السلام علیکم،میں ایک لکھاری ہوں ایسا لکھاری جو ہر موضوعات پے سوچتا اور لکھتا ہے۔

Saturday, 27 April 2019

کشتی اور انسان

انسان کی مثال کشتی جیسی اور دنیا کی مثال سمندر جیسی ہے، کشتی سمندر میں اسوقت تک صحیح سلامت رہتی ہے جبتک اسمیں پانی نہیں بھر جاتا اور انسان بھی اسوقت تک صحیح سلامت رہتا ہے جبتک اسمیں دنیا کے مال متاع کی حرس و حوس نہیں بھر جاتی۔

کشتی بنی ہی پانی میں رہنے کے لیے ہے،اسکی مقصد ہی پانی میں رہنا ہے اور پانی پے تیرتے ہی چلے جانا ہے،وہ کبھی ٹھہرتی،رکتی اور تھمتی نہیں ہے، مسلسل ایک جگہ سے دوسری جگہ تیرتی پھرتی ہے،اور سب سے بڑی اور اہم بات وہ یہ کہ کشتی خود ایک مسافر ہے جو ہر وقت سفر میں رہتی ہے اور پھر اس سے بھی بڑی اور اہم بات وہ یہ کہ کشتی ہزارہا ہزار مسافروں کو انکی منزل پے پہنچانے میں مدد کرتی ہے،پر اس سب کے بعد بھی کشتی کی اپنی کوئی منزل نہیں ہوتی یا یوں کہہ لیں کہ اسکی منزل دوسروں کو انکی منزل تک پہنچانا ہوتا ہے،وہ دوسروں کی ہی مدد کرتے ہوئے اپنی زندگی گزار دیتی ہے اور دوسروں کو انکی منزلوں پے پہنچانے میں ہی جتی رہتی ہے،کہنے کو ایک چھوٹی سی کشتی ہوتی ہے پر کتنے بڑے بڑے کام کرتی ہے،کتنا بڑا سبق اور مقصد اپنے لیے اندر لیے لیے تیرتی پھرتی ہے۔

اسی طرح انسان بھی اسی دنیا اور اسی جہاں کے لیے بنایا اور تخلیق کیا گیا ہے،انسان نے ایک خاص وقت مقررہ کے طور پے اس دنیا میں رہنا اور بسنا ہے،اسی دنیا میں ہی ساری کی ساری زندگی بیتانی اور گزارنی ہے،انسان کی زندگی بھی کشتی کے جیسے مسافر کی سی ہے،وہ بھی کسی ایک جگہ ٹھہرتا،رکتا اور تھمتا نہیں ہے، وہ بھی جگہ جگہ،گلی گلی کوچہ کوچہ،چپہ چپہ، شہر شہر ملکوں ملکوں چلتا اور سفر کرتا اور گھومتا پھرتا ہے،پر انسانوں کی اکثریت صرف اپنے ہی لیے جیتی ہے،انسان صرف اپنی یا پھر بہت زیادہ اپنوں کی ہی مدد کرتا ہے،انسان دوسروں کی زندگی چھین کر اپنی زندگی بناتا ہے،دوسروں کی منزل چھین کر اپنی منزل پے پہنچنا چاہتا ہے پر حضرت انسان کشی سے یہ نہیں سیکھتا کہ کشتی اسوقت تک صحیح سلامت رہ کر روانی اور پھرتی سے چلتی تیرتی رہتی ہے جبتک اس میں بوجھ کم سے کم ہوتا ہے پر جونہی بوجھ بڑھنے لگتا ہے کشتی ہچکولے کھاتی ڈگمگاتی ادھر اودھر ڈولنے اور ڈوبنے لگتی ہے۔

اس لیے انسان کو بھی چاہیے کہ کشتی کی طرح دوسروں کی مدد کرے، انکے کام آئے، انکے زندگی کے سفر میں انکا تھوڑا سا ہاتھ بٹا دے اور تھوڑا سا ساتھ دے دے، کسی گرتے پڑتے اور ڈوبتے کو تھوڑا سا سہارا دے دے، کسی بھولے بسرے اور بھٹکے ہوئے کو اسکی منزل پے جانے کا رستہ دکھا دے، گر ہو سکے تو اسے اسکی منزل تک پہنچا دے۔ ہاں یہی انسان ہے اسی کو ہی انسان کہتے ہیں اور اسی کو ہی انسانیت کہتے ہیں۔

وقاص

No comments:

Post a Comment