السلام علیکم،میں ایک لکھاری ہوں ایسا لکھاری جو ہر موضوعات پے سوچتا اور لکھتا ہے۔

Monday, 29 April 2019

دو قسم

معاشرے میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں پہلی قسم کے لوگوں کا ماننا ہے کہ کام کا ہو جانا،کام کے ڈھنگ سے ہونے سے زیادہ ضروری ہوتا ہے کہ کام ہو جائے ڈھنگ سے پھر ہوتا رہے گا اور دوسری قسم کے لوگ ہر کام ڈھنگ سے ہی کرنے کے خواہشمند ہوتے ہیں وہ اس وقت تک وہ کام کرتے ہی نہیں جب تک اسے ڈھنگ سے ادا کرنے کے قابل نا ہو جائیں پھر بھلے وہ کام بھلے دیر سے ہو یا بھلے ہو ہی نا پر جب بھی ہو گا ڈھنگ سے ہو گا ورنہ نہیں ہو گا۔

مثال کے طور پے کچھ لوگ بے جوڑ رشتوں میں جڑ جاتے ہیں اور پھر باقی ساری عمر بے ترتیبی و بے ڈھنگی سی زندگی گزار دیتے ہیں پر کچھ لوگ بھلے دیر سے نکاح کے رشتے میں جڑتے ہیں پر وہ ڈھنگ کے رشتے میں جڑ کر ایک رنگ ڈھنگ سے اچھی اور بہتر زندگی گزارتے ہیں

اسی طرح پہلی قسم کے لوگ کہتے ہیں کہ کچا پکا جیسا بھی گھر ہے بس بنا کر بیٹھ جاؤ بعد میں ڈھنگ سے بنتا رہے گا جبکہ دوسری کے لوگ کہتے ہیں کہ بھلے جتنی دیر لگے،جتنی مرضی وقت لگے پر گھر جب بھی بنانا ہی ایک ہی بار رنگ ڈھنگ سے اچگا اور بہترگھر بنائیں گے۔

اب آپ کونسی والی قسم سے پہلی یا دوسری؟

Saturday, 27 April 2019

پلٹنا

آپ جس کے پیچھے جتنا جاؤ گے وہ اتنا زیادہ آگے سے آگے دوڑتا ہی چلا جائے گا،پر آپ جتنا زیادہ پلٹتے جاؤ گے وہ بھی آپکی طرف واپس پلٹتا چلا آئے گا۔

کشتی اور انسان

انسان کی مثال کشتی جیسی اور دنیا کی مثال سمندر جیسی ہے، کشتی سمندر میں اسوقت تک صحیح سلامت رہتی ہے جبتک اسمیں پانی نہیں بھر جاتا اور انسان بھی اسوقت تک صحیح سلامت رہتا ہے جبتک اسمیں دنیا کے مال متاع کی حرس و حوس نہیں بھر جاتی۔

کشتی بنی ہی پانی میں رہنے کے لیے ہے،اسکی مقصد ہی پانی میں رہنا ہے اور پانی پے تیرتے ہی چلے جانا ہے،وہ کبھی ٹھہرتی،رکتی اور تھمتی نہیں ہے، مسلسل ایک جگہ سے دوسری جگہ تیرتی پھرتی ہے،اور سب سے بڑی اور اہم بات وہ یہ کہ کشتی خود ایک مسافر ہے جو ہر وقت سفر میں رہتی ہے اور پھر اس سے بھی بڑی اور اہم بات وہ یہ کہ کشتی ہزارہا ہزار مسافروں کو انکی منزل پے پہنچانے میں مدد کرتی ہے،پر اس سب کے بعد بھی کشتی کی اپنی کوئی منزل نہیں ہوتی یا یوں کہہ لیں کہ اسکی منزل دوسروں کو انکی منزل تک پہنچانا ہوتا ہے،وہ دوسروں کی ہی مدد کرتے ہوئے اپنی زندگی گزار دیتی ہے اور دوسروں کو انکی منزلوں پے پہنچانے میں ہی جتی رہتی ہے،کہنے کو ایک چھوٹی سی کشتی ہوتی ہے پر کتنے بڑے بڑے کام کرتی ہے،کتنا بڑا سبق اور مقصد اپنے لیے اندر لیے لیے تیرتی پھرتی ہے۔

اسی طرح انسان بھی اسی دنیا اور اسی جہاں کے لیے بنایا اور تخلیق کیا گیا ہے،انسان نے ایک خاص وقت مقررہ کے طور پے اس دنیا میں رہنا اور بسنا ہے،اسی دنیا میں ہی ساری کی ساری زندگی بیتانی اور گزارنی ہے،انسان کی زندگی بھی کشتی کے جیسے مسافر کی سی ہے،وہ بھی کسی ایک جگہ ٹھہرتا،رکتا اور تھمتا نہیں ہے، وہ بھی جگہ جگہ،گلی گلی کوچہ کوچہ،چپہ چپہ، شہر شہر ملکوں ملکوں چلتا اور سفر کرتا اور گھومتا پھرتا ہے،پر انسانوں کی اکثریت صرف اپنے ہی لیے جیتی ہے،انسان صرف اپنی یا پھر بہت زیادہ اپنوں کی ہی مدد کرتا ہے،انسان دوسروں کی زندگی چھین کر اپنی زندگی بناتا ہے،دوسروں کی منزل چھین کر اپنی منزل پے پہنچنا چاہتا ہے پر حضرت انسان کشی سے یہ نہیں سیکھتا کہ کشتی اسوقت تک صحیح سلامت رہ کر روانی اور پھرتی سے چلتی تیرتی رہتی ہے جبتک اس میں بوجھ کم سے کم ہوتا ہے پر جونہی بوجھ بڑھنے لگتا ہے کشتی ہچکولے کھاتی ڈگمگاتی ادھر اودھر ڈولنے اور ڈوبنے لگتی ہے۔

اس لیے انسان کو بھی چاہیے کہ کشتی کی طرح دوسروں کی مدد کرے، انکے کام آئے، انکے زندگی کے سفر میں انکا تھوڑا سا ہاتھ بٹا دے اور تھوڑا سا ساتھ دے دے، کسی گرتے پڑتے اور ڈوبتے کو تھوڑا سا سہارا دے دے، کسی بھولے بسرے اور بھٹکے ہوئے کو اسکی منزل پے جانے کا رستہ دکھا دے، گر ہو سکے تو اسے اسکی منزل تک پہنچا دے۔ ہاں یہی انسان ہے اسی کو ہی انسان کہتے ہیں اور اسی کو ہی انسانیت کہتے ہیں۔

وقاص

Sunday, 21 April 2019

حرام و حلال

حرام زندگی گزار کر حرام موت مرنے سے بہتر ہے کہ انسان حلال زندگی جینے کے لیے زبح ہو کر حلال ہو جائے۔

Saturday, 20 April 2019

ربّ رحمٰن

انسان،انسان کی کوئی ایک بات نا مانے تو انسان اس سے ہر نعمت روک اور چھین لیتا ہے پر انسان خالق و مالک کی ہزارہا باتیں نہیں مانتا پر وہ ربّ رحمٰن پھر بھی اپنی ہزارہا رحمتیں اپنے بندے پے نچھاور کرتا رہتا ہے،اسی کو خدا کہتے ہیں اور اسی کو ربّ رحمٰن کہتے ہیں۔

Thursday, 18 April 2019

حلال

حلال جانور طبعی موت مر جائے تو انسان کہتا ہے جانور حرام ہو گیا اور اگر اس کی گردن پے چھری پھیر کر زبح کر دیا جائے تو انسان کے کھانے کے لیے حلال ہو جاتا ہے اور مالک جانور کو حلال کرکے جیسے خوش ہوتا ہے ٹھیک اسی طرح جینے کے لیے انسان کو بھی زبح ہونا پڑتا ہے اسے بھی حلال ہونا پڑتا ہے تب کہیں جا کر خالق و مالک بندے سے راضی و خوش ہوتا ہے۔

دنیا و آخرت

دنیا کی زندگی میں کسی کو مارتے ہوئے مرنے والا آخرت میں بھی بار بار مرتا رہے گا اور کسی کی زندگی کو بچاتے ہوئے مرنے والا آخرت میں بھی بچ جائے گا۔

Wednesday, 17 April 2019

بھوک

یہ بھوک بھی بڑی گندی شے ہے،یہ کہیں کا نہیں چھوڑتی،پھر وہ بھوک بھلے پیٹ کی ہو،محبت کی ہو یا پھر نفس کی...یہ لگنے والے کو اور اپنے آپ کو مٹا کر ہی پیچھا چھوڑتی ہے۔

Monday, 15 April 2019

دربار

دربار پے ننگے سر، بے سروسامانی اور بے یار و مدد گاری کی حالت میں بیٹھی جھولی پھیلائے بیسیوں خواتین کے درمیان سے چادر اٹھائے ڈھول ڈھمکے کے ساتھ جوق در جوق درباری ٹولیوں کی ٹولیاں دربار پر دھڑا دھڑ چادر پے چادر چڑھاتے جا رہے تھے اور جوں کی توں بیٹھی بیسیوں خواتین جھولی پھیلائے ہر آنے اور چادر چڑھانے والے کو ٹِک ٹِکی باندھے دیکھے چلے جا رہی تھیں۔

فرق

والدین کے دو بیٹے ہیں اور ایک ہنس مکھ ملنسار،سب میں گھل مل کر رہنے والا،سب کو اپنی باتوں اور حرکتوں سے ہنسانے والا ہے اپنی ہر مشکل پریشانی والدین کو بتانے والا ہے،مختصر کہ وہ ایک نارمل انسان ہے جبکہ دوسرا چپ چاپ،خاموش،سنجیدہ،غصے والا،اور تنہائی پسند،خود سے کسی سے اسوقت تک بات نہیں کرتق جب تک کوئی اس سے بات نا کرے اور اپنی ہر مشکل پریشانی خود سے یا پھر خدا سے بیان کرتا ہے مختصر وہ ایک ابنارمل انسان ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیوں،کس وجہ اور کن وجوہات کی بنا پے دونوں کی طبیعتوں اور مزاج میں اتنا زیادہ فرق پیدا ہوا۔

آپ اگر ماہر نفسیات ہیں یا نفسیات سے کچھ لگاؤ،کچھ علم رکھتے ہیں تو آپ کو اس فرق کی بنیادی وجہ کیا سمجھ آتی ہے کہ آخر دونوں میں اتنا زیادہ فرق کیوں ہے؟

برصغیر و عرب ممالک

میں یورپ آسٹریلیہ یا امریکہ کی بات نہیں کرتا میں عرب ممالک کی بات کرتا جنمیں سر فہرست سعودیہ اور امارات آتا ہے کہ ان دونوں ممالک میں سونا،تیل اور کھجور کے باغات کے علاوہ کیا تھا، نا چار موسم،نا زرخیز مٹی، نا زیر زمین میٹھا پانی مگر حکمران اچھے تھے اپنی قوم کے لیے اچھے تھے اپنے ملک کے لیے اچھے تھے،عوام کے لیے درد رکھتے تھے اور آج سعودیہ اور امارات کی ترقی دیکھ لیں، انکی عوام قدرے بہتر زندگی جی رہی ہے اس کے ساتھ ساتھ عرب ممالک برسوں سے ایشیائی ممالک کے لاکھوں باشندوں کو روزگار فراہم کر کے انکے خاندانوں کے خاندان پال رہا ہے اور وہ اپنے ملک اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے آئے دن نئے نئے قانون اور سکیم متعارف کرواتے رہتے ہیں، اب یہ ایک الگ بحث ہے کہ وہاں کی مقامی عوام کتنی اور کس قابل ہے پر جب ملک کے حکمران کام کے ہوں نا تو ناکارہ اور بیکار عوام بھی بھوکی نہیں مرتی۔

اب آ جائیں برصغیر کی طرف جنمیں پاکستان،ہندوستان اور بنگلادیش سرفہرست ہیں،آج کے گریٹ برطانیہ نے برصغیر پے یہ کہہ کر قبضہ کیا تھا "کہ ہندوستان ایک سونے کی چڑیا ہے" برصغیر میں ربّ رحمٰن نے وہ وہ نعمتیں رکھی ہیں جو بعض عرب ممالک میں بھی نہیں ہیں،جیسے زرخیز مٹی،چاروں موسم،صاف شفاف میٹھا پانی،قدرتی وسائل سے بھی مالا مال ہے شائد ربّ رحمٰن نے برصغیر پے اپنا خاص رحم و کرم کیا اور برکت اس لیے بھی رکھی کیونکہ کل عالم کے باپ حضرت آدم علیہ السلام کو برصغیر میں اتارا اور آپ کا جسد مبارک بھی سری لنکا میں موجود ہے پر آج دیکھ لیں کہ برصغیر کی عوام کی حالت زار کیا ہے، برصغیر کی عوام بشمول پاکستانی بھوک و افلاس، بے ڈھنگی و بے ترتیبی اور کرپشن زدہ زندگی کو جینے پے مجبور ہیں جبکہ یہاں کی مقامی عوام اتنی قابل ہے کہ انہی عرب ممالک میں جا کر کارآمد بن جاتی ہے پر اپنے ممالک میں آ کر بیکار پرزہ بن کر رہ جاتی ہے،بات وہی آتی ہے کہ جب جس ملک کے حکمران بیکار و نااہل اور چور ڈاکو ہوں گے وہاں کی قابل عوام بھی بیکار و نااہل اور چور ڈاکو بن کے رہ جاتی ہے۔

اکثر سننے کو ملتا ہے کہ جیسی عوام ویسے حکمران پر میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا،میں کہتا ہوں حکمران انسان ہو تو عوام خود انسانیت پے چلتی ہے، پر جب حکمران ہی چور ڈاکو ہو گا تو عوام انسانیت نہیں حیوانیت پے چلتی ہے اور دیکھ لیں کہ آج کونسا ایسا غیر انسانی کام ہے جو برصغیر بشمول پاکستان کے وہاں نہیں ہو رہا ہے۔

Thursday, 11 April 2019

اپنائیت سے اپنا

ماں باپ ،بہن بھائی،رشتےدار و محلے دار،دوست احباب، عزیز و اقارب اور نجانے کون کون ہر وقت کوئی نا کوئی ہمارے آس پاس ہی تو ہوتا ہے پر ان سب میں پتا ہے ہم کس کے قریب ہوتے اور کس کو اپنے قریب کرتے ہیں، صرف اس کو جو ہمیں اور ہماری باتوں کو سمجھتا ہے، جو ہمارے جذبات و احساسات کی قدر کرتا ہے،ہاں،ہاں وہی۔۔وہی تو ہمارا اپنا ہوتا ہے جس سے ہمیں اپنائیت اور انسانیت ملتی ہے۔

Wednesday, 10 April 2019

پیمانہ مردانگی

چار دوستوں کے درمیان ٹی وی پے ریپ کے مناظر دیکھنے پے جو کوئی غصہ،ناپسندیدگی اور چہرے سے ناگواری کا اظہار کرے تو سمجھ لو کہ وہ حقیقی مرد ہے جو عورت کی عزت کرتا ہے اور جو کوئی ریپ کے مناظر دیکھنے پے دلچسپی و مستی،ہلہ گلہ، مسخرہ پن اور چہرے سے پسندیدگی کا اظہار کرے تو سمجھ لو وہ مرد کے روپ میں بھیڑیا ہے۔ 

Tuesday, 2 April 2019

پردیس و پردیس

میں نے پردیس میں رہتی فیملیز اور بیچلرز کو Final Exit پے پاکستان جاتے دیکھا ہے اور کہتے سنا کہ جو بھی جیسا بھی ہے اپنا وطن اپنا تو ہے، کم سے کم اقامہ اور گورنمنٹ کے ٹیکس تو وہاں نہیں ہیں، کم سے کم کفیل اور ارباب جیسی جھنجھٹ تو اپنے وطن میں نہیں ہے، وہاں آزادی کے ساتھ بلا کسی روک ٹوک کے کہیں بھی کسی بھی شہر میں آؤ جاؤ، کام کرو، کاروبار کرو کوئی پریشانی نہیں ہے۔

پر چند مہینے یا ایک سے دو سال کے اندر انہی لوگوں سے سننے کو ملتا ہے کہ بھلے وہاں کفیل ارباب ہے،گورنمنٹ ٹیکس لیتی ہے،پر وہاں قانون تو ہے، امن و امان تو ہے، کم سے کم روزگار تھوڑا بہت ملتا تو ہے،کم سے کم وہاں پانی بجلی گیس کی سہولت ہر وقت میسر تو ہے اور اسی جیسی بیشمار باتیں سننے کو ملتی ہیں اور پھر فیملی والے فیملی کو پاکستان چھوڑ کر اور بیچلرز کہیں سے کچھ پیسے مانگ تانگ کر پھر پردیس سدھار جاتے ہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ 100 میں سے 20% پاکستانی ہونگے جو پردیس جانے کے بعد پاکستان میں آنے کے بعد Settle ہو جاتے ہیں اور پھر باقی زندگی پاکستان میں ہی گزارتے ہیں ورنہ 80% پاکستانی پردیس جا کر پاکستان لوٹنے پے وطن میں پریشان حال رہتے ہیں۔

کیونکہ پردیس جہاں قانون کی بالادستی ہے،جو بھی جیسا بھی قانون ہے کم سے کم ہمارے پاکستان کے قانون سے اچھا ہے اور اس پے تھوڑا یا زیادہ پر عمل ہوتا ہے، پھر وہاں آئے دن ہڑتالیں نہیں ہوتی، آئے دن گیس تو پانی بجلی کی لوڈ شیڈنگ نہیں ہوتی، قیمتیں ہر چند دنون بعد نہیں بڑھتی، صفائی ستھرائی کا اچھا نظام ہوتا ہے،بلدیہ اچھے سے کام کرتی ہے اور جب کوئی پردیسی ان ساری سہولیات کا عادی ہو جاتا ہے تو اسے پھر پاکستان میں زیادہ دیر تک چین اور سکون نہیں آتا، وہ چند مہینے یا ایک سے دو سال میں اکتا اور بیزار ہو جاتا ہے اور پھر سے پردیس جانے کے لیے پر تولتے رہتے ہیں۔

اپ اس پوسٹ سے کتنا اتفاق کرتے ہیں اور کون سی باتوں سے اتفاق نہیں کرتے ہیں.

موسم حالات

موسم جب اچھا ہو تو کمرے میں لگا پنکھا بھی ٹھنڈی ہوا دیتا ہے اور جب موسم خراب ہو تو کمرے میں لگا اے سی بھی باز دفعہ گرم ہوا دینے لگتا ہے،اسی طرح حالات جب سازگار ہوں تو غیر بھی اپنے اور جب حالات ناساز ہوں تو اپنے بھی پرائے ہونے لگتے ہیں۔

Monday, 1 April 2019

محبت جیتی جاتی ہے

محبت جیتی جیتی جاتی ہے،دو قدم پیچھے ہٹ کر،سر جھکا کر،خاموش رہ کر اور دھیرے دھیرے سے دل میں اتر کر محبت جیتی جاتی ہے، مگر پتا نہیں وہ کون سے لوگ ہوتے ہیں جو محبت چھیننا چاہتے ہیں،چار قدم آگے بڑھ کر،سر کو تان کر،چیخ چلا اور دھونس دپٹ کر اور دل سے اتر کر بھی محبت کو چھیننا چاہتے ہیں،محبت عطا اور دین ہوتی ہے اور عطا اور دین ملا کرتی ہے نا کہ چھینی جاتی ہے۔