السلام علیکم،میں ایک لکھاری ہوں ایسا لکھاری جو ہر موضوعات پے سوچتا اور لکھتا ہے۔

Tuesday, 2 April 2019

پردیس و پردیس

میں نے پردیس میں رہتی فیملیز اور بیچلرز کو Final Exit پے پاکستان جاتے دیکھا ہے اور کہتے سنا کہ جو بھی جیسا بھی ہے اپنا وطن اپنا تو ہے، کم سے کم اقامہ اور گورنمنٹ کے ٹیکس تو وہاں نہیں ہیں، کم سے کم کفیل اور ارباب جیسی جھنجھٹ تو اپنے وطن میں نہیں ہے، وہاں آزادی کے ساتھ بلا کسی روک ٹوک کے کہیں بھی کسی بھی شہر میں آؤ جاؤ، کام کرو، کاروبار کرو کوئی پریشانی نہیں ہے۔

پر چند مہینے یا ایک سے دو سال کے اندر انہی لوگوں سے سننے کو ملتا ہے کہ بھلے وہاں کفیل ارباب ہے،گورنمنٹ ٹیکس لیتی ہے،پر وہاں قانون تو ہے، امن و امان تو ہے، کم سے کم روزگار تھوڑا بہت ملتا تو ہے،کم سے کم وہاں پانی بجلی گیس کی سہولت ہر وقت میسر تو ہے اور اسی جیسی بیشمار باتیں سننے کو ملتی ہیں اور پھر فیملی والے فیملی کو پاکستان چھوڑ کر اور بیچلرز کہیں سے کچھ پیسے مانگ تانگ کر پھر پردیس سدھار جاتے ہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ 100 میں سے 20% پاکستانی ہونگے جو پردیس جانے کے بعد پاکستان میں آنے کے بعد Settle ہو جاتے ہیں اور پھر باقی زندگی پاکستان میں ہی گزارتے ہیں ورنہ 80% پاکستانی پردیس جا کر پاکستان لوٹنے پے وطن میں پریشان حال رہتے ہیں۔

کیونکہ پردیس جہاں قانون کی بالادستی ہے،جو بھی جیسا بھی قانون ہے کم سے کم ہمارے پاکستان کے قانون سے اچھا ہے اور اس پے تھوڑا یا زیادہ پر عمل ہوتا ہے، پھر وہاں آئے دن ہڑتالیں نہیں ہوتی، آئے دن گیس تو پانی بجلی کی لوڈ شیڈنگ نہیں ہوتی، قیمتیں ہر چند دنون بعد نہیں بڑھتی، صفائی ستھرائی کا اچھا نظام ہوتا ہے،بلدیہ اچھے سے کام کرتی ہے اور جب کوئی پردیسی ان ساری سہولیات کا عادی ہو جاتا ہے تو اسے پھر پاکستان میں زیادہ دیر تک چین اور سکون نہیں آتا، وہ چند مہینے یا ایک سے دو سال میں اکتا اور بیزار ہو جاتا ہے اور پھر سے پردیس جانے کے لیے پر تولتے رہتے ہیں۔

اپ اس پوسٹ سے کتنا اتفاق کرتے ہیں اور کون سی باتوں سے اتفاق نہیں کرتے ہیں.

No comments:

Post a Comment