ہوتے ہیں کچھ میرے جیسے بھی جو دوسروں کو راستہ دیتے دیتے خود راستے میں ہی رکے اور کھڑے کے کھڑے ہی رہ جاتے ہیں اس آس و امید پے کہ شائد کوئی رک کر مجھے بھی راستہ دے گا مگر دنیا چلتی بڑھتی بھاگتی دوڑتی زندگی کی دوڑ میں کہاں سے کہاں پہنچ جاتی ہے اور ہم لوگ دوسروں کا احساس و خیال کرتے ہوئے وہیں کے وہیں راستے میں کھڑے کے کھڑے ہی رہ جاتے ہیں اور آخر میں ناکام و خالی ہاتھ کھڑے خود کو اور دنیا کو خالی نظروں سے تکتے رہ جاتے ہیں۔۔
No comments:
Post a Comment