ربّ کا فرمان "اور بیشک دنیا کی زندگی تھکا دینے والی ہے" کو سوچ کے میرے زہن میں منفی سوچ ابھری اور سوچوں میں ہی ربّ سے سوال جواب شروع ہو گئے۔۔کہ مالک تو نے بندے کو تھکانے کے لیے دنیا میں بھیجا تھا؟ تو بندے کو آخر کیوں تھکانا چاہتا ہے؟ بندے کو تھکا کر آخر تجھے کیا مل جاتا ہے..وغیرہ وغیرہ۔۔
اور پھر مثبت سوچ بھی ابھری اس نے منفی سوچ اور منفی سوالوں کا جواب دینا شروع کیا۔۔۔کہ بندے کو ہر سکھ و آسائش گر دے دی جائے تو ہر انسان فرعون بن جائے اور فرعون کے جیسے انسان خدائی کا دعوے دار بن بیٹھے، ہر خوشی دے دی جائے تو انسان خدا کی زات کو یکسر طور پے ہی فراموش کر دے، ابھی تو زندگی کو تھکا دینے والا بنایا ہے تو بھی انسان اپنی جسمانی و زہنی تھکان اتارنے اور پرسکون ہونے کے لیے نا تو میرے پاس میرے در پے آتا ہے اور ناہی مجھے پکارتا ہے، ہاں بھاگ بھاگ بس دنیا والوں کے پاس جاتا ہے، انہی سے ہی سوال کرتا ہے۔۔اور میں اس کے انتظار میں رہتا ہوں کہ میرا بندہ میرے در پے کب آئے گا، مجھ سے ملاقات کا شرف کب حاصل کرے گا۔۔ہاں اسی لیے میں نے دنیا کو تھکا دینے والا بنایا تاکہ میرا بندہ میرے در پے آئے، مجھ سے ملے، مجھ سے جڑ جائے اور مجھ سے سوال کرے، مجھے پکارے۔۔اور میں اس کی پکار سنوں، اس کی منتوں مرادوں کو پورا کروں، اس کی مشکلوں پریشانیوں کو آسان کروں۔۔مگر انسان میرا ہو کے بھی میرا نہیں بنتا۔۔۔ہاں اسی لیے میں اسے اور زیادہ تھکاتا ہوں کہ کبھی تو تھک ہار کر اور ٹوٹ بکھر کر مجھ سے ہم کلام ہو گا۔۔۔
No comments:
Post a Comment