگر آگ نے سانپ کی طرح اپنے شکار کو ایسا لپیٹا اور دبوچا کہ کوئی بھی وہاں سے بھاگ اور نکل نا سکا اور سب انسان جل کے راکھ اور خاکستر ہو کے رہ گئے، انکی شکل کیا پہچانی جاتی بہتوں کی ہڈیاں تک جل کر راکھ ہو چکی تھی اور دل کو دہلا اور ہلا دینے والا خوفناک منظر بعد میں آنے والوں کے لیے عبرت کا سماں مہیا کر رہا تھا۔

اب اگر دیکھا جائے تو آئل ٹینکر ایک حادثے کا شکار ہوا تھا،اور اس کا پیٹرول بہہ رہا تھا پر اس پیٹرول کو مفت میں بھرنے کا کسی بھی انسان کو کوئی حق نا تھا، یا یوں کہنا بہتر ہے کہ ٹینکر کے پیٹرول کو بھرنا چوری کے زمرے میں آتا تھا اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ لوگ چوری کا پیٹرول بھرتے آگ کی نظر ہو کے نہایت ہی ازیتناک،خوفناک اور حرام موت سے مرے۔

آئیں زرا اس کو سمجھتے ہیں کہ یہ کام چوری تھا کہ نہیں، فرض کریں محلے کے کسی دو گھروں میں خون خوار قسم کی لڑائی ہو جاتی ہے اور اس دوران ہی وہ لوگ ایک دوسرے کو قتل کر دیتے ہیں اور آپ یہ سارا منظر دیکھ رہے ہوتے ہو اور آپ ان کے گھر گھس کے دنیا کا مال متاع سمیٹنے لگتے ہو کہ گھر کے مالک تو مر کھپ گئے ہیں تو بھلا کس نے مجھے روکنا اور ٹوکنا ہے، ویسے بھی دنیا کی ریت ہے "کہ لٹے ہوئے کو اور لوٹو اور برباد ہو جانے والے کو اور برباد کرو" اور ویسے بھی ان کے گھر کا اب کون مالک ہے؟ کون ان کے گھر کا سامان استعمال کرے گا؟ کوئی بھی نہی۔۔۔ کون ان کے گھر اور سامان کا ولی وارث ہے؟ شیطان آپ کو کہتا ہے تُو ہے، تُو ہی تو ہے اس گھر اور اس میں موجود ہر سامان کا تن تنہا اور اکیلا وارث۔۔چل جا اور اپنا حق اٹھا لے تو کیا یہ چوری نا ہو گی، یا چوری میں نہیں گنا جائے گا، ہاں یقیناً یہ چوری میں شمار ہو گا، یہ چوری ہی ہو گی۔ اور بہت بری چوری ہو گی کہ ایک تو دو گھر اپنی جہالت سے برباد ہو گئے آیا کہ آپ انکی جہالت سے کچھ عبرت پکڑتے بلکہ عبرت پکڑنے کی بجائے آپ کے نفس نے الٹا کلابازی ماری اور شیطانیت پکڑ لی اور اتنی بربادی دیکھنے کے بعد بھی آپ خود غرض و بے حس بنتے ہوئے انکے گھر میں چوری کرنے جا گھسے۔

اور ٹھیک اسی طرح آج میکسیکو میں حادثہ پیش آیا کہ کچھ چوروں نے پیٹرول لائن کو توڑا اور پھر پیٹرول چوری کرنے لگے اور دیکھا دیکھی اسی دوران پائپ لائن کو توڑتے ہوئے ایک چنگاری سے آگ بھڑک اٹھی اور وہاں موجود تمام مفت خوروں اور چوروں کو آگ نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

یہاں اس بات کے سمجھنے سے چند ایک اور باتیں سمجھ آتی ہیں کہ زندگی خود غرض و بے حس انسان کے ساتھ بھی خود غرضی اور بے حسی سے پیش آیا کرتی ہے اور زندگی اس انسان کو کبھی معاف نہیں کرتی جس نے کبھی بھی کسی انسان کو کسی بھی شکل میں کوئی بھی نقصان و گھاٹا دیا ہو اور وقت آنے پے زندگی اس انسان سے ٹھیک اسی طرح بدلہ لیتی ہے جس طرح اس نے کسی انسان کو نقصان و گھاٹا پینچایا ہوتا ہے۔

دوسری بات جو سمجھ آتی ہے وہ یہ کہ دنیا میں ہر وہ وہ شے آپ کی ہے جو آپ نے اپنی محنت و مشقت سے اور حق و حلال طریقے سے کمائی اور جوڑی ہے اس پے آپ کا پورا پورا حق ہے اور ہر وہ وہ شے جو آپ نے اپنی محنت و مشقت سے اور حق و حلال طریقے سے نہیں کمائی وہ آپ کی نہیں ہے، اس پے آپ کو کوئی تو کیا زرا سا بھی کوئی بھی حق نہیں ہے پھر بھلے وہ شے اپنا وارث رکھنے والی ہو یا اس شے کا کوئی ولی وارث بھلے نا ہو۔ ہاں کوئی انسان اپنی رضا،مرضی اور خوشنودی سے کوئی شے آپ کو تحفتاً دے دے تو وہ آپ لے سکتے ہو پر یہ بھی یاد رہے کہ تحفہ کیوں کس لیے دیا گیا ہے! کیونکہ اس مادی اور فانی دنیا میں کوئی کسی کو یونہی تحفہ نہیں دیا کرتا اور مفت میں تو کوئی بخار نہیں دیتا۔

تیسری بات انسان برائی میں اسوقت تک گِھرا اور پڑا رہتا ہے جب تک برائی کی آگ اسے جھلسا کے نہیں رکھ دیتی یا اپنا آپ اسے بتا نہیں دیتی۔۔پر کچھ بدبخت ایسے بھی ہوتے ہیں جو برائی کی آگ کا مزا چکھ چکنے کے بعد بھی برائی کرنے سے باز نہیں آتے اور آخر کار ایکدن برائی کی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لے کر ایسا جھلساتی و جلاتی اور مزا چھکاتی ہے کہ وہ ایک بُری و حرام موت کا مزا چکھ لیتے ہیں۔

چوتھی بات کہ اچھائی کا انجام کبھی بھی بُرا نہیں ہوتا اور برائی کا انجام کبھی بھی اچھا نہیں ہوتا،اچھائی کی آخر ہمیشہ اچھائی پے ہوتی ہے اور برائی کی آخر ہمیشہ برائی پے ہوتی ہے

پانچویں بات یہ کہ کبھی بھی دیکھا دیکھی کسی بھی کام کے کرنے یا اس میں شامل ہونے میں جلد بازی نا کریں جبتک اسکی تحقیق نا کر لیں آیا کہ یہ کام جو یہ لوگ کر رہے ہیں کیا یہ مناسب،ٹھیک اور جائز بھی ہے یا پھر یہ کام غلط،غیر مناسب اور ناجائز ہے اور پھر فیصلہ کریں آیا کہ مجھے یہ کام ان لوگوں کے ساتھ مل کے کرنا ہے یا کہ مجھے ان لوگوں اور اس کام سے دور رہنا ہے۔

ہم بچپن سے پڑھتے سنتے آرہے ہیں کہ لالچ بری بلا ہے ، لالچ بری بلا ہے پر افسوس ہم نے اس جملے اور اس سطر پے کبھی غور و فکر ہی نہیں کیا کہ یہ چھوٹی سی بات ، چھوٹا سا جملہ، چھوٹی سی سطر اپنے اندر کتنی بڑی بات چھپائے ہوئے ہے ، بس ہم بچپن سے یہ بات یہ سطر پڑھتے اور سنتے ہی آ رہے ہیں اور نجانے کب تک پڑھتے اور سنتے رہتے ہوئے کب تک لالچ و حرص کی زندگی جیتے جاتے ہیں۔۔!

اور آج ایک بات زہن نشین کر لیں گھٹی کی طرح پانی میں گھول کے پی لیں کہ دنیا میں کوئی شے،ہاں کوئی بھی شے جو بظاہر مفت میں مل رہی ہے اس کی ایک نا ایک دن آپ کو کوئی نا کوئی قیمت چکانا ہو گی پھر وہ قیمت چاہے فوراً چکانا پڑے یا پھر چاہے کچھ وقت گزرنے کے بعد اسکی قیمت چکانا پڑے پر ہر شے کی ایک قیمت ہے اور وہ شے اپنی قیمت آپ سے وصول کرے گی خاص کر وہ بات جو ناحق کی ہو ،وہ شے جو ناحق کمائی ہو اور وہ وہ کام جو آپ نے ناحق کیے ہوں وہ آپ سے اپنی قیمت ایک دن ضرور ضرور وصول کریں گے اسوقت تک جبتک آپ اس ناحق بات،ناحق کمائی اور ناحق کیے گئے کاموں سے توبہ تائیب نہیں کر لیتے یا ان ان باتوں اور کاموں کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ نہیں دیتے۔

افسوس! انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اس تحریر کو لکھتے ہوئے ابھی ٹی وی پے خبر سنی کہ نواب شاہ کے قریب 25 ہزار لیٹر پیٹرول سے بھرا ٹینکر الٹ گیا اور شہری ٹینکر سے پیٹرول بھرنے میں مصروف عمل ہیں، ہاہ۔۔یہ دنیا ایک پیٹرول کی بوتل بھرنے کی خاطر اپنی ساری زندگی داؤ پے لگا دیتی ہے، رسک لینا ہی ہے تو پھر کسی تعمیری کام میں رسک لو، انسان ہمیشہ اور اکثر تخریبی کام میں نجانے رسک کیوں لیتا ہے۔

خیر میں نے آپ سب کو باخبر کرکے اپنا کام کر دیا ہے اب آپ کا کام ہے کہ لالچ بری بلا کو گلے لگاتے ہو اور جل سڑ جاتے ہو یا پھر لالچ بری بلا کو برا جان اور سمجھ کر اسے دور بھگاتے اور بچتے ہو۔

یاد دہانی کے لیے ایک بار پھر ، " لالچ بری بَلا ہے".

تحریر- وقاص

والدین اور اولاد

جو والدین بچپن میں اولاد کو چھوڑ دیتے ہیں وہی اولاد والدین کے بڑھاپے میں انہیں چھوڑ دیتے ہیں، نہیں نہیں،جان بوجھ کے نہیں بلکہ جیسے والدین اولاد کو انکے بچپن میں چھوڑتے ہیں ہو بہو اولاد اسی طرح والدین کے بڑھاپے میں انہیں چھوڑتے ہیں۔

انصاف

بہت بڑا بیوقوف ہے وہ انسان جو دنیا میں دنیا سے انصاف ملنے کی امید اور توقع رکھ کے جیتا رہتا ہے۔

Friday, 18 January 2019

بچپن و بڑھاپا

اگر اپنا بڑھاپا محفوظ کرنا اور بڑھاپے کو بہترین گزارنا چاہتے ہیں تو اپنی اولاد کے بچپن کو محفوظ بنائیں اور انکی بہتر سے بہترین تعلیم و تربیت اور پرورش کریں۔ورنہ آپ ہونگے،تنہائی ہو گی اور بڑھاپا ہوگا اور یہ سب بہت ہی بھیانک ہو گا۔

Thursday, 17 January 2019

نفع و نقصان

تم کسی کو فائدہ نہیں پہنچا سکتے ہو تو کم سے کم اسکو نقصان نا پہنچا کے بھی تو درحقیقت تم اسکو فائدہ پہنچا سکتے ہو۔

Wednesday, 16 January 2019

گھاٹے کا سودا

گھاٹے کا سودا۔

میں نوکری کی تلاش میں دوکان پے گیا وہاں کچھ سدا سلف لیا اور دوکاندار کو فون پے سنتے پایا کہ کوئی لڑکا کام کے لیے دوکان پے چاہیے،میں نے فون ختم ہونے کا انتظار کیا اور کہا جناب آپ کو بندے کی اور مجھے کام کی تلاش ہے تو کیوں نا بات طے کر لیں، وہ شاطر مکار اور چالاک انسان تھا، دعا سلام کے بعد چھوٹتے ہی بولا۔۔۔وقاص بھائی آپ مجھے شکل سے ہی سیدھے سادے اور شریف انسان لگے ہو اور میں دل ہی دل میں خوش ہو گیا شکر ہے کسی نے مجھے پہچانا تو سہی، اس کے بعد اس نے سچی جھوٹی کہانی گھڑی کہ آپ کی بھابھی کا فون آیا ہے اور آپ کا بھتیجا بیمار ہے اور دوکان کی آج کچھ سیل نہیں ہوئی، بڑا پریشان ہوں کہ کیا کروں۔۔ہم ٹھہرے انسانیت کا دم بھرنے والے تو مہینے بھر کا جو کچھ خرچا پانی اور جو جمع پونجی تھی جھٹ سے جیب سے نکال کے اس کے ہاتھ پے رکھی کہ بھائی یہ میرا کل اثاثہ یہ 880 روپے ہیں تو آپ ایسا کریں اوپر والے 80 مجھے دے دیں اور باقی 800 آپ رکھ لیں جب میں نے آپ کے پاس ہی نوکری کرنی ہے پو پھر بعد میں تنخواہ کے ساتھ یہ ادھار لے لوں گا،وہ بڑی بناوٹی شکل اور الفاظ بنا کے بولا! وقاص بھائی مجھے شرم بھی آ رہی ہے کہ آپ پہلی بار نوکری کے لیے آئے اور مجھے پیسے دے دیئے۔۔آپ کل آئیں گے تو کل لوٹا دوں گا۔۔کل کے بعد آنے والی نجانے کتنی کل کل کرتے جاتا رہا چکر پے چکر لگاتا رہا اور وہ ظاہری انسانی شکل رکھنے والا مجھے بار بار ٹالتا رہا اور آخر کار نوکری تو کیا ملنا تھی 800 بھی چھوڑنے پڑ گئے۔

اور میں گھر کو بدھو لوٹے راستے میں اللہ سے مخاطب ہوا یا اللہ ایک بات تو بتا کہ یہ دنیا تُو نے کیوں اور کس لیے بنائی تھی اور کیا سوچ کے بنائی تھی؟ اور چلو دنیا بنانی تھی بنا دی پر مجھے کیوں بنایا۔۔اور چلو مجھے بنا ہی دیا تھا تو پھر ایسا گھاٹا کھانے والا کیوں بنایا؟ ایسے گھاٹے کا سودا کرنے والا کیوں بنایا...؟

Tuesday, 15 January 2019

قابل

انسان جب تک کسی ایک کام میں قابل بن کے اپنا آپ دیکھا نہیں دیتا اور دنیا کے سامنے اپنا لوہا منوا نہیں لیتا، تب تک در در اور در بدر دھکے،ٹھوکریں اور زلالتیں اٹھانا،سہنا اور جھیلنا اس کا مقدر بن جایا کرتا ہے۔

بچپن اور میں

میرے دور کے بچے بارش میں نہاتے،ڈبکی لگاتے اور کشتیاں بناتے تھے جبکہ آج کے دور کے بچے بارش میں نہانے سے ہی ڈرتے ہیں، اور غلطی سے نہا بھی لیں تو کمزور ہونے کی وجہ سے ہفتہ بھر بستر پے لگے رہتے ہیں

90 کا دور میری زندگی کے حسین لمحوں میں شمار ہوتا ہے۔ وہی چند لمحے تھے جنہیں بچپن کی بھول بھلیوں میں کھل کے جی لیا تھا۔

دعا

یاربّ رحمٰن! جیسے تُو کالی گھپ اندھیری رات میں سے دن کا اجالا نکالتا ہے ایسے ہی مجھے زندگی کے تمام اندھیروں سے نکال دے اور وہ سویرا عطا فرما جس میں پھر کبھی اندھیرا نا ہو۔

ادھورا و مکمل

کبھی کسی آدھے ادھورے اور نامکمل انسان سے مل کے دیکھنا تمہیں اس سے وہ پیار،وہ محبت،وہ عزت و احترام اور وہ انسیت و اپنائیت ملے گی جو تمہیں تمہارے جیسے سالم سلیم،ٹھیک ٹھاک اور مکمل انسان سے کبھی نہیں ملی ہو گی۔۔اور ہاں میں بھی آدھا ادھورا اور نامکمل ہوں۔

Sunday, 13 January 2019

مرد و عورت

عورت کہتی ہے کہ مرد انا کا مارا ہے عورت کو اپنی محبت کو چھوڑ دے گا پر اپنی انا کو کبھی نہیں چھوڑے گا اسی طرح مرد بھی عورت کو ضدی اور ڈھیٹ کہتا ہے کہ عورت بھی مرد کو چھوڑ دیتی ہے اپنی محبت تک کو چھوڑ دیتی ہے پر اپنی ضد اور اپنے ڈھیٹ پن کو نہیں چھوڑتی۔۔بھینس کی طرح ڑیل بن جاتی ہے، کچھ کہہ لو، مار پیٹ بھی لو لیکن بھینس کی طرح اپنی جگہ سے ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھائے گی۔

کیا کہا جا سکتا ہے کہ مرد کو انا سجھتی اور جچتی بھی ہے مرد میں تھوڑی بہت انا پرستی ہونی چاہیے، انا اسے کسی حد تک رکھنی بھی چاہیے..!

اسی طرح کیا یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ عورت کو بھی ضدی اور ڈھیٹ یا اڑیل ہونا چاہیے کہ یہ اسکی فطرت میں شامل ہے جیسے کہ عورت کو ٹیڑھی پسلی سے بھی تشبیح دی گئی ہے کہ اسی سے کام چلاؤ سیدھا کرنے کے چکر میں توڑ بیٹھو گے۔۔یعنی عورت کی تھوڑی بہت ضد یا اڑیل پن اسکی فطری خوبصورتی ہے۔۔!

تو یہاں سوال یہ بنتا ہے آیا کہ مرد میں واقعی عورت کی نسبت انا پرستی زیادہ ہے؟ اور آیا کہ عورت کے اندر بھی ضد،ڈھیٹ پن اور اڑیل پن مرد کی نسبت زیادہ ہے؟

میں یہ سمجھتا ہوں مرد و عورت میں سے جس کے دل میں دوسرے کے لیے جتنی زیادہ محبت ہو گی وہ اتنا زیادہ اپنی انا، ہٹ دھرمی،ضد، اور اڑیل پن کو اپنے اندر سے ختم کرتا چلا جائے گا اور اپنے محبوب کی محبت میں سرشار رہ کر اسکے مطابق ڈھلتا اور سنورتا چلا جائے گا۔

آپ کیا کہیں گے اس بارے۔

سیدھا

جو کام سیدھے بازو،سیدھے ہاتھ اور سیدھی انگلی سے سرانجام پاتے ہیں کبھی غور کیا ان میں اتنی نفاست اور مکمل پن کیوں ہوتا ہے۔۔کیونکہ وہ "سیدھے " ہوتے ہیں۔۔اسی طرح سیدھے لوگ بظاہر ناکام دکھتے اور رہتے ہیں پر ان سے جو بات،جو کام بھی سرانجام پاتا ہے یا ان سے جو کچھ بھی ہو اور بن پاتا ہے اُس میں ایک اپنی ہی خوبصورتی اور ایک اپنا پن ہوتا ہے۔۔کیوں۔۔کیونکہ وہ " سیدھے" ہوتے ہیں۔

رشتہ و تعلق

رشتہ بھلے ٹوٹ جائے پر تعلق پھر بھی باقی رہتا ہے۔

تلاش اور کھوج

ہر انسان کسی نا کسی بات،شے اور انسان کی کھوج اور تلاش میں سرگرداں ہے۔۔۔میں خود کو تلاش اور کھوج رہا ہوں کہ میں آخر کیا ہوں۔۔اور جس دن میں نے واقعی میں یہ جان لیا کہ میں کیا ہوں اس دن مجھے بہت کچھ اور سب کچھ مل جائے گا۔۔۔ہم ہر روز ہر پل کسی نا کسی سے ملتے ہیں، اسے جانتے اور کھوجتے رہتے ہیں پر ہم کبھی بھی خود سے نہیں ملتے، خود کو نہیں جانتے اور نا خود کو کھوجتے ہیں۔

Monday, 7 January 2019

موت کا مزا

ربّ رحمٰن فرماتا ہے! ہر نفس کو موت کا مزا چھکنا ہے جبکہ ربّ رحمٰن نے یہ نہیں کہا کہ تمہیں زندگی کا مزا چکھنا ہے،موت کا بھی بھلا کوئی مزا ہوگا، موت کا سن کر موت کی شکل و ہیبت اتنی بھیانک، ڈراونی اور خوفناک و خطرناک سی بن کے زہن پے ابھرتی ہے کہ انسان کانپ اور ڈر سا جاتا ہے،جسم میں تھرتھری اور جھرجھری سی آ جاتی ہے تو پھر ایسی بدمزہ سی موت کو ربّ رحمٰن نے اس انداز سے کیوں بیان فرمایا کہ " ہر نفس کو موت کا " مزا " چھکنا ہے،بھلا موت کا بھی کوئی مزا ہوتا ہے، بھلا موت بھی اپنے اندر کوئی مزا رکھتی ہے۔۔۔ہرگز نہیں۔۔۔موت تو سارے مزوں کو کرکرا کرکے رکھ دیتی ہے۔۔سارا مزا خراب کرکے رکھ دیتی ہے۔۔ہاں۔۔۔اسی لیے۔۔۔اس ہی لیے تو ربّ رحمٰن نے انسان سے اس انداز میں کہا کہ "ہر نفس کو موت کا زائقہ چکھنا ہے"، یہاں پر ربّ رحمٰن خاص کر ان انسانوں سے خاطب ہے جو دنیا میں ہر ہر اور ہر ہر حرام کام کا مزا چکھ چکے ہوتے ہیں اور حرام کاموں میں ہر دن کچھ نیا کرکے اور بڑھ چڑھ کے حرام کا مزا چکھنے کے خواہشمند رہتے ہیں۔۔جو دنیا کے کھیل کود اور تماشے میں سرگرم ہیں۔۔جو دوسروں کا جینا عذاب بنا دیتے ہیں،جو دوسروں کا مال متاع لوٹنے کھسوٹنے میں مشغول رہتے ہیں۔۔جو سالہا سال مظلوموں کے ساتھ ظلم و زیادتی سے پیش آتے رہتے ہیں۔۔جو یتیموں مسکینوں کے مال و دولت کو ہڑپ کرتے رہتے ہیں۔۔جو ناحق کسی کے جان و مال کو نقصان پہنچاتے رہتے ہیں۔۔جو زرا زرا سی اور معمولی سی بات پے سیخ پا اور آپے سے باہر ہو کے مار دھاڑ اور شروفساد کرتے اور حقیر سی بات پے قتل و غارت کا بازار گرم کرتے رہتے ہیں۔۔۔جو اپنے مال و دولت کے نشے میں دھت رہ کر انسان کو انسان نہیں سمجھتے ہیں۔۔ہاں انہی کے لیے۔۔۔ہاں ایسے ہی انسانوں کے لیے تو ربّ رحمٰن فرماتا ہے کہ " ہر نفس کو موت کا زائقہ چکھنا ہے " کہ ائے حرام کاموں میں گِھرے پڑے رہنے اور ان حرام کاموں کا مزا چکھنے والوں۔۔ سنو۔۔" اب زرا موت کا مزا بھی چکھ لو"۔۔ربّ رحمٰن یہاں پے حرام کاموں میں مصروف عمل انسانوں کو ڈرانے، تنبیح کرنے اور یاد دلانے کے لیے فرما رہا ہے کہ " ہر نفس کو موت کا زائقہ چکھنا ہے" اور موت کا مزا چکھنے کے بعد تم سے ہر ہر اس اس مزے کا پورا پورا اور ٹھیک ٹھیک حساب لیا جائے گا جن مزوں کے نشے میں تم نے ساری زندگی گزار دی۔

اس سے یہ بات بھی پتا چلتی اور ثابت ہوتی ہے کہ زندگی میں انسان کو زندگی کا نہیں موت کا مزا چھکتے رہنا پڑے گا۔۔۔اسے زندگی میں رہتے ہوئے بھی زندگی نہیں موت ہی ملا کرے گی۔۔اسے جیتے جی بھی بار بار مرتے رہنا ہو گا۔۔۔یہی اس کا امتحان اور اسکی آزمائش ہو گی۔۔۔کبھی بھوک پیاس سے تو کبھی خوف و ڈر سے مرتے رہنا ہو گا۔۔۔اب ضروری تو نہیں کہ سانسیں رک اور تھم جانے کا نام ہی صرف موت ہے۔۔کسی بہت پیارے کے چلے یا بچھڑ جانے پے بھی تو ہم پے موت جیسی کیفیت طاری ہو جاتی ہے،تب بھی تو سانیسیں رکنے اور تھمنے سی لگتی ہیں، کسی بہت اپنے کو دکھ درد میں دیکھ کر بھی تو ہم موت کی گہری کھائی میں ڈوب اور کھو سے جاتے ہیں،تب بھی تو جسم بے جان و بے سدھ اور ساکت سا ہو کے رہ جاتا ہے، دماغ پھٹنے اور دل بیٹھنے سا لگتا ہے۔۔۔پر۔۔پر انسان زندگی میں زندگی کا مزا چھکنے کے پیچھے بھاگتا رہتا ہے کہ شائد یہاں نہیں تو وہاں، اس جگہ نا سہی تو اُس جگہ زندگی مل جائے گی۔۔پر ربّ رحمٰن کی بات ہی نے سچ ثابت ہو کے رہنا اور سچ ثابت ہوتے رہنا ہے اور انسان نے جیتے جی بار بار اور کئی کئی بار موت کا مزا چکھ چکنے کے بعد بھی بار بار موت کا مزا چکھتے ہی رہنا ہے، اسوقت تک جبتک اس کی سانسوں نے چلتے اور دل کی دھڑکن نے دھڑکتے رہنا ہے ۔۔۔ اس ساری بات کا نچوڑ اور حاصل کلام یہ ہے کہ جو انسان اس زندگی میں بار بار مرتا رہا، جو اپنی نفسانی و حیوانی و شیطانی خواہشات کو بار بار مارتا رہا وہی آخرت کی ہمیشہ و دائمی زندگی کو جیئے چلا جائے گا اور جس نے اپنے نفس کی غلامی کرتے ہوئے اپنی نفسانی،حیوانی و شیطانی خواہشات کو پورا کرکے اسے زندہ رکھا وہی آخرت کی ہمیشہ و دائمی زندگی میں بار بار اور کئی کئی بار مرتا چلا جائے گا۔

وقاص بشیر۔

Saturday, 5 January 2019

مرد کا کردار

خوش نصیب ہے وہ مرد جس کے پاس دنیاوی مال و دولت، شان و شوکت اور رنگ و روپ کے نا ہونے کے باوجود بھی عورت، مرد کے کردار کی خوبصورتی کے سبب اسے اپنا ہمسفر منتخب کر لیتی ہے۔