السلام علیکم،میں ایک لکھاری ہوں ایسا لکھاری جو ہر موضوعات پے سوچتا اور لکھتا ہے۔

Sunday, 27 May 2018

احتجاج

السلام علیکم!

میں نے اپنی مشکل و پریشانی کی ساری بات چند مہینے پہلے دو پوسٹس میں بیان کی تھی جن کا لنک اس پوسٹ کے آخر میں موجود ہے, بتدریج لنک پوسٹ کے آخر میں دیے گئے ہیں، اس پوسٹ کو سمجھنے کے لیے آپ کا پچھلی دو پوسٹس کو پڑھنا ضروری ہے،میں احتجاج کرنے جا رہا ہوں اور کچھ مطالبات سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، محترم جناب ثاقب نثار کے سامنے رکھوں گا جس میں ایک عام پاکستانی کی خیروبھلائی اور فلاح و بہبود کی بات ہو گی وہ عام پاکستانی جس میں، میں اور آپ شامل ہیں

میرے بہت سے رشتےدار، جان پہچان ،دوست احباب اور عزیز و اقارب میرے اس احتجاج کے منظر عام پے آنے کے بعد کچھ مجھ پے بہت سی باتیں کریں گے، انگلیاں اٹھائیں گے کہ یہ خود ایسا تھا ویسا تھا، اس میں خود یہ کمی تھی وہ کمی تھی، اس نے یہ کیوں نہیں کیا اور وہ کیوں نہیں کیا، میری بات کیوں نہیں مانی اسکی بات کیوں مانی، غرض دنیا جہاں کے عیب مجھ میں نکالے اور تلاشے جائیں گے، جو جو عیب مجھ میں سِرے سے ہونگے ہی نہیں وہ وہ اور اس سے بڑھ کے مجھ پے الزام لگائے جائیں گے اور کچھ وہ انسان جو میرے جیسے حالات و واقعات اور میری جیسی زندگی سے گزرا یا گزر رہا ہوگا اور وہ انسان جو دکھ درد کو قریب سے دیکھ چکا اور دکھ درد سے گزر چکا ہو گا انسانیت کا درد اپنے سینے میں زرا سا بھی رکھتا ہو گا وہ وہ سب انسان مجھے اور میری حق کی آواز کا ساتھ دیں گے اور میرے ساتھ کھڑے ہونگے پر میں خود پے انگلی اٹھانے والوں سے اتنا کہنا چاہوں گا کہ انگلی اٹھاؤ ضرور اٹھاؤ پر انگلی اٹھانے سے پہلے اتنا بتا دینا کہ آپ لوگوں نے میرے ساتھ رشتےداری و دوستی یاری میں میرا کتنا ساتھ دیا میرے کتنے کام آئے یا میرے وقت ،محنت اور طاقت کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا، مجھے جب جب آپ کے اخلاص و خلوص کی ضرورت پڑی تب تب آپ نے کتنا میرا ساتھ دیا اور اگر آپ میرے نا تو رشتےدار ہیں اور ناہی دوست احباب و عزیز و اقارب تو پھر آپ مجھ پے انگلی اٹھانے یا مجھ میں عیب نکالنے کا حق ہی نہیں رکھتے کیونکہ ہم اسی کے بارے بات کرتے ہیں جس سے ہم مل چکے ہوتے ہیں، قریب سے اسے دیکھ بھال چکے ہوتے ہیں، اس کے ساتھ کچھ وقت رہ چکے ہوتے ہیں، اس لیے آپ کوئی بھی ہیں برائے مہربانی میری آواز کے ساتھ آواز اٹھا نہیں سکتے تو کم سے کم حق کے لیے میری آواز کو دبانے کی کوشش مت کجئیے گا اور اگر آپ فرشتے ہیں تو پھر ضرور مجھ پے انگلی اٹھائیں، مجھ میں عیب بھی نکالیں اور خوب جی بھر کے مجھ پے باتیں بھی کجئیے گا۔

میں جانتا ہوں، میرے اس اقدام کے بعد بہت سے لوگ، کالم نگار، ٹی وی اینکر، اور ہر پاکستانی جس کے جو منہ میں آئے گا میرے بارے میں نئی نئی باتیں سامنے لائیں گے، بہت سے لوگ سچی جھوٹی من گھڑت باتیں، الزام مجھ پے لگائیں گے، سوشل میڈیا پے ایک سے ایک جھوٹ میرے بارے بولا جائے گا، مجھے نکما و بیکار اور نجانے کیا کیا کچھ کہا جائے گا، پر اس کے ساتھ ساتھ بہت سے انسان میرے اس اقدام کا ساتھ دیں گے، مجھے ان سب کی پروا نہیں سچ اور جھوٹ کبھی چھپتا نہیں ہے، اور کسی بھی سچے اور کھرے انسان کو کوئی خوف و ڈر نہیں ہوتا ہے۔

نا تو میں بھٹو ہوں، نا ہی زرداری، نا تو بلاول نا ہی نواز ہوں، نا ہی حسن و حسین نواز ہوں، ناہی شہباز و حمزہ شہباز ہوں کہ جسے یہ نہیں پتا کہ اس کے کس کس ملک میں گھر ہیں اور ان سے جب پوچھا جاتا ہے کہ فلاں گھر کب کب اور کیسے کیسے خریدا تو کہتے ہیں ہمیں نہیں پتا بس خرید لیا ور نا ہی انہیں یہ پتا ہے کہ انکے اندرون و بیرون ممالک کون کونسے وسیع و عریض گھر و کاروبار ہیں اور نا ہی میں عمران خان ہوں، ہاں میں ایک عام پاکستانی ہوں وہ عام پاکستانی، جس کے پاس گھر ہے تو کام نہیں، کام ہے تو گھر نہیں ہے، بجلی ہے تو گیس نہیں، گیس ہے تو بجلی نہیں ہے، جس کے پاس کچی پکی ٹوٹی پھوٹی گٹر سے ابلتی ہوئی سڑکیں اور گلیاں ہی ہیں، جس کے محلے کے اکثر گٹر بغیر ڈھکنوں کے ہیں، جنمیں معصوم بچے گر کے بے موت مر جاتے ہیں، جس کے محلے میں گر کچھ دیر بارش ہو جائے تو محلے ندی و نالے سے بن جاتے ہیں، جس کے پاس خوش قسمتی سے سکول تو ہیں پر کتابیں نہیں، کتابیں مل جاتی ہیں تو سکول میں استاد نہیں ملتے ہیں ، گر استاد ہیں تو انمیں استاد والی سختی تو ہے پر باپ والی شفقت نہیں ملتی ہے اور ان سب باتوں کے بعد بھی گر کوئی نوجوان خوش قسمتی سے اپنی مدد آپ کے تحت پڑھ لکھ بھی جائے تو اسکے پاس ڈگریاں تو ہیں پر رشوت کے لیے پیسے نہیں ہیں، اور میرے جیسے ہزاروں لاکھوں اور کڑوڑوں پاکستانیوں کے پاس سر چھپانے کو گھر تک نہیں ہے، پینے کا پانی میسر نہیں، گر پانی مل بھی جائے تو صاف و شفاف پانی نہیں ملتا ہے، علاج کے لیے بہتر ہسپتال نہیں ہیں، گر ہسپتال مل بھی جائے تو ڈاکٹر نہیں ملتا ہے، گر ڈاکٹر مل جائے تو دوائی نہیں ملتی، دوائی گر مل جائے تو اصلی نہیں ملتی ہے، اصلی دوائی مل جائے تو پہنچ میں نہیں ہوتی ہے، ہاں مجھ جیسے بہت سے پاکستانیوں کے پاس حسرتیں، خلشیں اور پچھتاوے ہیں پر ہاں۔۔۔ میرے جیسے بہت سے پاکستانیوں کے پاس آس و امید بھی ہے وہ آس و امید جو مجھے اور میرے ہم وطنوں کو ہمارے ربّ رحمان نے عطا فرما رکھی ہے کہ ایک دن ہمارا وطن ہمارا پاکستان بدلے گا میں بدلوں گا  میری زندگی بھی بدلے گی۔۔۔ہاں ایک عام پاکستانی کی زندگی بھی ایک دن بدلے گی۔۔۔ان شاءاللہ۔

میں پوچھنا چاہتا ہوں صدر سے لے کر وزیر آعظم ، گورنر سے لے کر وزیر اعلی، ایم این اے سے لے کے ایم پی اے تک یا کوئی بھی چھوٹا و بڑا سرکاری عہدے دار کیا کبھی ایسا بھی ملا ۔۔کہ جس کے پاس گھر نا ہو، اس کے پاس بجلی و گیس نا ہو، جس کے گلی محلے کچے ٹوٹے پھوٹے اور گٹر کا پانی ابلتا ہوا ملا ہو، جس کا بچہ گٹر میں گر کے مرا ہو، کبھی کسی کے بچہ و بچی کے ساتھ ریپ و زیادتی جیسا بھیانک واقعہ بھی رونما ہوا ہو،کبھی کسی کے ٹاؤن میں بارش کے بعد ندی نالے کا سا سماں ہوا ہو،کبھی اس کے بیروزگار ہونے کی وجہ سے اسکا بچہ سکول میں نا پڑھ سکا ہو یا فیس ادا نا ہونے پے سکول سے ہی نکال دیا گیا ہو اور اس کا بچہ کسی ورکشاپ پے محنت و مزدوری کر رہا ہو،کبھی کسی کے بچے کے پاس کتابیں و کاپیوں کے پیسے نا ہوں،کبھی کسی کے بچے نے بے رحم استاد کی مار بھی کھائی ہو،کبھی کسی کے بچے نے کہیں نوکری کی درخواست دی ہو اور وہ رد کر دی گئی ہو،کبھی کسی کا بچے یا وہ خود گورنمنٹ کے ناقص و خراب ہسپتالوں میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کے مرا بھی ہو،کبھی کسی کے پاس علاج معالجے کے پیسے جمع نا ہو پائے ہوں،کبھی کسی کو جعلی و دو نمبر دوائی ملی ہو اور کبھی کسی نے خود یا انکے بچوں نے کسی خواہش کا اظہار کیا ہو اور اسکی وہ خواہش پوری نا کی گئی ہو۔۔۔! اور ہاں کیا کبھی کسی نے غربت، بھوک و افلاس کی وجہ سے خود اور اپنے بچوں کی اجتماعی خود کشی بھی کی ہو۔۔!

صدر سے لے کے وزیر آعظم ، گورنر سے لے کے وزیر اعلی، ایم این ائے سے لے کے ایم پی ائے، اور ہر چھوٹے بڑے سرکاری عہدے دار خود محلات میں رہتے ہیں، باپ کے الگ اور بچوں کے الگ الگ گھر نام پے ہوتے ہیں، پورے ملک میں بجلی و گیس بھلے نا ہو انکے گھر میں بجلی و گیس کی سہولیات ہر وقت موجود پائی جاتی ہے، انکے ٹاؤنز ہر ہر سہولیات سے لیس ہوتے ہیں، گر ٹاؤن میں کسی شے کی کمی رہ جائے تو سرکاری کھاتے میں سے اسے منظور کرا لیتے ہیں " سرکار تو جیسے ان کے گھر کی لونڈی اور باندی ہوتی ہے اور معذرت کے ساتھ سرکاری مال تو ان کے باپ دادا کی جاگیر ہوتی ہے" یہ خود اور انکے بچے نوکری کرتے یا نوکری کی درخواست نہیں دیتے بلکہ نوکریاں بیچتے ہیں، جو قانون بنانے والے خود سینٹ کے الیکشن میں بک جاتے ہیں وہ پاکستان اور عوام کے لیے کیا کر سکتے ہیں۔۔۔! انکے اور انکے بچوں کے بچوں کے بچوں کے علاج و معالجے امریکہ و انگلینڈ میں ہوتے ہیں جہاں انہیں دنیا کی بہترین خدمات فراہم کی جاتی ہیں، انہی کی اور انکے بچوں کی ہر خواہش پوری ہوتی ہیں، ہر خواہش پے دم تو صرف ایک عام پاکستانی کا ہی نکلتا ہے۔۔۔!

سیاستدان و حکمران کو ہر پل بس یہی فکر ہوتی ہے کہ اپنی پارٹی کی سیٹوں کو کیسے بچانا اور دوسری پارٹی کے بندوں کو کیسے خریدنا ہے اور کرپشن کرنے والے عوامی منصوبے کون کون سے ہیں، اندرون و بیرون ممالک میں کہاں کہاں پیسے بینکوں میں جمع کرانا اور انویسٹ کرنا ہے اور۔۔۔اور عوام بیچاری کو یہ فکر ستاتی ہے کہ بچے کا پیٹ کیسے بھرنا ہے، بچے کا صبح کا دودھ ہے تو شام کا دودھ کہاں سے اور کیسے لانا ہے، گھر کا کرایا اور بجلی گیس کا بل بھی ادا کرنا ہے، بیماری کے علاج کے لیے پیسہ کہاں کس سے ادھار مانگنا ہے، آٹا دال گھی اور دیگر راشن بھی لانا ہے اور ہر مہینہ یہی فکر ستاتی رہتی ہے۔

جس ملک کے سابقہ صدر زرداری کے محلات و کاروبار دبئی میں اور جس ملک کے سابقہ 3 بار وزیر آعظم کے گھر و کاروبار انگلینڈ میں ہوں تو پھر میرے جیسے ایک عام پاکستانی کے پاس اس کے اپنے ملک میں ایک چھوٹا سا اپنا گھر کیوں نہیں ہے ؟ اس کے اپنے ملک میں اس کے لیے اتنا رزق کیوں نہیں کہ وہ بھی اپنے ملک میں خوش و خرم زندگی گزار سکے جس ملک کے صدر و وزیر آعظم و وزیر آعلی اور دیگر ہاؤسز محلات کے جیسے ہوں اور جنکا روز کا خرچ لاکھوں میں ہو، ان ہاوسز کے ملازمین کی تنخواہیں بھی لاکھوں اور ملک میں اوپر سے لے کر نیچے تک اربوں کھربوں کی کرپشن کا رواج عام ہو تو پھر اس ملک کے ہزاروں اور لاکھوں میرے جیسے عام انسان  یونہی سڑکوں پے رلتے پلتے ہوئے ایک دن مٹی کے ساتھ مٹی میں دفن ہو جاتے ہیں۔۔۔! اور حکمران یونہی سالہا سال حکمرانی کرتے باریوں پے باریاں بندر بانٹ کرتے رہتے ہیں۔۔

گر کوئی باضمیر باہمت و باکردار اور باغیرت انسان جب جب جس جس کرپٹ عہدے دار کے خلاف ایکشن لیتا ہے تو سب سے پہلے اس باضمیر و باہمت انسان کو موت کی نیند سلا دیا جاتا ہے اور  اس کے بعد کرپٹ عہدے دار کو دل کا دورہ پڑ جاتا ہے اور مزے کی بات دل کا دورہ پڑنے کے بعد بھی وہ منحوس انسان پھر بھی زندہ ہی رہتا یے اور دل کے دورے کو دور کرنے کے لیے پھر کوئی لمبے دورے پے دبئی، کوئی انگلینڈ، کوئی سعودیہ اور کوئی امریکہ بھاگ جاتا ہے اور عوام بیچاری کو غربت و افلاس میں حقیقی دل کے دورے پڑتے رہتے ہیں اور وہ زندگی کی ساری جمع پونجی جمع کرکے بھی اپنا گھر بار نہیں بنا پاتے ہیں، کبھی گھر تو کبھی بسوں کے کرایوں میں ہی بس زندگی گزار دیتے ہیں۔۔۔!

جبتک اور جس دن سیاستدان و حکمران کے گھر بجلی و گیس نہیں ہو گی اس دن یہ بجلی و گیس کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل کر دیں گے، جس دن ان کے گھر بھی چولہا ٹھنڈا رہے گا اس دن یہ عوام کے گھروں کے چولہے روشن کر دیں گے، جس دن یہ خود بے گھر و بیروزگاری کی تکلیف و اذیت سے گزریں گے اسی دن ہی یہ عام عوام کو گھر و روزگار فراہم کریں گے، میرے چاروں خلیفہ حضرت ابو بکر صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان غنی اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ رضی اللہ عنہ وقت کے حاکم و خلیفہ تھے مگر آپ چاروں خلیفہ خود بھوکے رہ کے بھی عوام کا پیٹ بھرتے تھے، خود محنت کرکے دن بھر کی کمائی عوام میں تقسیم کر دیا کرتے تھے، رات رات بھر جاگ کے عوام کے حالات سے باخبر رہا کرتے تھے اور ہمارے سیاستدان و حکمران، عوام کے منہ کا نوالہ بھی چھین کے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرتے ہیں، تو یہ سیاستدان و حکمران جب تک ہر اس تکلیف سے خود نہیں گزرتے جس جس تکلیف و اذیت سے ایک عام پاکستانی گزرتا، جھیلتا اور اسے بھوگتا ہے تب تک وطن عزیز پاکستان میں حقیقی تبدیلی نہیں آ سکتی۔

میں نے بہت سوچا کہ وقاص یہ احتجاج کرکے گھر لینا یا نوکری لینا تو بھیک مانگنے جیسا ہوا، پھر خود ہی جواب ملا کہ اگر یہ بھیک مانگنا ہے تو پھر حکومت عوام کی جیب سے جو ٹیکس کی صورت میں مال نکالتی اور چھاپتی ہے اور پھر ہضم اور ہڑپ  کر جاتی ہے تو پھر اصل بھیک تو وہ ہے اور گر تو اور تیرے جیسے عام پاکستانی حاکم وقت سے احتجاج کے زریعے گھر و کاروبار مانگتے ہیں تو وہ تو دراصل حاکم وقت سے اپنا حق مانگتے ہیں وہ حق جو وہ حکومت کو ووٹ دینے کے بعد مانگتے ہیں اور وہ حق جو حکومتی عہدے دار الیکش سے پہلے "روٹی کپڑا اور مکان " کے نام پے بلند و بانگ نعروں سے عوام کو سبز باغ کی صورت میں دکھاتے ہیں۔۔جب مجھ سمیت ہر پاکستانی ہر چھوٹی بڑی شے پے ٹیکس ادا کرتا ہے تو اسے ٹیکس ادا کرنے کے بدلے کیا ملتا ہے؟ حکومت بیرونی قرضہ لیتی ہے تو اس کا فائدہ عام پاکستانی کو کب ملتا ہے...!

احتجاج کس نے نہیں کیا، کس پارٹی کے کس وزیر مشیر نے نہیں کیا، وزیر آعظم سے لے کر وزیر آعلی تک نے احتجاج کیا ہوا ہے، سب نے اپنے لیے،اپنی پارٹی اور اپنے مفاد کے لیے گاہے بگاہے احتجاج کیا ہے پر میں اپنے جیسے بے گھر و بیروزگار پاکستانیوں کے لیے احتجاج کروں گا اور میرے جیسے ہر بے گھر و بیروزگار پاکستانی کو اپنا جمہوری حق استعمال کرتے ہوئے پُر امن احتجاج کرنے کی اجازت ہے۔

اقامہ کی معیاد ختم ہو جانے کے بعد بھی میں چاہوں تو غیر قانونی طور پے سعودیہ کے اندر چوری چھپے زندگی گزار سکتا ہوں، کہیں نا کہیں چوری چھپے کام کر سکتا ہوں، پر جہاں کام کروں گا اور رہائش رکھوں گا وہ انسان میری مجبوری و بے بسی کا ناجائز فائدہ اٹھائیں گے، مجھ سے کام زیادہ لے کے اور تنخواہ کم لگائیں گے، کبھی آدھی تو کبھی پوری تنخواہ ہی کھا جائیں گے اپنا حق مانگنے پے کبھی بیعزت کریں گے اور کبھی ہاتھا پائی پے اتر آئیں گے، اور مجھے سعودیہ میں غیر قانونی رہنے پے جیل بھجوانے کی دھمکی پے دھمکی دے کے میرا حق کھاتے رہے گے اور یوں زندگی لڑتے جھگڑتے گزرتی رہے گی اور ایک دن میں بھی پردیس میں حالات سے جنگ کرتے کرتے تھک ہار کے بے موت مر جاؤں گا اور کسی سرد خانے میں میری لاش مہینوں اور سالوں پڑی رہنے کے بعد لاوارث لاش کے طور ہے دفنا یا دریا برد کر دیا جاؤں گا۔۔پر کیا اسے زندگی کہیں گے؟ کیا یہ زندگی کہلائے گی؟ یہ سب میرے ساتھ یا میرے جیسے کسی بھی مجبور و بے بس انسان کے ساتھ آخر کیوں ہوتا ہے، اسلیے کیونکہ دنیا کا غلط اصول ہے کہ دنیا امیر کی امیرت سے اتنا فائدہ و مفاد نہیں اٹھاتی جتنا غریب کی غربت سے فائدہ و مفاد اٹھاتی ہے، کیوں۔۔کیونکہ امیری کی امیرت سے گر فائدہ اٹھایا تو اس نے اپنی امیرت کا اثر و رسوخ استعمال کرتے جواب میں ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانا ہے اس نقصان کے ڈر سے انسان امیر سے فائدہ نہیں اٹھاتا بلکہ اسے فائدہ پہنچاتا رہتا ہے کہ اس کے شر سے بچا رہے اور غریب کی غربت سے کیوں فائدہ و مفاد اٹھاتا رہتا ہے، اسلیے کیونکہ غریب پہلے ہی مجبور و بے بس ہوتا ہے اس نے جواب میں کیا،کیسا اور کونسا کسی کو نقصان پہنچا لینا ہے اور ایک اور ظلم و ناانصافی پے کسی کا بھلا کیا اکھاڑ لینا ہے اسلیے انسان غریب کی غربت سے جتنا فائدہ مفاد اٹھانا چاہتا ہے اٹھا لیتا ہے، مگر انسان یاد رکھے کہ غریب، مجبور و بے بس انسان کی غربت ، مجبوری و بے بسی کا فائدہ و مفاد فقط حیوان اٹھاتا ہے حقیقی انسان نہیں۔۔۔!

سعودیہ میرے لیے پردیس ہے، یہ میرا دیس نہیں ہے، یہاں میرے پاس نوکری نہیں ہے، میرے پاس اقامہ نہیں ہے، میں ابّا جی کے ایک دوست کے ہاں اب تک رہتا آیا ہوں، کبھی ایک تو کبھی دو اور کبھی کہیں تین مہینے کی عارضی نوکری کرتا آیا ہوں پر پھر بھی میرا کمرے کا کرایہ اور کھانا پینا اچھے سے ہوتا آیا ہے، جب نوکری نہیں ملتی تو ابّا کے انہی دوست کے ساتھ ہی رہتا اور کھاتا پیتا آیا ہوں،پر اس سب کے باوجود بھی مجھے یہاں کوئی خوف و ڈر نہیں ہے، امن ہے، کوئی آپ سے حسد نہیں کرتا، کینہ و بغض نہیں رکھتا، کسی کو اچھا کھاتے پیتا دیکھ کے کوئی نہیں جلتا، کوئی کسی کی زندگی میں بے وجہ و بلا وجہ دخل اندازی نہیں کرتا، سب اپنی اپنی زندگی میں مصروف اور اپنے کام سے کام رکھتے ہیں اور ہاں انسانیت کے ناتے آپ کے کام بھی آتے ہیں، جیسے کسی بھی بنگالی و بھارتی یا پاکستانی کے حالات خراب ہو جائیں تو سب اس بندے کی ہر طرح کی مدد کرتے ہیں اور گر اسے اپنے ملک جانا ہو تو سب مل کے اسکی ٹیکٹ وغیرہ بھی خرید کر دیتے ہیں حتکہ اسکو گھر جانے کے لیے شاپنگ بھی کرا دیتے ہیں اسی لیے اور انہی باتوں کی وجہ سے سعودیہ مجھے اپنے دیس جیسا لگتا ہے، اور بیشک آپ کا دیس وہی ہے جہاں آپ کو امن ملے، عزت و احترام ملے،رزق و روزگار ملے، سعودیہ میں آج بھی کھانا پینا اور پہننا سستا ہے، آپ ایک ہزار سے ڈیڑھ ہزار کی تنخواہ میں آپ اپنی اکیلی زندگی اچھے سے جی اور گزار سکتے ہیں پر ایک انسان آخر کب تک زندگی کی جنگ تن تنہا اکیلے لڑے گا، ہر انسان کو خاندان کی ضرورت ہے، ایک مکمل خاندان کے ساتھ زندگی جینا ہوتی ہے، گھر بار اور اپنوں کی ضرورت ہوتی ہے جسکی وجہ سے میں نے یہی فیصلہ کیا جینا مرنا میرے دیس میرے پاکستان میں ہی ہو گا جو بھی جیسا بھی ہے پر میرا دیس میرا پاکستان ہے اور آئے دن سعودیزیشن کی وجہ سے فارنر کا سعودیہ میں رہنا مشکل ترین ہو گیا اور ہوتا جا رہا ہے،ٹیکسز کی بوچھاڑ ہوتی جا رہی ہے پر سعودی حکومت یہ سب کس لیے اور کس کے لیے کر رہی ہے، فقط اپنی سعودی عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کہ جن جن عہدوں پے غیر ملکی نوکری کر رہے ہیں وہاں ہمارے اپنے سعودی مرد و زن کام کریں اس کے علاوہ سعودی عوام کو مختلف وظائف اور سہولیات فراہم کی جاتی ہیں، جس سعودی کے پاس گھر بار نہیں حکومت اسے کرائے کے گھر میں رہنے کا کرایہ اور ماہانہ وظیفہ دیتی ہے اور ہماری حکومتیں۔۔۔؟

اب آتے ہیں دوسری طرف کہ کہ پاکستان میرا اپنا دیس ہے، میری پیدائش پاکستان کی ہے اور بچپن پاکستان میں ہی گزرا اور میں پاکستان کا شہری ہوں پر بعض دفعہ مجھے پاکستان آتے ہوئے خوف و ڈر سا لگنے لگتا ہے، جیسے میں کسی انجان اور کسی دوسرے پردیس میں جا رہا ہوں ، گھنٹوں سوچ سوچ کے زہن شل ہو کے کام کرنا چھوڑنے لگتا ہے اسی سوچ و بیچار کی وجہ سے اداسی اور خود سے بیزاری سی محسوس سی ہونے لگتی ہے، طبعیت بوجھل اور بے چین سی ہونے لگتی ہے تو ان سب سوچوں کی وجہ سے زہن تھک کے معاؤف ہو جاتا ہے اور خود بخود نیند آنے لگتی ہے تو کچھ دیر سو جاتا ہوں کیونکہ نیند انسان کو کچھ دیر کے لیے مار دیتی ہے اور نیند میں بھوک،پیاس غم و پریشانی سے انسان کچھ دیر کے لیے آزاد سا ہو جاتا ہے اور جاگنے کے بعد ایکبار پھر سے نا چاہتے ہوئے بھی پاکستان ایک ڈراؤنا خواب بن کے آنکھوں کے سامنے گھومنے سا لگتا ہے کہ کیا ہو گا کیسے ہو گا، کہاں جاؤں گا، کس کے پاس جاؤں گا، کس کو کہوں گا کہ میرے پاس رہنے کو گھر اور جینے کو روزگار نہیں پاکستان آنے کا سوچتا ہوں تو دل گھبرانے اور قدم ڈگمگانے سے لگتے ہیں، کیوں۔۔کیونکہ میرے دیس میں مارا ماری اور نفسا نفسی اپنے عروج پے ہے، کہیں ماں دوسری شادی کی خاطر اپنے تین بچوں کو قتل کر دیتی ہے، کہیں سننے اور دیکھنے کو ملتا ہے کہ 70 سالہ بزرگ خاتون کو اسکے بیٹے اور بہو نے کچرے میں پھینک دیا، جہاں لوگ اپنا پیٹ بھرنے کے لیے قبر میں دفنائے گئی خواتین کے بال تک کاٹ کے اندرون و بیرون ممالک بیچ دیتے ہیں، کہیں ماں اپنی لخت جگر کو کراچی جسم فروشی پے چھوڑ آتی ہے اور کہتی ہے بیٹی بس ایک بار گھر بنوا دو پھر یہ کام چھوڑ دینا،تو کہیں لاہور میں تاریک راتوں میں مجبور و بے بس عورتیں اپنا اور اپنے گھر بھر کا پیٹ پالنے اور سانسوں کی ڈور کو جوڑے رکھنے کی خاطر اپنا جسم بیچتی ہیں تو ہماری ہونہار پولیس ان سے انکی جسم فروشی پے اپنا حصہ و بھتہ وصولتی ہے، کیا کیا برائی بتاؤں اپنے دیس کی انہی باتوں کو دیکھتے اور سوچتے موت صاف صاف نظر آنے لگتی ہے کہ ایسے میں تیرے احتجاج سے کیا ہونا ہے سوائے زلت و خواری اور جگ ہنسائی کے اور آخر میں جیل اور قید و بند اور موت کے۔۔۔!

پر دوسری طرف مجھے ایدھی، چھیپا،انصار برنی اور میرے محترم اقرار بھائی جیسے دیگر بہترین انسان نظروں کے سامنے گھوم جاتے ہیں، جنکی انسانیت سے اب تک نجانے کتنے مظلوم بچے،بچیاں بڑے بزرگ سب مستفید ہو چکے ہیں، جو اس مارا ماری و نفسا نفسی کے عالم میں بھی ہر ظلم و ستم اور ناانصافی کے خلاف اپنی بہترین خدمات سے ملک و معاشرے میں عظیم ترین جہاد کر رہے ہیں انہی حقیقی انسانوں کو دیکھ سن کے مجھے ہمت و حوصلہ ملتا ہے، طاقت و تقویت ملتی ہے، اور میں خود سے کہتا ہوں وقاص تجھے بھی انہی حقیقی انسانوں کی طرح اپنے دیس میں مظلوم عوام کا ساتھ دینا ہے، انہیں کی طرح تجھے بھی ملک و قوم کی خدمت کرنا ہے اور اپنے دیس میں ہی جینا اور اسی دیس کی مٹی میں دفن ہونا ہے، ان شاءاللہ عزوجل۔

میں راؤ انوار کا کیس دیکھتا ہوں جس نے کم و پیش 450 انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا اس کے جیسے اور کئی کیسز جنمیں قاتل اپنے اثر و رسوخ کی بنیاد پے دنداناتا پھرتا ہے جیل چلا بھی جائے تو اسکی شاہانہ زندگی پے اثر نہیں پڑتا ہے اور چند دن،چند مہینے اور بہت زیادہ چند سال جیل میں شاہانہ زندگی گزار کے پاک و صاف اور شفاف ہو کے ویکٹری کا نشان بنا کے بَری ہو جاتا ہے, شاہ رخ جتوئی جس نے شاہ زیب کا قتل کیا وہ کیس میرے سامنے ہے، ان جیسے بے بہا ناحق و ناانصافی پے مبنی ڈھیروں ڈھیر کیس ہیں جنکا آج تک کوئی فیصلہ حق و سچ پے نہیں ہوا، ٹھیک ٹھیک انصاف پے نہیں ہوا میرے دیس میں حق بھی ملتا ہے، انصاف بھی ہوتا ہے، ہاں اگر آپ کوئی سرکاری شخصیت ہوں اور اپنا اثر و رسوخ رکھتے ہوں،ان سب باتوں کو دیکھتے ہوئے مرنا تو مجھے پردیس میں بھی ہے اور دیس میں بھی ہے تو پھر کیوں نا اپنے دیس میں ہی آ کے مرا جائے ظالم و ظلم کے خلاف ڈٹ جایا جائے،اپنے دیس کی مظلوم و نادار عوام کے لیے آواز اٹھائی جائے اس دوران پھر بھلے زندگی ملے یا موت قبول ہے، اور حق و سچ کی آواز اٹھاتے اگر مجھے بے موت مار بھی دیا جائے تو کم سے اتنا تو ہو گا کہ مارنے والے کفن دفن کا سامان پیدا کرکے کم سے کم دفنا تو دیں گے ہی، ابھی اسقدر بھی خود غرضی ، بے حسی اور ظلمت کا دور دورہ نہیں میرے دیس میں کہ مارنے کے بعد دفن بھی نہیں کریں گے اور مجھے قبر بھی نصیب نہیں ہونے دیں گے، جیتے جی نا سہی کم سے کم مرنے کے بعد چھے فٹ کی قبر کو تو میرا گھر بننے ہی دیں گے

ایسے میں ربّ رحمان کے ہاں میرا شمار ربّ رحمان کے ان بندوں میں تو شامل ہو جائے گا جنہوں نے اپنی زندگی ظالم و ظلم اور ناانصافی کے خلاف اور حق و سچ کا ساتھ دیتے، حق و سچ کی آواز بلند کرنے میں قربان کر دی۔

اگر لاکھوں نہیں تو ہزاروں پاکستانی جو ایک بار اپنا وطن چھوڑ کے گئے تو پھر پردیس کے ہی ہو کے رہ گئے، کیوں۔۔کیونکہ انہیں پتا ہے کہ ہمارے دیس میں سوائے زلت و رسوائی بیروز گاری کے کچھ نہیں ہے،ظلم و ناانصافی کے سوا کچھ بھی نہیں، انکی عمریں 60 سے 70، 70 سال کی ہو جاتی ہیں پر وہ پاکستان پھر بھی نہیں آتے، پردیس میں ہر مشکل وقت سے گزر جانا بہتر سمجھتے ہیں پر پاکستان پھر بھی نہیں آتے ہیں گر جو کوئی اپنے دیس کی محبت میں پردیس کو خیر باد کہہ بھی دے تو بھی ہمارا کرپٹ معاشرہ و کرپٹ نظام اسے اتنا تنگ و زچ کرتا ہے کہ وہ انسان دوبارہ پردیس سدھار جاتا ہے، مجھ سمیت کئی پاکستانی پردیس چھوڑ کے آتے ہیں پر ملک کی ابتر حالت کی وجہ پھر سے پردیس سدھار جاتے ہیں اور کبھی زندہ تو کبھی لاش بن کے وطن واپس لوٹتے ہیں۔۔

میرے پاس گھر نہیں ،زمین و جائیداد اور بینک بیلینس نہیں، جینے کے لیے کوئی پرسانِ حال نہیں، ایسے میں میرے جیسے عام پاکستانی کے پاس دو راستے ہوتے ہیں پہلا راستہ کہ میں مشکل و پریشانی میں گِھر کے بہک و بھٹک کے معاشرے کے غلیظ و مکروہ لوگوں کے ساتھ مل کے ملک و قوم کو دہشت گردی کی بھینٹ چڑھا کے خون میں نہلا دوں، کہ جو معاشرہ میرے کسی کام کا نہیں اسے میں کسی کام کا نہیں چھوڑوں گا، یا چور چکار بن جاؤں کہ ایسے نہیں تو ایسے سہی، چور چکاری سے اپنی زندگی سنواروں، یا چرسی و افیونی بن کے زہر اپنی رگوں میں آہستہ آہستہ اتارتا رہوں یا دہشت گرد و غنڈہ و موالی بن کے اس معاشرے کی غریب و ناتواں عوام پے ظلم و ستم ڈھا کے اپنے لیے سکون و آرام کا سمان پیدا کروں۔۔اور ۔۔۔اور ایک دن بے موت و حرام موت مارا جاؤں۔۔۔

دوسرا راستہ یہ ہے کہ میں اپنے وطن عزیز پاکستان میں اوپر سے لے کر نیچے تک دائیں سے لے کے بائیں تک جہاں جہاں ظلم و زیادتی اور نا انصافی سالوں سے قائم ہے اپنا جمہوری حق استعمال کرتے ہوئے اس اس ظلم و زیادتی اور ناانصافی و حق تلفی کے خلاف بھرپور احتجاج کروں، پھر احتجاج کرتے یا تو میری حق کے لیے اٹھائی گئی آواز کو ہمیشہ کے لیے دبا اور بند کر دیا جائے یا پھر کوئی حق و ناحق کی سمجھ و بوجھ رکھنے والا انسان میری حق گوئی کو تحمل و اطمنان سے سنے اور میرے جیسے تمام پاکستانیوں کے دکھ درد کا مداوہ بھی کرے اور مجھے دوسرا راستہ ہی بہتر لگا اس لیے میں اپنے اور اپنے جیسے تمام پاکستانیوں کے لیے حق کے لیے آواز آٹھانے جا رہا ہوں۔۔اور میں اپنے جیسے ہر مرد و زن پاکستانی سے یہی کہوں گا کہ پہلا راستہ کبھی نا اپنانا، بھلے حالات و واقعات کیسے ہی برے و بدتر کیوں نا ہو جائیں۔۔۔ امن واتحاد بھائی چارے کا دامن کبھی ہاتھ سے چھوٹنے نا پائے۔۔۔!

آپ بے گھر و بیروزگار ہو،اور اس کے لیے آپ نے اپنی سکت و طاقت کے مطابق ہر جگہ بھاگ دوڑ کرکے دیکھ لی،رزق و روزگار کے سب مواقع استعمال کرکے بھی دیکھ لیے، اسکے بعد بھی آپ کی زندگی بے گھر و بیروزگاری کی ازیت میں گزر رہی ہے، آپ کو آپ کا جائز حق نہیں مل رہا ہے اور اس سب کے بعد پریشانی کے عالم میں کسی بھی قسم کی تخریب کاری، چور چکاری اور مار دھاڑ والے گھناونے کام کرکے حرام موت مرنے سے بہتر ہے کہ آپ اپنا جمہوری حق استعمال کرتے ہوئے ہر سرکاری دفاتر کے سامنے احتجاج کریں اور اس وقت تک وہاں سے نا ہٹیں جبتک آپ کو آپ کا بینادی حق نا مل جائے پھر اس میں بھلے جان جاتی ہے تو جان چلی جائے پر پُر امن احتجاج جاری رکھیں ۔۔۔آپ کو آپ کا کوئی بھی بنیادی حق کبھی بھی عزت و احترام سے آپ کی دہلیز پے نہیں ملتا اس کے لیے محنت اور جدوجہد کرنا پڑتی ہے اور تب کہیں اس کے بعد آپ کو آپ کا حق ملتا ہے،

میں چیف جسٹس صاحب کے سامنے چند سفارشات و گذارشات اور مطالبات رکھوں گا جنکی فہرست یہ ہے

1: : ہر صوبہ اپنے صوبے کی بے گھر عوام کو گھر بنا کے دے اور جب تک گھر نہیں بنا کے دیا جاتا تب تک بے گھر عوام کو کرائے کے گھر کا کرایہ مہیا کیا جائے

2: پاکستان بھر میں Underage بچوں کو فوری طور پے ہر قسم کی محنت و مشقت سے آزاد کرا کے انکی مفت تعلیم و تربیت کی جائے اور انہیں جو محنت و مشقت سے چار آنے آمدنی ہوتی ہے اس سے زیادہ انہیں وظیفہ دیا جائے۔۔پھر وہ بچے بھلے کسی ورکشاپ، کارخانے یا پھر چاہے کسی ظالم و جابر امیر و کبیر کے گھر کام کاج کر رہے ہوں یا پھر اپنا رزق کسی کچرے دان میں تلاش کر رہے ہوں یا پھر بھیک مانگ کے اپنے گھر کو گھر کا بڑا بن کے چلا رہے ہوں۔

3: پاکستان کے ہر قسم کے طبقے کے بچوں کو انٹر میڈیٹ تک مفت تعلیم فراہم کی جائے۔

4: صدر و وزیر آعظم ، گورنر و وزیر اعلی اور ہر قسم کے ہاؤسز کے روزانہ کے لاکھوں کے اخراجات مکمل طور پے ختم کیے جائیں اور اس رقم کو پورے پورے حق و انصاف کے ساتھ عوام کی فلاح و بہبود میں صَرف کیا جائے۔

5: ان تمام سیاستدانوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نااہل کیا جائے جو دوہری شہریت رکھتے ہوں۔جن کے گھر بار و کاروبار پاکستان سے باہر ہوں اور جو پاکستان میں گھر و کاروبار ہوں انکی پوری پوری چھان بین بھی ہو، آیا کہ گھر و کاروبار کس آمدن اور زرائع سے خریدا گیا ہے۔

6: مزید ایسے ٹیکنیکل سکول اور ورک شاپس قائم کی جائیں جہاں کم تعلیم یافتہ و انپڑھ پاکستانیوں کو فری ٹرینگ دی جاۓ اور انہیں بیکار و بوجھ والی زندگی سے کارآمد و تخلیق کار والی زندگی میں لایا جائے۔

7: جہیز جیسی لعنت کو قانونی طور پر مکمل ختم کیاجاۓ تاکہ غریب گھرانوں کی بچیوں کو شادی کی مشکلات سے دو چار ھونا نہ پڑے اور جہیز کی مانگ کرنے والے فرد و خاندان کو جرمانہ اور کڑی سزا دی جائیں۔

8: جس طرح کسی سرکاری عہدے دار پے چھوٹا یا بڑا حملہ ہونے کے بعد پولیس سے لے کر آرمی اور تمام اجینسیز حرکت میں آ جاتی ہیں،اس کی جان بچانے کے لیے ملک کے تمام وسائل بروئے کار لائے جاتے ہیں۔۔۔سرکاری خزانوں کا منہ کھول دیا جاتا ہے۔۔۔اسکی دیکھ بھال اور جان بچانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دی جاتی ہے، اسی طرح ملک میں کسی بھی حادثے کی صورت میں ایک عام انسان اور ایک عام پاکستانی کو بھی وہ سب سہلولیات و مراعات دی جائیں اسکی جان بھی ایک سرکاری عہدے دار کی ہی طرح بچائی جائے، جیسے حکومتی ایوانوں میں بیٹھے سرکاری عہدے دار کی جان قیمتی ہے اسی طرح ایک عام پاکستانی کی جان بھی قیمتی ہے وہ عام پاکستانی، جس کے ٹیکس سے پاکستان کا نظام چلتا اور بڑھتا رہتا ہے کہ ایک عام پاکستانی جب کسی حادثے سے گزرے تو وہ حادثہ سے گزرنے کے بعد پھر سے ایک صحتمند اور نارمل انسان کے طور پے معاشرے کا کارآمد انسان بن سکے۔

9: اوور سیز پاکستانی جو کسی مجبوری و کاروباری معاملات کی وجہ سے پردیس میں مقیم ہے اسے ووٹ کاسٹ کرنے کا پورا حق دیا جائے اور اسکی اپنے گھر بھیجی گئی رقوم کو ٹیکس فری کیا جائے،اسے زیادہ سے زیادہ اور بہترین سہلولیات دی جائیں تاکہ وہ ملک و قوم کے لیے زیادہ کارآمد پاکستانی ثابت ہو۔

10: ایسا قانون بنایا جائے کہ حکومتی عہدےدار ملک کے اندر ہی علاج کرائیں گے ایسے ہی جیسے غریب عوام ملک کے اندر گورنمنٹ کے ہسپتالوں میں علاج کرواتی ہے تاکہ حکمران اسی ملک میں ایسے ہسپتال بنائیں جس میں حکمران بھی علاج کرائے اور ایک عام غریب پاکستانی بھی علاج کرائے گر حکمران بیرون ممالک میں علاج کرائیں تو پھر ایک عام پاکستانی کا علاج بھی بیرون ممالک کے ہسپتال میں کیا جائے۔

11: ہر 50 سالہ غریب اور مفلوک الحال پاکستانی مرد و زن کا علاج و معالجہ بالکل مفت ہو اور انہیں ماہانہ مناسب وظیفہ دیا جائے جس سے وہ اپنی زندگی کے آخری دن سکھ و صحت سے گزار سکیں۔

12: بیرون ممالک کونسلیٹ اور ایمبیسیز کو بہتر سے بہتر بنایا جائے، جہاں سائل جس کام سے آئے اس کی بات سنی جائے،اسکا کام فوری طور پے کیا جائے،ناکہ شناختی کارڈ فارم فِل اپ کرنے کے بھی الگ سے 10 سے 20 ریال لیے جائیں اور اوپر تک کے بندے کو حصہ پہنچایا جائے، اور وہ پاکستانی گر جن کے پاس کوئی سفری کاغذات نہیں ہیں اور انہیں پاکستان بھیجنے کے لیے 200 سے لے کر 500 ریال تک اور منہ مانگی رقم کا مطالبہ نا کیا جائے۔

13:  مجبوری و بے بسی میں اپنا جسم بیچ کے اپنی اور اپنے گھر بھر کا پیٹ بھرنے والی تمام پاکستانی خواتین کے بارے معلومات جمع کرکے انہیں وہ سب باتیں مہیا کی جائیں جس کی وجہ سے وہ اس قبیح و زلیل کام کو چھوڑ دیں اور انکے لیے کسی بہتر و متبادل روزگار کا بندوبست کیا جائے جس سے وہ عزت و احترم سے اپنی باقی کی زندگی سکون و آرام سے گزار سکیں۔

ان خواتین کے لیے جو کسی بھی وجہ سے اپنا جسم بیچتی ہیں اور چاہتی ہیں کہ وہ اس زلیل و قبیح کام سے ہمیشہ کے لیے پیچھا چھڑوا لیں تو جتنی بھی خواتین مجبوری و بے بسی میں اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ اپنا جسم بیچ کے بھر رہی ہیں وہ سب خواتین اپنا آپ چھپا کے اپنی ویڈیوز بنا کے سوشل میڈیا پے اپلوڈ کریں اور ان حکمرانوں کو غیرت دلائیں کہ جب تمہاری ماں،بہن بیوی اور بیٹی بہو عزت سے گھر میں بیٹھتی ہیں تو پھر ہم بھی تو اس وطن اور قوم کی مائیں،بہنیں اور بیٹیاں ہیں ہمیں اتنا اور وہ سب کچھ کیوں نہیں دیا جاتا جس سے ہم بھی عزت سے اپنے گھر میں بیٹھیں۔۔۔سب لوگ رمضان کریم میں خوش ہوتے ہیں برکتیں رحمتیں سمیٹتے ہیں اور ہم جسم فروش عورتیں ماتم کرتی ہیں کہ رمضان کریم میں ہمارا پیٹ کیسے بھرے گا ہمارے گھر کا چولہا کیسے چلے گا۔

13 ریپ کی وجوہات جانی جائیں اور انہیں ختم کیا جائے تو ریپ خود ختم ہو جائے گا

بیروزگاری اور اسی بیروزگاری کے سبب گھر بار نہیں ہوتا یا بن نہیں پاتا، بیروزگاری کے سبب ہی نوجوان تخریب کار سرگرمیوں اور نشے جیسی لعنت میں پڑ جاتے ہیں ، اسی بیروزگاری کے سبب نکاح مشکل ہو جاتا ہے کوئی بھی انسان بیروزگار انسان کو اپنی بیٹی نکاح میں نہیں دیتا ہے اور نتیجتاً ایک انسان زنا کی طرف قدم بڑھا دیتا ہے جس کی وجہ سے معاشرے کے معصوم بچے بچیاں زہنی و جسمانی تشدد کا نشانہ بنتے ہیں اور گندے سیاستدان اس پے بھی اپنی گندی سیاست کرتے ہیں پر پھر بھی ریپ ہونے کی وجوہات کو کم یا ختم نہیں کرتے ہیں۔

14: آئندہ کسی بھی سرکاری محکمے کی بلڈنگ کو آگ لگے اور سالوں کا حساب کتاب کا ریکارڈ جل جائے تو اس بلڈنگ کے سارے عملے کو گرفتار کرکے جیل میں ڈالا جائے پھر خود با خود پتا لگ جائے گا کہ آگ کب کیسے اور کیوں لگی اور آگ خود بخود لگ گئی کہ یا پھر کسی منصوبے کے تحت آگ لگائی گئی تھی۔

15 الیکشن سے پہلے سیاستدان ملک و قوم کی فلاح و بہبود کے لیے جو جو دعوے اور جو جو وعدے کریں اور پھر پورے نا کریں تو ان سے پوچھ گوچھ کا قانون ہو اور دعوے اور وعدے پورے نا کرنے پے انہیں بھاری جرمانے اور سزائیں دی جائیں۔

16: کوئی امیر ظلم کرے یا غریب دونوں کو قانون کے عین مطابق فوری طور پے سزا دی جائے ناکہ غریب کو حیلے بہانے سے ڈرایا جائے اور امیر کو سزا دینے سے ڈرا جائے اور ملک میں نظم و ظبط و انصاف کا بول بالا کیا جائے۔

17: بے سہارا و بے آسرا بیواؤں کا وظیفہ مقرر کیا جائے تاکہ وہ عزت سے اپنی زندگی جی سکیں۔

18: پاکستان کے ہیروز کی دیکھ بھال کے ساتھ انہیں عزت و توقیر دی جائے ناکہ پھر کوئی منصور احمد جیسے دیگر ہیروز کو ایڑیاں رگڑتے اپیل پے اپیل کرتے بے یار و مددگار چھوڑ دیا جائے۔

19: عوام میں سے کوئی چوری کرے تو سخت سزا اور سرکار میں سے کوئی چوری کرے تو جا بھاگ جا۔۔کوئی دبئی ، کوئی انگلینڈ اور کوئی سعودیہ جا بھاگ جا، غریب کی چوری کے پیچھے اسکی وجہ کو دور کیا جائے جبکہ سرکاری عہدے دار کا چوری پے اسے سزا دے کے چوری کا مال عوام کی فلاح و بہبود میں خرچ کیا جائے۔

20: کسی بھی حکمران یا سیاستدان کو بیرون ممالک جائیداد خریدنے اور کاروبار کی اجازت نا ہو، اسوقت تک جب تک وہ حکمرانی یا سیاست ہمیشہ کے لیے چھوڑ دے۔

21: فوری طور پے ڈیم بنائے جائیں، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے اور پاکستان بوند بوند کو ترس جائے

22: نشے کرنے والے اور نشہ بیچنے والے کو سزائے موت دی جائے ایسے ہی جیسے سعودی عرب کے اندر نشہ کرنے اور بیچنے والے کے لیے موت کی سزا قائم ہے

23: جو سکون،امن اور صفائی اسلام آباد میں ہے وہی سکون،امن اور صفائی پاکستان کے ہر شہر میں قائم کی جائے۔

24: کسی بھی پارٹی کے جلسے جلوس میں عوام کو روٹی سالن اور بریانی کھلانے پے پابندی عائد کی جائے جس کو آنا ہو گا وہ اپنے لیڈر کی محبت میں ایک بار نہیں بار بار آئے گا اور لیڈر کی محبت میں وہی آئے گا جس لیڈر نے اپنے حلقے کی عوام کے حقوق ادا کیے ہونگے ناکہ پیٹ بھرنے کی لالچ و حرس میں جلسوں جلوسوں میں عوام کو بلایا جائے گا۔

25: اپنے اپنے حلقے کے منتخب نمائندگان جب اپنے علاقے کے مسائل حل نا کریں تو عوام فوراً سے پہلے اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں اور اگر علاقے کے مسائل پھر بھی حل نا کیے جائیں تو تین بار کے احتجاج کرنے کے بعد اسے نااہل قرار دیا جائے وہ آئندہ کسہ بھی پارٹی اور حلقے سے الیکشن نہیں لڑ سکتا اور اس کے عہدے سے مستعفیٰ ہونے کا مطالبہ کریں اور نئے آنے والے نمائندے کو بھی باور کرا دیں کہ آپ نے بھی ہمارے مسئلے گھٹانے کی بجائے اگر بڑھائے تو ہم آپ کو بھی پہلے والے نمائندے کی طرح آگے بڑھا دیویں گے۔

26: آئندہ کسی سڑک پے پڑے گڑھے کی وجہ سے کوئی حادثہ ہو تو زمہ داران کو سخت سزا دی جائے اور غفلت برتنے والے حکومتی و ٹھیکے دار کو نااہل قرار دیا جائے اور کھلے گٹر میں گرنے سے کسی بچے کے مر جانے یا کوئی اور حادثہ ہو جانے پے زمہ داران کے خلاف سخت ایکشن لینے کے ساتھ لواحقین کو ہرجانہ ادا کیا جائے اور زمہ داران کو قید و سزا دی جائے۔

27 : ملک و قوم کے نام پے لیا گیا بیرونی قرضہ کا پیسہ کہاں کہاں کیسے کیسے خرچ ہوا اس کا پورا پورا حساب کتاب لیا جائے اور قرضہ کا غلط و غیر ضروری کاموں میں خرچ کرنے کی صورت میں عہدے دار کے خلاف سخت کاروائی کی جائے

28: وزیر صدر سے لے کر وزیر آعظم اور ایم این اے سے لے کے ایم پی اے تک اور چھوٹے سے چھوٹے عہدے دار سے پانچ سال کے بعد پوچھا جائے کہ اپنے حلقے کے اندر کیا کیا مثبت تبدیلی لائے، کیا کام کروائے، کتنی اپنے حلقے کی عوام کا خیال رکھا اور انکی زندگی کو آسان بنایا؟

30: آئندہ جس صوبے کا کوئی ایک فرد یا خاندان اگر بے گھر اور غربت و بیروزگاری کی وجہ سے انفرادی یا اجتماعی خود کشی کرے تو اس صوبے کے وزیر اعلی سے پوچھا جائے اور اس انسان و خاندان کی موت کا بدلہ لیا جائے، ایسے میں سزا و قید و بند کیا جائے

جس دن پاکستان میں ایک سرکاری عہدے دار کی جان و مال اور اسکی عزت و آبرو کی حفاظت کی طرح ہر ایک عام پاکستانی کی جان و مال اور اسکی عزت و آبرو کی حفاظت کی جائے گی اور جس دن جس طرح ایک سرکاری عہدے دار کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے سارے اقدامات کیے جاتے ہیں ویسے ہی ایک عام پاکستانی کی زندگی کو بھی بہتر بنانے کے لیے یہ سارے اقدامات کیے جائیں گے تب اور اس دن پاکستان میں حقیقی تبدیلی آئے گی،اس دن پاکستان ایک اسلامی ملک بنے گا اور اس دن ہی پاکستان ایک فلاحی و کامیاب ریاست کے طور پے دنیا کےنقشے پے ابھر کے سامنے آئے گا۔۔۔

علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی اس نظم کے عین مطابق سب سیاستدان و حکمرانوں کو چلایا جائے

نظم

لب پے آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری

ہاں میں ایسا پاکستان بننے اور بنانے کا خواہشمند ہوں اور آپ؟

No comments:

Post a Comment