السلام علیکم،میں ایک لکھاری ہوں ایسا لکھاری جو ہر موضوعات پے سوچتا اور لکھتا ہے۔

Friday, 26 March 2021

جنگل ‏کا ‏بادشاہ

شیر کو سارے ہی جنگل کا بادشاہ کہتے ہیں۔۔پر پتا ہینا شیر کیسے موٹا تازا، ہٹا کٹا اور تگڑا و طاقتور بنتا ہے، کیونکہ وہ معصوم جانوروں کا شکار کرکے ان کا گوشت کھایا کرتا ہے اور اس طرح جنگل کا شیر بنا پھرتا ہے

اسی طرح انسانوں کی دنیا میں بھی نظر دوڑاؤ تو بہت سے جانی و مالی طور پے کھاتے پیتے ہٹے کٹے اور کاروباری تگڑے و طاقتور لوگ پتا ہے کیسے بنتے ہیں کہ وہ بھی معصوم لوگوں کا خون پی پی، چوس چوس اور نچوڑ نچوڑ کر انسانوں کی دنیا کے بے تاج بادشاہ بن بیٹھتے ہیں۔

Thursday, 25 March 2021

اردو ‏بول ‏چال ‏اور ‏لکھت ‏پڑھت

اردو بول چال اور لکھت پڑھت

مجھے آج بھی یاد ہے کہ جب میں چوتھی یا پانچویں کلاس میں تھا تو ٹیوشن والی باجی نے املاء لکھوائی جسے میں نے کچھ اس طرح لکھا

ہ م س ب م س ل م ا ن ہ ی ں۔۔اور باقی املاء بھی کچھ اسی انداز میں لکھی اور املا مکمل ہونے پے جب کاپی باجی کے پاس لے کر گیا تو باجی نے پہلے کان کھینچے، پھر پیمانے سے ہاتھوں کی میل کچیل کو صاف کیا اور پھر والدہ کو بلا کر والدہ کے سامنے میری عزت افزائی کروائی۔۔🙏😄۔۔۔کہ آپ کا بیٹا بہت ہونہار ہے۔۔اردو کی املا زرا دیکھیں۔۔۔ویسے کیا دن تھے وہ بھی۔۔😄

پھر Teenage کی دہلیز پے قدم رکھا اور وقت کے ساتھ ساتھ کچھ بہتری آتی گئی اور میں اپنی اصلاح کرتے کرتے چلتے پھرتے رکشہ، بسوں اور ویگنوں کے پیچھے لکھے گئے رومانوی شعروں کو یاد کر کر کے گھر میں کاپی پر آ کر لکھتا رہا گھر کا سودا سلف لینے جاتا تو دوکانوں کے بل بورڈ اور اور گلی محلے میں کپڑے کے لگے بینرز کو پڑھا کرتا اور پھر سوشل میڈیا کے ساتھ جڑنے پے سوشل میڈیا پے بھی گاہے بگاہے کسی نا کسی موضوع پے کچھ نا کچھ مختصر یا تفصیلی طور پے تحریر لکھتا رہا۔۔جو آج بھی جاری ہے۔۔

تو لکھنا لکھانے کا فائدہ یہ ہوا کہ خود بخود اردو بول چال اور لکھائی میں جہاں بہتری آئی، وہیں کچھ نئے الفاظ اور نئی باتیں سیکھی سمجھی اور جو الفاظ غلط لکھا کرتا تھا ان کی بھی اصلاح ہوتی رہی۔۔

میری اردو گرامر کوئی بہت اچھی نہیں ہے پر پھر بھی الحمداللہ میں کسی حد تک اچھے لفظوں کے چناؤ کے ساتھ اپنی بات یا اپنا مدعا لکھ لیتا ہوں۔۔جو پڑھنے والے کو بغیر کسی مشکل پریشانی کے آسانی سے سمجھ آ جاتا ہے۔۔۔

بات ساری لگن اور شوق کی ہوتی ہے، میرا خالہ زاد بھائی کہا کرتا تھا کہ انسان دو وجہ سے کسی کام کو سیکھتا اور پھر اس میں مہارت حاصل کر لیتا ہے، پہلا مجبوری اور دوسرا شوق۔۔اور پھر جس میں مجبوری اور شوق دونوں عوامل شامل ہو جائیں وہ انسان اس کام کا ماہر ہو جاتا ہے اور اس میں آئے روز کوئی نیا شاہکار تخلیق کرتا رہتا ہے۔۔

میرا بچپن ملتان میں اور کچھ سعودیہ میں گزرا تو سرائیکی خطے اور خاندان سے تعلق ہے، حالانکہ میری اردو الحمداللہ اچھی اور صاف ہے۔۔مجھ سے جب کوئی انجان بات کرتا ہے تو خود ہی پوچھ لیتا ہے آپ کراچی سے ہو۔۔پر پھر بھی مادری زبان سرائیکی ہونے کی وجہ سے اردو بول چال کے دوران کسی ایک آدھ لفظ میں سرائیکی لب و لہجے کی آمیزش آ ہی جاتی ہے۔۔اس پے بھی میں دھیان دیتا ہوں کہ اردو کو بہتر سے بہتر لب و لہجے کے ساتھ بولوں، اردو بول چال اور لکھت پڑھت میں اچھے، سلجھے ہوئے اور ادبی لفظوں اور جملوں کا استعمال کروں۔۔اور اسی طرح بولنے، لکھنے پڑھنے اور سیکھنے سمجھنے کا یہ سلسلہ ان شاءاللہ آخری سانس تک جاری و ساری رہے گا۔

چند سال پہلے اپنے دھدھیال گیا سگے چچا کے ہاں کچھ عرصہ رہا تو جب ان سے اردو میں مسلسل بات کرتا رہا تو انہوں نے تھوڑا تنگ ہوتے ہوئے اور چڑھ کر کہا " کھ تو ہر ویلے اردو بولی رکھنا، اپنڑی زبان سرائیکی بولیا کر، وڈا اردو مین آیا"😄۔۔میں نے کہا انکل اردو میں روانی ہے سرائیکی روانی سے نہیں بولی جاتی، اردو ہماری قومی زبان ہے اور انہیں اردو پے قائل کرنے کی اپنی سی کوشش کرتا رہا مگر وہ اپنی بات پے قائم رہے۔۔کہ اپنی زبان سرائیکی ہے تو وہی بولا کرو۔۔

اسی تحریر میں اوپر پہلے پیمانے کی جگہ پہلے فٹا لکھا پر سوچا کہ فٹا تو اردو گرامر کا لفظ نہیں ہے تو Google Translation پے جا کر Scale لکھا تو پیمانہ لکھا آ گیا فٹے کی جگہ پیمانہ لکھا دیا اور لکھت پڑھت میں پڑھت لفظ میں تھوڑی الجھن تھی کہ پڑھت ہوتا ہے یا پڑت ہوتا ہے تو پھر Google پے جا کر لکھت پڑت لکھا تو وہاں پڑت کی جگہ پڑھت لکھا آ رہا تھا اس طرح میں نے اپنی اصلاح کر لی۔۔آپ میں کسی بھی بات یا کام کو سیکھنے کا شوق اور جذبہ ہے تو آپ کہیں سے بھی کسی سے بھی اس بات یا کام کے بارے پوچھ کر اپنی اصلاح کر لو گے۔۔پر شرط یہ ہے کہ آپ میں سیکھنے کا جذبہ اور لگن ہونی چاہیے۔

خاص طور پے بیرون ممالک میں رہنے والے پاکستانی جب سالوں بعد پاکستان لوٹتے ہیں تو وہ چند سال پہلے جن لفظوں اور جن جملوں سے بات چیت کیا کرتے تھے وہی لفظ اور اور جملے جب دوسروں کے منہ سے سنتے ہیں تو انہیں اجنبیت سی محسوس ہوتی ہے۔۔ایسے ہی چند سال پہلے ایک دوست جو میرے ساتھ سعودی عرب میں رہتا تھا پوچھنے لگا یہ تعمیراتی کام کسے کہتے ہیں تو مجھے بھی کچھ بھولا ہوا تھا پر تھوڑا زہن پے زور ڈالا تو اسے بتایا Building Construction Line کو تعمیراتی کام کہا جاتا ہے۔

ہم پاکستانی دنیا کے کسی بھی ملک اور کسی بھی کونے میں رہیں پر ہمیں اپنی ثقافت، زبان اور اقدار کو فراموش نہیں کرنا چاہیے اور خود بھی اردو بولیں اور اپنی نسل کو بھی اپنی قومی زبان اردو سے روشناس کروائیں کہ ہماری آن شان اور پہچان ہماری پاکستانیت ہے۔

وقاص

Wednesday, 24 March 2021

دم ‏کافر

میں نے ارتگرل ڈرامہ بھی 56 قسط تک دیکھا مگر آجکل کچھ دنوں سے Yunus Emre دیکھنا شروع کیا ہے۔

اس کی اندر تیسری قسط میں ایک بے گناہ کو پھانسی کی سزا دی جاتی ہے پر پھانسی کی صبح چند لمحے پہلے اصل قاتل کو سامنے لا کے بے گناہ کی جان خلاصی کی جاتی ہے۔

یہاں سے مجھے یہ سیکھنے کو ملا کہ تم بھلے پاکباز،متقی و پرہیزگار، معصوم، بے گناہ اور بے عیب ہی کیوں نا ہو مگر ربّ رحمٰن تمہارے ایمان کو بار بار آزماتا رہے گا کہ میرے بندے میں جتنی بھی خوبیاں ہیں اس پے ثابت قدم اور قائم کب تک رہتا ہے۔۔اور اس کے ہر ہر امتحان اور آزمائش کی آخری حد دیکھ کر پھر اسے زلت یا عزت سے نوازتا ہے۔۔

مگر یاد رکھو کہ وہ مالک تمہاری آخری حد دیکھے گا، بس تم نے اچھائی سے بھاگنا نہیں ہے اور برائی سے جڑنا نہیں ہے۔۔اور ہمیشہ ثابت قدم رہنا ہے۔۔وہ اسماعیل علیہ السلام کے جیسے پہلے تمہاری ایڑیاں رگڑوائے گا اور پھر ہاں زم زم جیسے معجزے اور رحمتوں سے نوازے گا۔۔شرط صرف ایک ہی ہے کہ ثابت قدم رہنا ہے۔

yunus emre

میں نے ارتگرل ڈرامہ بھی 56 قسط تک دیکھا مگر آجکل کچھ دنوں سے Yunus Emre دیکھنا شروع کیا ہے۔

اس کی اندر تیسری قسط میں ایک بے گناہ کو پھانسی کی سزا دی جاتی ہے پر پھانسی کی صبح چند لمحے پہلے اصل قاتل کو سامنے لا کے بے گناہ کی جان خلاصی کی جاتی ہے۔

یہاں سے مجھے یہ سیکھنے کو ملا کہ تم بھلے پاکباز،متقی و پرہیزگار، معصوم، بے گناہ اور بے عیب ہی کیوں نا ہو مگر ربّ رحمٰن تمہارے ایمان کو بار بار آزماتا رہے گا کہ میرے بندے میں جتنی بھی خوبیاں ہیں اس پے ثابت قدم اور قائم کب تک رہتا ہے۔۔اور اس کے ہر ہر امتحان اور آزمائش کی آخری حد دیکھ کر پھر اسے زلت یا عزت سے نوازتا ہے۔۔

مگر یاد رکھو کہ وہ مالک تمہاری آخری حد دیکھے گا، بس تم نے اچھائی سے بھاگنا نہیں ہے اور برائی سے جڑنا نہیں ہے۔۔اور ہمیشہ ثابت قدم رہنا ہے۔۔وہ اسماعیل علیہ السلام کے جیسے پہلے تمہاری ایڑیاں رگڑوائے گا اور پھر ہاں زم زم جیسے معجزے اور رحمتوں سے نوازے گا۔۔شرط صرف ایک ہی ہے کہ ثابت قدم رہنا ہے۔

Tuesday, 23 March 2021

دنیا ‏کا ‏نظام

دماغ والے جا بجا مل جاتے ہیں پر دل والے کہیں مل کے نہیں دیتے۔۔دماغ والے دنیا والوں کے دل دماغ دونوں سے کھیلتے اور خوب فائدہ لیتے ہیں جبکہ دل والے فائدہ مفاد کو ہار کر صرف دلوں کو جیتنا چاہتے ہیں۔۔۔اور تمہیں پتا ہے۔۔خدا دماغ میں دلوں میں رہتا ہے۔۔۔دماغ والوں کی نہیں دل والوں کی کمی ہے۔

دل ‏دماغ

دماغ والے جا بجا مل جاتے ہیں پر دل والے کہیں مل کے نہیں دیتے۔۔دماغ والے دنیا والوں کے دل دماغ دونوں سے کھیلتے اور خوب فائدہ لیتے ہیں جبکہ دل والے فائدہ مفاد کو ہار کر صرف دلوں کو جیتنا چاہتے ہیں۔۔۔اور تمہیں پتا ہے۔۔خدا دماغ میں دلوں میں رہتا ہے۔۔۔دماغ والوں کی نہیں دل والوں کی کمی ہے۔

Sunday, 21 March 2021

ضروریات ‏زندگی ‏

ضروریات زندگی کی اشیا 

انسانیت کی سوچ رکھنے اور انسانیت کے ناتے انسانوں کی مدد کرنے والا انسان انسانوں کو ضروریات زندگی کی اشیا دینے سے آخر ہاتھ کیوں روک لیتا ہے؟ 

آپ کے ایک بار کے کہنے پے کسی نے آپ کو اپنی موٹر سائیکل یا کار استعمال کرنے کے لیے دے دی۔۔اب آپ نے اسے گدھوں کی طرح بے احتیاطی سے استعمال کیا اور اس میں جتنا پیٹرول تھا وہ بھی آپ نے سارا خرچ کر دیا اور شام کو موٹرسائیکل کار اس کے حوالے کر دی تو وہ آپ کو اگلی بار کسی حیلے بہانے سے اپنی سواری دینے سے انکار کر دے گا۔
 
آپ کا اخلاقی فرض ہے کہ آپ نے ضرورت کے وقت کسی سے اس کی سواری مانگی تو اسے بڑے احتیاط سے چلائیں، اس میں جتنا پیٹرول تھا اتنا پیٹرول اسے بھروا کر دیں اور سواری واپس کرتے وقت اسے اچھے سے کپڑے سے صاف ستھرا کرکے شکریے کے ساتھ واپس کریں۔۔جب آپ کا یہ طرز عمل ہو گا تو اگلی بار آپ جب سواری مانگیں گے وہ انسان ہنسی خوشی آپ کو اپنی سواری تھما دے گا۔ 

اسی طرح ضروریات زندگی کی کوئی بھی شے آپ کسی سے لیتے ہو تو اسے اچھے سے استعمال کرو اور اسے اسی حالت میں وہ شے واپس کرو جس حالت میں اس سے لی تھی۔ 

پر ہوتا کیا ہے کہ ہم لوگ کسی کی شے کو مالِ مفت اور دلِ بے رحم کے مصدق استعمال کرتے ہیں اور پھر الٹا اسی کے خلاف پراپگنڈا کرتے پھرتے ہیں کہ وہ تو بڑا بخیل ہے۔۔وہ تو کسی کے کام نہیں آتا، وہ تو خود غرض ہے وغیرہ وغیرہ۔

خود کو اپنی سوچ کو اپنے رویوں کو نہیں بدلنا پر کسی کے کسی شے پے انکار کرنے پے اسے برا بھلا ضرور کہنا ہے۔

Friday, 19 March 2021

مالک ‏و ‏ملازم

کاروبار میں نفع و گھاٹا و فائدہ

آپ نے کوئی چھوٹا و بڑا کاروبار شروع کیا، ضرورت کے مطابق چند ایک ملازم رکھے، اور کاروبار سے آپ نے ایک وقت تک خوب منافع کمایا اور اپنے گھر اور بینک کو خوب بھر دیا پر کچھ عرصے بعد کاروبار گھاٹے میں جانے لگا، آپ نے ملازموں کی تنخواہیں روکنا اور مارنا شروع کر دی اور کہا کہ کاروبار گھاٹے میں جا رہا ہے، اتنا اتنا خسارہ ہو گیا ہے، فلاں فلاں جگہ پے پیسے پھنس گئے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

مان لیا کہ آپ کو گھاٹا اور خسارہ ہو گیا ہے، آپ کو کاروبار میں جب فائدہ ہوا کیا اس فائدے میں ملازموں کو فائدہ دیا گیا تھا؟ اگر نہیں تو پھر آپ کے خسارے میں ملازم کیوں قربانی دے کر خسارا اٹھائیں؟ کاروبار میں فائدہ آپ اپنی جیب میں ڈالو پر جب خسارہ ہو تو ملازم پے ڈالو۔۔۔یہ کہاں کی انسانیت ہے؟

مان لیا آپ کو کاروبار میں گھاٹا ہو گیا ہے، تو کیا آپ کو ملازموں کی مہینوں کی تنخواہ ہڑپ کرنے کا موقع اور بہانہ مل جاتا ہے؟ نہیں ہرگز نہیں، آپ کو گھاٹا ملا ہے تو اصولی طور پے آپ کا فرض بنتا ہے کہ ملازموں سے کہیں کہ آپ ہمارا ساتھ دیں ہم آپ کا ساتھ دیں گے، جہاں آپ کے  20000 ہزار تنخواہ بنتی ہے وہاں آپ ابھی  10000 ہزار لے لیں اور ہم باقی بھی تھوڑے تھوڑے کر کے ان شاءاللہ جلد ادا کر دیں گے یہ ہے ایمانداری، یہ ہے انسانیت اور یہی ہے مسلمانیت کہ آپ کے بھلے حالات خراب ہو گئے ہیں مگر آپ بے ایمان نہیں ہوئے، آپ لوگوں کا حق کھانے اور مارنے والوں میں سے نہیں ہوئے اور آپ کی نیت خراب نہیں ہوئی کہ آپ پے ملازموں کے جو واجبات ہیں وہ آپ ادا کرنا چاہتے ہو تو ایسے میں ربّ رحمٰن بھی آپ کی نیک نیتی کی وجہ سے آپ کے گھر بار اور کاروبار میں خیر و برکت عطا فرماتا ہے۔

اب آپ کو کاروبار میں گھاٹا و خسارہ ہو گیا اور اس پے آپ نے یہ کہہ کر ملازموں کی تنخواہیں مار لی کہ جی گھاٹا ہو گیا ہے تو ہم آپ کو ایک آنہ بھی ادا نہیں کر سکتے، پر  اگر آپ کے پاس گھاٹے کے بعد بھی اپنا کاروبار اور گھر چلانے اور ملازم کو اس کی تنخواہ کا مناسب حصہ ادا کرنے کے لیے پیسے ہیں آپ کے ٹھاٹ باٹھ اسی طرح سے جاری و ساری ہیں اور آپ ملازم کو کچھ بھی ادا نہیں کرتے تو معذرت کے ساتھ یہ آپ کی بہت بڑی کمینگی اور بغیرتی ہے کہ آپ کے پاس کاروبار اور اپنا گھر چلانے کے لیے تو پیسے ہیں مگر ملازم کو دینے کے لیے کچھ نہیں، ایسی کھوٹی نیت رکھنے اور پھر اس پے عمل کرنے پے ربّ رحمٰن آپ کو بہت سی مشکلات، امراض یا کسی ناگہانی آفت و مصیبت سے دوچار کر دے گا جس میں آپ کا وہ پیسہ جو آپ نے ناحق کھایا تھا وہ سب اور اس بھی زیادہ نکل جائے گا اور آپ کو آپ کی کھوٹی نیت کا صلہ بخوبی مل جائے گا اور آپ کو لوگوں کی آہیں لے ڈوبے گی۔۔بھلے یہ سب فوراً نا بھی ہو پر یہ مت سوچیں کہ ایسا نہیں ہو گا۔۔بھلے دیر سے ہو پر ہو گا ضرور۔۔وہ کیا کہتے ہیں کہ خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔۔

یہ سنہ 2011 کی بات ہے کہ میں لاہور میں مزنگ چونگی پے زونگ کی فرنچائز کی طرف سے مکہ کالونی میں ہجویری یونیورسٹی کے باہر stall activity پے سمز سیل کیا کرتا تھا اور فرنچائز پے اور بھی کافی سارے D.S.O تھے جو Stall Activity کیا کرتے تھے

فرنچائز پے ایک غازی نام کا سپروائزر تھا جو تمام D.S.O کو Stall پے سیل کرنے کے لیے سمز دیا کرتا تھا وہ حافظِ قرآن تھا چہرے پے سنت کے مطابق داڑھی سجا رکھی تھی اور سر پے ٹوپی بھی پہنتا تھا، اکثر و اقات سفید رنگ کا کرتا و شلوار پہنتا اور پائنچے ٹنخوں سے اوپر رکھتا تھا، مطلب ظاہری حالت میں سچا پکا کھرا مسلمان تھا اور گاہے بگاہے تبلیغی اجتماعات پے بھی جایا کرتا تھا۔

فرنچائز کے مالک نے اسے کہا ہوا تھا کہ D.S.O کو ایک سم آپ نے 25 روپے میں دینی ہے اور وہ آگے 50 سے 70 یا 100 تک بھی بیچ سکتے ہیں اور یہی D.S.O کا کمیشن تھا، پر غازی صاحب ہر ایک کو ایک سم 35 سے لے کر 40 روپے میں دیتا تھا اور اس طرح وہ تمام D.S.O کے ساتھ نا انصافی اور بے ایمانی کر رہا تھا جس کا ہم سب کو دکھ اور افسوس بھی تھا مگر ہم لوگ اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے تھے کیونکہ وہ سپروائزر تھا سو مجبوری میں اس سے 35 سے 40 میں سم لے کر stall پے سیل کیا کرتے تھے۔

ایک دن اچانک ایک دوست کی کال آئی اور بولا وقاص تجھے پتا ہے سپر وائزر غازی صاحب کی بیٹی فوت ہو گئی ہے، میں نے کہا کب کیسے؟ تو وہ بولا آج صبح ان کی بیٹی فوت ہو گئی ہے اور غازی صاحب ایک ہفتہ فرنچائز نہیں آئیں گے۔

مجھے سن کر افسوس بھی ہوا اور ان کی بیٹی کے مغفرت اور انکے اہل خانہ کے لیے صبر کی دعا بھی کی۔۔پر جب سب دوست ملے تو ایک دوست نے بتایا کہ غازی صاحب کی بیٹی کی عمر 13 سال تھی۔۔بہت چھوٹی تھی پر پتا نہیں کیا ہوا کہ فوت ہو گئی، دیگر دوستوں نے لقمہ دیا " کہ بھائی جب آپ لوگوں کا حق ناحق کھاؤ گے تو پھر ایسا ہی ہو گا، آپ کسی کا حق کھا کر، کسی کی آہیں لے کر زیادہ دیر تک خوش باش اور عیش و آرام نہیں کر سکتے"۔۔۔

تو میں ان تمام کاروباری حضرات سے درخواست کرتا ہوں کہ کسی کی محنت کا پیسہ مت رکھیں، کسی کی آہیں اور بددعائیں مت لیں۔۔۔کاروبار میں نفع فائدہ گھاٹا خسارہ آتا ہی اسی لیے ہے کہ اللہ آپ کو آزما رہا ہوتا ہے کہ یہ ایسے میں میرے بندوں کے ساتھ کیا کرتا ہے آیا کہ ان کا حق ادا کرتا ہے ، ان کے ساتھ بھلائی اور بھائی چارے سے پیش آتا ہے یا پھر ان کا حق کھاتا ہے، ان کے ساتھ بد اخلاقی اور نا انصافی سے پیش آتا ہے۔۔اور بدقسمتی سے ایسے میں اکثر کاروباری حضرات فائدہ اپنی جیب میں جبکہ گھاٹا و خسارہ ملازم کی جیب پے ڈالتا ہے۔

انسان وہ ہے جس میں انسانیت ہے اور انسانیت یہ ہے کہ جو بات تم اپنے لیے بری سمجھتے ہو اس بری بات سے دوسروں کو بچاؤ اور جو بات اپنے لیے اچھی سمجھتے ہو وہی اچھی بات دوسروں کو دو۔

وقاص

Thursday, 18 March 2021

گرنا

اگر آپ کسی کے گر جانے پے اسے آگے بڑھ کر تھامنے اور سنبھالنے کی بجائے کھڑے ہو کے قہقے لگاتے ہیں تو آپ سے بڑا گرا ہوا انسان کوئی نہیں ہے۔

Wednesday, 17 March 2021

چور ‏چکاری

چور اور چوری چکاری

میں نے دبئی میں نوکری کی شروعات جس ریسٹورینٹ سے کی تھی اس ریسٹورینٹ پے مشکل سے تین دن کام کیا اور ایک کے بعد ایک واجبات کی ادائیگی کے لیے آنے والوں سے تنگ آ کے میں نے وہاں سے تین دن کے بعد ہی جان چھڑوا لی۔

مجھے وہاں Cashier + manager کی نوکری آفر ہوئی تھی، نوکری پے دوسرا دن تھا کہ میں کسی کام سے ساتھ والی دوکان میں گیا تو میری غیر موجودگی میں وہاں پے ایک ڈش واشر نے گلے یعنی کاؤنٹر میں سے لگ بھگ 40،50 درھم اٹھا لیے اور بھاگ گیا۔۔

خیر میں جب واپس آیا تو شیف نے بتایا کہ فلاں گلے میں سے اتنے پیسے اٹھا کے لے گیا۔۔خیر سے شام کو ارباب یعنی مالک آیا، کیمرے میں اس کی ریکارڈنگ دیکھی گئی، اور میں ارباب سے کہنے لگا کہ کیسا آدمی ہے کہ چوری کرتے شرم نا آئی، اس کی اتنی ہمت کیسے ہو گئی، کیسے اس نے یہ حرکت کر گزری۔۔۔اور ارباب مجھے کہنے لگا کہ میں اس کے ساتھ بہت اچھا ہوں، اس کو تنخواہ کے علاوہ بھی خرچا پانی دیتا رہتا ہوں، اور اس نے پھر بھی یہ حرکت کی ہے ۔میں نے کہا پولیس کو بلائیں اور اس کو مزا چھکائیں۔ارباب کہنے لگا نہیں پولیس کو بلا کے کیا فائدہ، اس نے مجھے نقصان دیا پر میں اسے نقصان نہیں دینا چاہتا، یہ سننے کی دیر تھی میں جھٹ سے بولا یہ تو آپ کا اپنا بڑا پن ہے ورنہ اس نے بڑی گھٹیا حرکت کی ہے۔۔اس کے بعد میں خود کلامی میں غصے میں بڑ بڑانے لگا کہ آیا کہ کیسا بغیرت انسان ہے، چوری کرتا ہے۔۔شرم نہیں آتی۔۔نجانے کیا کچھ اسے دل میں اور زبان سے کہہ ڈالا۔۔

پر ساتھ میں مجھے یہ بھی پتا لگ چکا تھا کہ ارباب صاحب اتنے ہی اچھے ہوتے تو کوئی بھی واجبات کی ادائیگی کے لیے نا آتا اور آ کے میرے ساتھ بدتمیزی سے پیش نا آتا، خیر کچھ اندازہ ہو گیا تھا کہ ایسا کیوں ہوا پر اصل وجہ جاننا چاہ رہا تھا پر بعد میں پتا چلا کہ جی ریسٹورینٹ کے مالک نے اس کی دو مہینے کی تنخواہ روک رکھی تھی۔۔تو مجھے ساری بات سمجھ آ گئی اصل کہانی کیا ہے۔

میں کسی چور کو چور، کسی زانی کو زانی یا کسی بھی قسم کی برائی کرنے والے کو برا سمجھنے کی بجائے اسے اس برائی میں دھکیلنے والے کو اصل برا سمجھتا ہوں۔۔

میری نظر میں چور وہ ہے جو بنیادی ضروریات زندگی کے ملنے کے باوجود بھی لالچ و حرص میں چوری چکاری کرے، زانی وہ ہے جس کی شادی ہو چکی ہو پر اس کے بعد بھی زنا سے باز نا آئے۔۔

ایسے ہی جیسے خود کشی کرنے والا مجرم نہیں ہوتا بلکہ خود کشی کے حالات پیدا کرنے والا اور خود کشی کی طرف دھکیلنے والے ہاتھ اور اس کے پیچھے لوگ اصل مجرم ہوتے ہیں۔

آپ کسی کو کام پے رکھ کر اس سے کام پے کام لیتے رہو اور اس کی اجرت اسے نا دو، نا وقت پے دو، اوپر سے جب بھی اجرت دو تو آدھی ادھوری اور کہو یہ خرچا پانی رکھو باقی بعد میں کرتے ہیں اس کا حق دبا کے بیٹھ جاؤ۔۔مجھے بتاؤ  وہ انسان کب تک انسانیت یا مسلمانیت پے قائم رہے گا۔۔۔آخر کب تک۔۔فرشتہ تو ہے نہیں وہ۔۔آخر وہ بھی انسان ہی ہینا۔۔۔

انسان معصوم، پاک، شریف پیدا ہوتا ہے پر یہ دنیا اسے خطاکار، بدکار ناپاک اور بدمعاش بنا دیتی ہے۔۔پھر کہتے ہیں کہ چور ہے، زانی ہے، پانی ہے، بدکار و خطاکار ہے، ایسا ہے ویسا ہے، یہ ہے وہ ہے۔۔او بھائی یہ بتاؤ تم خود کیا ہو۔۔تم خود لوگوں کے ساتھ کیا کر رہے ہو۔۔

تم لوگ ہی تو اپنی حرکتوں سے انسان کو حیوانیت اور شیطانیت پے اکساتے ہو۔۔ورنہ انسان تو اشرف المخلوقات ہے۔۔تمہاری خود غرضی و بے حسی کی وجہ سے اچھا بھلا انسان بھی بدترین برا بن کے رہ جاتا ہے۔۔

تم اپنا پیٹ، اپنی جیب اور اپنی گردن بچانے کی خاطر دوسرے کا پیٹ پھاڑتے، اس کی جیب کاٹتے اور اس کی گردن مروا دیتے ہو۔۔۔خود کو برا نہیں کہتے پر دوسرے کو برا کہتے ہو۔۔

شاعر نے کیا خوب کہا کہ

وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثے اچانک نہیں ہوا کرتے۔۔

Wednesday, 10 March 2021

خوش ‏قسمت ‏اولاد

وہ بڑی خوش قسمت اولاد ہوتی ہے جسے سمجھدار اور باشعور والدین عطا ہو جائیں۔۔انکی زندگی سدھر اور سنور جاتی ہے۔۔ورنہ سدھری اور سنوری ہوئی اولاد بھی بگڑ جایا کرتی ہے۔

Saturday, 6 March 2021

pet

میرے خیال میں انسان کو ایک آدھ پالتو جانور یا پرندہ پالنا چاہیے۔۔کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی بلی کو پیار کیا کرتے تھے اور فرمایا کہ بلی کو مارنا ہو تو روئی کپاس کے گولوں سے مارا کرو۔۔

کیونکہ انسان جب انسانوں کی باتوں، رویوں اور حالات و واقعات سے دلبرداشتہ ہوتا ہے تو ایسے میں یہ بے ضرر پالتو جانور آپ کے بڑے غمخوار بنتے ہیں۔۔آپ اداس ہوں تو یہ بھی اداس ہو جاتے ہیں اور آپ اگر خوش ہوں تو یہ بھی آپ کی خوشی میں بھرپور شامل ہوتے ہیں، ان سے انسان دلجوئی کرے تو یہ آپ کی دلجوئی کرتے ہیں اور ان کی سب سے بڑی بات اور خوبی وہ یہ ہے کہ یہ بیوفائی نہیں کرتے، آپ کو دھوکہ و دغا نہیں دیتے اور زندگی کے ہر موڑ پے آپ کے ساتھ ساتھ رہتے ہیں آپ سے وفا کرتے ہیں اور جان قربان کرنے کا موقع ملے تو جان قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے ہیں۔

پالتو جانور یا پرندے بڑے حساس ہوتے ہیں آپ سے اپنی محبت اور وفا کے گاہے بگاہے اظہار کرتے رہتے ہیں۔۔اور آپ کو کبھی بھی اکیلا، تنہا یا بور نہیں ہونے دیتے۔۔اور آپ کی ایک آواز پے ہر وقت آپ کے آس پاس منڈلاتے رہتے ہیں

میرا بڑا دل کرتا ہے کہ میں کسی Pet کو پالوں اور اس کے ساتھ اپنا وقت گزاروں۔۔کم سے کم وہ مجھے جج تو نہیں کرے گا۔۔کم سے کم وہ مجھے نا سمجھتے ہوئے برا بھلا تو نہیں کہے گا۔۔اور کم سے کم کسی مشکل پریشانی کے عالم میں میرا ساتھ تو نہیں چھوڑے گا۔۔

Friday, 5 March 2021

لوگ ‏کیا ‏کہیں ‏گے

کوئی ایسا کام جسے کرنا چاہتے تھے، ایسا شوق جسے پورا کرنا چاہتے تھے یا ایسا شعبہ جس میں جانا چاہتے تھے۔۔۔پر صرف یہ سوچ کے رک گئے اور اسے آج تک پورا نا کر سکے ہوں صرف اس وجہ سے کہ

"لوگ کیا کہیں گے"۔۔۔

بدترین ‏مخلوق

ایک جانوروں کا جنگل ہے اور ایک انسانوں کا جنگل ہے، جانوروں کے جنگل میں جانے سے آپ محتاط ہو کے رہتے ہو اور کسی جانور کے حملہ کرنے پے اس کے حملے سے خود کو بچا لیتے ہو۔۔مگر۔۔انسانوں کے جنگل آپ بے فکرے ہو کے رہتے ہو کہ سب میرے جیسے انسان ہیں اور آپ کی اسی غلط فہمی کی وجہ سے کوئی انسانی جانور آپ پے حملہ کرکے آپ کی زندگی کو تباہ و بربار کرکے رکھ دیتا ہے

جیسے جانوروں کے جنگل میں محتاط ہو کے جاتے ہو اسی طرح انسانوں کے جنگل میں اس سے زیادہ محتاط ہو کے رہو۔۔کیونکہ انسان اپنی انسانیت پے قائم رہے تو اس سے پیاری اور خوبصورت مخلوق کوئی نہیں ہے۔۔پر یہی انسان اپنی حیوانیت و شیطانیت پے اتر آئے تو اس سے بدترین مخلوق کوئی نہیں ہے۔