چور اور چوری چکاری
میں نے دبئی میں نوکری کی شروعات جس ریسٹورینٹ سے کی تھی اس ریسٹورینٹ پے مشکل سے تین دن کام کیا اور ایک کے بعد ایک واجبات کی ادائیگی کے لیے آنے والوں سے تنگ آ کے میں نے وہاں سے تین دن کے بعد ہی جان چھڑوا لی۔
مجھے وہاں Cashier + manager کی نوکری آفر ہوئی تھی، نوکری پے دوسرا دن تھا کہ میں کسی کام سے ساتھ والی دوکان میں گیا تو میری غیر موجودگی میں وہاں پے ایک ڈش واشر نے گلے یعنی کاؤنٹر میں سے لگ بھگ 40،50 درھم اٹھا لیے اور بھاگ گیا۔۔
خیر میں جب واپس آیا تو شیف نے بتایا کہ فلاں گلے میں سے اتنے پیسے اٹھا کے لے گیا۔۔خیر سے شام کو ارباب یعنی مالک آیا، کیمرے میں اس کی ریکارڈنگ دیکھی گئی، اور میں ارباب سے کہنے لگا کہ کیسا آدمی ہے کہ چوری کرتے شرم نا آئی، اس کی اتنی ہمت کیسے ہو گئی، کیسے اس نے یہ حرکت کر گزری۔۔۔اور ارباب مجھے کہنے لگا کہ میں اس کے ساتھ بہت اچھا ہوں، اس کو تنخواہ کے علاوہ بھی خرچا پانی دیتا رہتا ہوں، اور اس نے پھر بھی یہ حرکت کی ہے ۔میں نے کہا پولیس کو بلائیں اور اس کو مزا چھکائیں۔ارباب کہنے لگا نہیں پولیس کو بلا کے کیا فائدہ، اس نے مجھے نقصان دیا پر میں اسے نقصان نہیں دینا چاہتا، یہ سننے کی دیر تھی میں جھٹ سے بولا یہ تو آپ کا اپنا بڑا پن ہے ورنہ اس نے بڑی گھٹیا حرکت کی ہے۔۔اس کے بعد میں خود کلامی میں غصے میں بڑ بڑانے لگا کہ آیا کہ کیسا بغیرت انسان ہے، چوری کرتا ہے۔۔شرم نہیں آتی۔۔نجانے کیا کچھ اسے دل میں اور زبان سے کہہ ڈالا۔۔
پر ساتھ میں مجھے یہ بھی پتا لگ چکا تھا کہ ارباب صاحب اتنے ہی اچھے ہوتے تو کوئی بھی واجبات کی ادائیگی کے لیے نا آتا اور آ کے میرے ساتھ بدتمیزی سے پیش نا آتا، خیر کچھ اندازہ ہو گیا تھا کہ ایسا کیوں ہوا پر اصل وجہ جاننا چاہ رہا تھا پر بعد میں پتا چلا کہ جی ریسٹورینٹ کے مالک نے اس کی دو مہینے کی تنخواہ روک رکھی تھی۔۔تو مجھے ساری بات سمجھ آ گئی اصل کہانی کیا ہے۔
میں کسی چور کو چور، کسی زانی کو زانی یا کسی بھی قسم کی برائی کرنے والے کو برا سمجھنے کی بجائے اسے اس برائی میں دھکیلنے والے کو اصل برا سمجھتا ہوں۔۔
میری نظر میں چور وہ ہے جو بنیادی ضروریات زندگی کے ملنے کے باوجود بھی لالچ و حرص میں چوری چکاری کرے، زانی وہ ہے جس کی شادی ہو چکی ہو پر اس کے بعد بھی زنا سے باز نا آئے۔۔
ایسے ہی جیسے خود کشی کرنے والا مجرم نہیں ہوتا بلکہ خود کشی کے حالات پیدا کرنے والا اور خود کشی کی طرف دھکیلنے والے ہاتھ اور اس کے پیچھے لوگ اصل مجرم ہوتے ہیں۔
آپ کسی کو کام پے رکھ کر اس سے کام پے کام لیتے رہو اور اس کی اجرت اسے نا دو، نا وقت پے دو، اوپر سے جب بھی اجرت دو تو آدھی ادھوری اور کہو یہ خرچا پانی رکھو باقی بعد میں کرتے ہیں اس کا حق دبا کے بیٹھ جاؤ۔۔مجھے بتاؤ وہ انسان کب تک انسانیت یا مسلمانیت پے قائم رہے گا۔۔۔آخر کب تک۔۔فرشتہ تو ہے نہیں وہ۔۔آخر وہ بھی انسان ہی ہینا۔۔۔
انسان معصوم، پاک، شریف پیدا ہوتا ہے پر یہ دنیا اسے خطاکار، بدکار ناپاک اور بدمعاش بنا دیتی ہے۔۔پھر کہتے ہیں کہ چور ہے، زانی ہے، پانی ہے، بدکار و خطاکار ہے، ایسا ہے ویسا ہے، یہ ہے وہ ہے۔۔او بھائی یہ بتاؤ تم خود کیا ہو۔۔تم خود لوگوں کے ساتھ کیا کر رہے ہو۔۔
تم لوگ ہی تو اپنی حرکتوں سے انسان کو حیوانیت اور شیطانیت پے اکساتے ہو۔۔ورنہ انسان تو اشرف المخلوقات ہے۔۔تمہاری خود غرضی و بے حسی کی وجہ سے اچھا بھلا انسان بھی بدترین برا بن کے رہ جاتا ہے۔۔
تم اپنا پیٹ، اپنی جیب اور اپنی گردن بچانے کی خاطر دوسرے کا پیٹ پھاڑتے، اس کی جیب کاٹتے اور اس کی گردن مروا دیتے ہو۔۔۔خود کو برا نہیں کہتے پر دوسرے کو برا کہتے ہو۔۔
شاعر نے کیا خوب کہا کہ
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثے اچانک نہیں ہوا کرتے۔۔