السلام علیکم،میں ایک لکھاری ہوں ایسا لکھاری جو ہر موضوعات پے سوچتا اور لکھتا ہے۔

Saturday, 10 October 2020

منحوس

ایک خاتون کا انٹریو دیکھا جس میں خاتون کا کہنا تھا " کہ لوگ مجھے منحوس کہتے ہیں اس لیے کیونکہ میں طلاق یافتہ ہوں"

اور مجھے اپنے معاشرے کی زہنی پستی پے افسوس ہوا۔۔کہ طلاق یافتہ صرف عورت ہی ہوتی ہے کیا؟ مرد طلاق یافتہ نہیں کہلایا جائے گا؟..اور اگر طلاق یافتہ عورت منحوس ہے تو جس نے اس عورت کو طلاق دے کے اسے منحوس بنایا تو وہ کونسا خوش بخت ہے۔۔وہ بھی تو بدبخت ہوا نا۔۔۔؟ بدبخت ہوا کہ نہیں ہوا۔۔۔!

سو میں سے 10 دس فیصد یا بہت زیادہ کہہ لو تو بیس 20 فیصد ایسے کیسز ہونگے جن میں طلاق کی وجہ عورت خود ہوتی ہے یا اسکی کچھ چند باتیں ایسی ہوتی ہیں مگر اسی 80 فیصد طلاق کی وجہ مرد خود ہوتے ہیں ان کے اندر زیادہ سے زیادہ عورتوں کو پانے اور انہیں حاصل کرنے کی جو چاہ اور خواہش ہے اسکی وجہ سے مرد دوسری عورت کی خاطر پہلی اور تیسری کی خاطر دوسری اور چوتھی کی خاطر تیسری عورت کو مختلف حیلے بہانے اور تاویلیں گھڑ گھڑ کے طلاق پے طلاق دیتا رہتا ہے یہ سوچے سمجھے بنا کہ اپنی خواہش کی خاطر کسی ایک عورت کسی ایک خاندان بھر کی ہنستی بستی زندگی کو جیتے جی اجاڑنے جا رہا ہے۔۔لڑکی کو طلاق دے کر طلاق یافتہ اور اسکے خاندان بھر کو ایک بدنما داغ دینے جا رہا ہے کہ جی انکی بیٹی میں نجانے کیا عیب تھا جو طلاق لے کے بیٹھی ہے جبکہ اس میں بیچاری لڑکی یا اسکے خاندان بھر کا کیا قصور کہ لڑکی کے شوہر نے اور ان کے داماد نے طلاق دے دی ہے۔۔

اسی طرح کسی لڑکی کا شوہر وفات پا جائے تو لڑکی کو منحوس اور بدبخت کہا جاتا ہے۔۔مگر لڑکے کی بیوی وفات پا جائے تو لڑکے کو منحوس یا بدبخت کہنے کی بجائے لڑکے کی فوری طور پے شادی کا بندوبست کیا جاتا ہے تاکہ اس کی انسانی اور شہوانی ضرورت کو جائز اور حلال طریقے سے پورا کیا جائے۔۔ جبکہ اس کے برعکس لڑکی بیوہ ہو جائے تو اسے معاشرے میں سٹور میں رکھے کسی فالتو شے کی طرح استعمال کیا جاتا رہتا ہے، نا اس کی دلجوئی کی جاتی ہے اور نا ہی اسکی انسانی ضرورت اور شہوانی خواہشات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کے نکاح کا فوری طور پے بندوبست کیا جاتا ہے ۔۔

ہمارے معاشرے کے اسی دوہرے معیار کی وجہ سے ہی عورت ایسی گھٹیا اور فرسودہ رسموں اور باتوں کی وجہ سے باز دفعہ خود سر اور بے حیا ہو کے جینے لگتی ہے کہ جب میں ہوں ہی منحوس، بدبخت اور بری تو پھر لو دنیا والوں اب میں تمہیں بری بن کے کیوں نا دکھاؤں۔۔جو جو برے القاب اور لقب تم نے مجھے دیے ان پے آؤ تمہیں عمل کرکے دکھاؤں۔۔

اور پھر وہی دنیا کہتی نظر آتی ہے ہائے کیسی بے شرم اور بے حیا عورت ہے اس میں تو شرم و حیا نام کی کوئی شے ہی نہیں ہے، ہائے یہ تو بڑی منہ پھٹ اور بڑی ہی خود سر ہے۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔

زندگی موت ربّ سوہنے کے ہاتھ میں ہے جب جسے چاہے موت میں سے زندگی عطا فرما دے اور جب جسے چاہے زندگی میں سے موت دے دے۔۔

پتا ہے اس دنیا کا سارا امتحان اور آزمائش ہی اسی میں ہے کہ میرا کون سا بندہ میرے کون سے بندے کو مارتا اور کاٹتا پیٹتا ہے اور میرا کون سا بندہ میرے کون سے بندے کو جوڑتا اور سینچتا ہے۔۔

بات صرف اتنی سی ہے کہ جب مرد عورت سے چاہتا ہے کہ وہ مجھے میرے پورے پورے حقوق دے تو پھر وہی مرد عورت کو اس کے پورے پورے حقوق دینے سے کیوں کنی کتراتا اور بے حس اور بے غیرت بن کے اس کے حقوق غصب کرتا رہتا ہے۔۔۔

زرا نہیں! سارا سوچو!

وقاص

No comments:

Post a Comment