اس دنیا کا سارا امتحان اور آزمائش ہی اسی بات میں رکھا گیا ہے کہ میرا کون سا بندہ میرے کون سے بندے کو نا حق مارتا اور کاٹتا پیٹتا ہے اور میرا کون سا بندہ میرے کون سے بندے کو جوڑتا، سینچتا اور سنوارتا ہے۔
السلام علیکم اس بلاگ میں آپ کو ہر وہ بات ملے گی جسمیں انسانوں کے لیے انسانیت کا میسج ہو گا ایسا میسج جو آپ کو کچھ سوچنے،سمجھنے اور پرکھنے پے مجبور کرے گا۔ تو خود بھی جوائن کریں اعر دوست احباب کو بھی Invite کریں۔ شکریہ۔ وقاص
السلام علیکم،میں ایک لکھاری ہوں ایسا لکھاری جو ہر موضوعات پے سوچتا اور لکھتا ہے۔
Thursday, 22 October 2020
بے ادب
ہمارے معاشرے میں والدین بچوں کو شروع سے ہی یہی سیکھاتے ہیں بیٹا ادب کرنا سیکھو اور ادب کے نام پے پھر آگے سے کہتے ہیں کہ اپنے سے بڑوں کو جواب نہیں دیتے اور اسی جواب نا دینے والی بات کی وجہ سے بچے کے ساتھ گھر، محلے یا معاشرے میں گر کوئی ظلم و ناانصافی ہوتی ہے تو اس کے اندر اس ظلم و زیادتی اور ناانصافی کا مقابلہ کرنے کی سکت اور قوت ہی سرے سے نہیں ہوتی۔۔وہ کسی کو اس کے ظلم و ناانصافی پے جواب تک نہیں دے پاتا جس کی وجہ سے وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ خود میں گھلتا اور گھٹتا رہتا ہے اور ایک دن وہ خود کشی جیسے زلت اور تکلیف دہ انجام تک جا پہنچتا ہے، اس لیے اپنی اولاد کو بڑوں کے ادب کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتائیں اور سیکھائیں کہ بیٹا اپنے ساتھ ہوئے ظلم و زیادتی اور ناانصافی پے تمہیں خاموش نہیں رہنا یا چپ نہیں سادھنی بلکہ جواب دینا اور لڑنا ہے۔۔تاکہ وہ معاشرے کے بروں لوگوں کے برے رویوں اور برائی کا ڈٹ کے مقابلہ کر سکیں ناکہ ادب کے چکر میں اپنی عزت نفس کا گلا گھوٹتے گھوٹتے ایک دن سچ مچ میں اپنا گلا گھونٹ لیں۔
Wednesday, 14 October 2020
کشادہ رزق اور چار نکاح
کشادگیِ رزق اور واقعہ چار نکاح۔۔۔
ہم لوگ صرف باتیں کرنے کی حد تک اسلام پے چلتے ہیں جیسا کہ کوئی کہہ دے کہ میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے، گھر بار،نوکری کاروبار تو ہم میں سے ہر دوسرا بندہ اس انسان کو ایک کے بعد ایک نکاح کرنے والے صحابی کے واقع کی مثال دیتے تھکتے نہیں کہ ایک صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے رزق کی تنگی کی بات کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان صحابی کو ایک کے بعد ایک نکاح کرنے کی ترغیب دی اور اسطرح وہ چوتھے نکاح کے بعد خوشحال ہو گیا۔۔
مگر کوئی مائی کا لعل آگے نہیں آئے گا یا مائی کی لعلیاں آگے نہیں آئیں گی اور کہیں گے کہ جی میں اس واقعے کو صرف باتوں سے نہیں بلکہ عملی طور پے سچ ثابت کرکے بتاتا ہوں کہ میرے گھر میں میری بہن بیٹی ہے آؤ تمہارا نکاح اس سے کرا دیتا ہوں اور اگر پھر بھی رزق کشادہ نا ہوا تو میں خود آپ کا دوسرا نکاح کرا دوں گا یا کوئی مائی کی لعلی آگے نہیں آئے گی کہ جی میں آپ سے نکاح کرتی ہوں اور اگر پھر بھی ہماری تنگدستی ختم نا ہوئی تو میں خود آپ کا دوسرا نکاح کرواؤں گی۔۔
باتیں کرنے میں کیا جاتا ہی کیا ہے۔۔اور کیا خرچ کیا ہوتا ہے جتنی مرضی چاہے کر لو اور کرا لو۔۔۔ پھر بھلے وہ دنیا کی اچھی باتیں ہوں یا چاہے دین کی باتیں ہوں۔۔باتیں ہی تو کرنی ہینا تو کرتے جاؤ بس۔۔۔مجھے یہ بتایا جائے جن باتوں کا آپ کو علم ہے اس پے پے عمل کتنا ہے آخر۔۔۔؟؟؟
میرے جیسا بے گھر، بے روزگار، بے آسرا و بے سہارا اور اللہ وارث بندہ جب کہیں کسی بھی محفل میں رزق کی تنگدستی کی بات کر بیٹھے اور آگے سے کوئی اسے ان صحابی کا واقع اور دین کی دیگر اچھی باتیں دوہرا دے۔۔ تو ایسے میں وہ بندہ اسے کہے کہ اللہ کے بندے/ بندی اتنا کچھ جانتے ہو مجھے بتا بھی رہے/رہی ہو تو پھر خود سے بسم اللہ کیوں نہیں کرتے/کرتی۔۔آؤ نیکی کماؤ اور احسان کرو کہ میرا نکاح کراؤ اور اس وقت تک نکاح پے نکاح کروانے میں مدد کرنی ہے جبتک میری تنگدستی آسودگی میں نہیں بدل جاتی۔۔۔ٹھیک اسی طرح جس طرح سے ان صحابی کا واقع بیان کیا ہے آپ نے۔۔۔اور اس طرح اپنا اور میرا ایمان مضبوط کرو اور معاشرے میں ایک اچھی اور بہترین مثال قائم کرنے میں میرا ساتھ دو۔۔۔
کیا تمہیں اللہ اور اللہ کے رسول کی باتوں پے یقین نہیں ہے یا تم ایمان نہیں رکھتے ہو۔۔یا پھر تم اللہ و رسول کی باتوں کو صرف باتوں کی حد تک کرنے والے ہو اور جب تم نے چار نکاح سے رزق کے کشادہ ہونے کی بات کر ہی دی ہے اور تمہارا اس بات پے ایمان کامل بھی ہے تو پھر خود آگے بڑھو۔۔خود سے ابتدا اور شروعات کرو۔۔اور اگر تم خود سے ابتدا نہیں کر سکتے تو پھر کس بنیاد پے تم نے کشادگیِ رزق کے لیے چار نکاح والے واقع کو سنایا۔۔۔؟؟؟
میں کہتا ہوں وہی بندہ اور بندی جس نے آپ کو چار نکاح کرنے سے آسودگی پانے والے صحابی کا واقع سنایا ہو گا اس کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا سانس نیچے اٹک کے رہ جائے گا اور وہ بندہ بندی تھوکیں نگلتے رہے گے کہ یا اللہ یہ کیا کہہ بیٹھے اور کہاں پھنس گئے۔۔اور شرط لگا لیں وہ انسان اس دن کے بعد سے چار نکاح کرنے سے آسودگی پانے والے صحابہ کے واقع کو بھول کے بھی کسی میرے جیسے حال و بے حال اور بدحال " اللہ وارث " کے سامنے کبھی بھی نہیں دوہرائے گا۔۔۔
میں اسی لیے کہتا ہوں خدارا۔۔ کہ مجھے دین یا احادیث سے مثالیں مت دیا کریں۔۔۔ وہ وقت وہ دور وہ لوگ، وہ معاشرہ اور اس وقت کے مسلمانوں کا ایمان کچھ اور تھا ان جیسا پہلے ایمان لاؤ اور پھر مجھے ان عظیم انسانوں اور مسلمانوں کی مثالیں دینا اور اگر دینی ہیں تو موجودہ حالات اور موجودہ صورتحال کے مطابق مثالیں دیں کہ جس معاشرے میں میرے جیسے اللہ وارث بندے کا ایک نکاح نہیں ہوتا آپ اسے ایک کے بعد ایک نکاح کرنے والے صحابی کی مثال دیتے ہیں پر اس مثال پے خود عمل نہیں کرنا چاہتے۔۔۔کہ آئیں پھر آگے بڑھیں۔۔ اور پھر نکاح کروائیں۔۔۔اور ایک معاشی بدحال مسلمان کے حال کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔۔اور صحیح معنوں میں اللہ و رسول کے حکم کو بجا لائیں۔۔
آپ کسی سے اگر کہو کہ میرا رزق تنگ ہے تو کہیں گے تم گنہگار ہو، تمہارا ایمان کمزور ہے،تم پے آزمائش ہے۔۔تمہارا امتحان لیا جا رہا ہے۔۔او بھائی میرا اکیلے کا امتحان اور آزمائش ہے یا آپ سب کا بھی امتحان اور آزمائش ہے۔۔۔؟ اور پھر یہ کہنا کہ کیا تمہیں اللہ اور اللہ کے رسول کی باتوں پے یقین نہیں ہے۔۔۔ او بھائی چلو مان لیا میرا ایمان کمزور ہے، آپ کا ایمان تو پکا اور پختہ ہینا۔۔۔ تو آپ میرے ایمان کو اپنے عمل سے پکا اور پختہ کیوں نہیں کرتے ہو۔۔۔نہیں وہ بات نا کرو۔۔۔کیونکہ اس میں تو کسی کے لیے گھر سے نکلنا اور چلنا پڑتا ہے، محنت، مشقت اور بھاگ دوڑ کرنا پڑتی ہے، جیب سے کچھ خرچ کرنا پڑتا ہے، گھر کی بہن بیٹی کو نکاح کے لیے پیش کرنا پڑتا ہے۔۔۔وہ تو بہت مشکل اور اوکھا کام ہے جی۔۔۔ہاں بس اللہ و رسول کی باتیں ڈھیروں ڈھیر اور ڈھیروں ڈھیر کرتے جاؤ اور جتنی مرضی چاہے کروا لو۔۔۔اور بس باتیں کرتے جاؤ۔۔۔انبار لگا دو باتوں کا۔۔اور انہی باتوں سے کام چلاتے رہو۔۔۔کیونکہ باتیں کرنے میں بھلا کونسی محنت مشقت یا پھر خرچ کرنا پڑتا ہے۔۔ہاں زبانی کلامی جمع خرچ ہی تو کرنا پڑتا ہے۔۔۔سو کرتے رہو۔۔۔
ہمیں تو بس اپنے اور اپنے خاندان کے لیے جینا ہے، اسی لیے تو دنیا میں بھیجے گئے ہیں کہ اپنی زات اور خاندان کے لیے سب کچھ اور سارا وقت ہے اور گر جو کوئی دوسرا مسلمان کسی حوالے سے کچھ سوال کرے تو اسے عالم فاضل مفتی بنتے ہوئے۔۔او لمبا چوڑا دینی لیکچر جھاڑ دو اور اپنا فرض پورا کر دو۔۔۔اللہ اللہ خیری صلہ۔۔۔
دین کی بڑی بڑی کتابوں میں بڑے زوق و شوق سے انصار و مہاجرین کی مثالیں پڑھنے کو ملتی ہیں کہ جی انصاریوں نے اپنا گھر بار، کاروبار اور ایک سے زائد بیوی کو طلاق دے کے اپنے مہاجرین بھائی کو گھر بار، کام کاج اور نکاح کے لیے بیوی تک دے دی تھی۔۔انہوں نے ہی صحیح معنوں میں اپنے مسلمان ہونے کا پورا پورا حق ادا کیا تھا۔۔پر آج کے دور میں جب آپ کسی سے کہو کہ میں مہاجرین جیسا ہوں آپ انصار جیسی حیثیت رکھتے ہیں تو مسلمان بھائی کی مدد کریں تو سوچ میں پڑ جائیں گے اور پھر بس سوچتے ہی رہ جائے گے اور پھر آخر میں ہاتھ کھڑے کر دیں گے۔۔۔اور کسی چور کے جیسے وہاں سے فوراً نکلنے میں ہی عافیت سمجھے گے۔۔
اب میں آپ کو بتاتا ہوں میرے قریبی رشے دار کی بیٹی سے دس سال رشتہ رہ کے ختم ہو گیا ۔۔اس لیے کہ میرے پاس نا گھر تھا، نا نوکری، نا ہی کوئی مستقبل نا ہی کسی کی کوئی سپورٹ وغیرہ۔۔اور ایسا کئی بار ہوا کہ بات نکاح تک پہنچ کے ختم ہو جاتی کہ خالی پیلی آدمی سے کون نکاح کرے گا جبکہ اسلام کہہ رہا ہے کہ نکاح سے آسودگی و خوشحالی لاؤ۔۔۔اور آج بھی وہی حالت ہے۔۔پر جس سے روزی کی تنگی کی تھوڑی سی بات کرو وہی چھوٹتے مجھے نکاح کرنے کا مشورہ دینے لگ جاتا ہے۔۔اور میں سوچتا ہوں کہ انہیں کیا کہوں کہ بیسیوں بار اس اذیت سے گزر چکا ہوں کہ نکاح کی نوبت تک بات پہنچ کر ختم ہو جاتی وہی ازلی خالی پن۔۔۔ " اللہ وارث " بندے کو کوئی پاس پھٹکنے نہیں دیتا اور تم ہو کے نکاح کرو نکاح کرو کا راگ الاپتے ہو اور نکاح نکاح کی بس تکرار ہی کرتے رہتے ہو۔۔۔
دین کی باتیں کرنا اور اس پے چلنا اور عمل کرنا دو الگ الگ کام ہیں۔۔کچھ ایسے انسان بھی دیکھے ہیں جو دین کی باتیں تو بھلے نہیں کرتے مگر پھر بھی اپنے عمل سے دین پے چل کر دکھاتے ہیں۔۔اور آپ کو ایسے انسان" آٹے میں نمک " کے برابر ملے گے۔۔پر ایسے ایسے بھی دیکھے ہیں جو چھوٹتے ہی قرآن و سنہ سے بات شروع کرتے ہیں مگر اپنے عمل سے ان پے چل کے نہیں دکھاتے ہیں۔۔ہاں آپ کو ایسے لوگ ہی " آٹے کی مقدار" یعنی بہتات میں ملے گے۔۔۔
ان صحابی کا واقع اتنا عام ہو گیا ہے کہ آپ کو ہر بندے کی زبان سے سننے کو ملے گا کہ آپ بس زرا سا اور کسی کے بھی سامنے ہلکا سا کہہ دیں کہ میرا رزق سے بڑا ہاتھ تنگ ہے تو وہ چھوٹتے نکاح کا مشورہ دے دے گا اور پھر فوراً انہی صحابی کے چار نکاح کے بعد آسودگی والے واقع کو دوہرا دے گا۔۔۔پر کوئی بھی ان صحابی کے کام آنے والا انسان خود نہیں بننا چاہتا اور ان صحابی کے کام آنے والے خاندان جیسا کوئی خاندان خود کو پیش نہیں کرے گا۔۔کہ بھائی میں اور میرا خاندان حاضر ہے۔۔
وہاں پھر سب کو اللہ و رسول اور ایمان بھول بھال جاتا ہے وہاں پھر بس سب کو دنیاوی و معاشرتی باتیں یاد آ جاتی ہیں کہ ہم ایسے کیسے اس کا نکاح کروائیں، پتا نہیں کون ہے کیا ہے کیسا ہے وغیرہ وغیرہ۔۔اور اپنی بہن بیٹی یا اپنے خاندان کو نکاح کے لیے پیش کرنا تو درکنار آپ بات تو کر کے دیکھیں آپ کی زبان نا کھینچ لیں آپ کی آنکھیں نا نوچ لیں۔۔۔کہ تم نے ہماری بہن بیٹی کے رشتے کی بات کی تو کی کیسے۔۔ہمت اور جرات کیسے ہوئی تمہاری۔۔اوقات کیا ہے تمہاری اور تم نے ایسی بات سوچی بھی تو سوچی کیسے۔۔اور وہ آپ کو مار مار کر آپ کی صحیح کی درگت بنا دیں گے۔۔۔
مگر ہاں! آپ کو مشورہ پھر بھی یہی دیں گے کہ بھائی ان صحابی کی مثال زندہ کرو۔۔ان کے جیسے ایک کے بعد ایک نکاح پے نکاح کرو۔۔🤣🤣🤣
آخر میں اتنا کہوں گا کہ یہ بھی دین اسلام کے اندر کہا گیا ہے " کہ جو باتیں تم میں نہیں ہیں یا جن باتوں پے تم خود چلتے نہیں، ان پے عمل نہیں کرتے وہ دوسروں کو مت بولو، ہاں وہی بات کرو جو باتیں تم میں ہیں، جن پے چلتے اور عمل بھی کرتے ہو"۔۔۔
اصل میں ہم سب نے دین اسلام کو لینے والی سوچ سے پڑھ رکھا ہے۔۔کہ دوسروں سے خیر لیتے رہنا ہے پر جب خیر دینے یا بانٹنے کی باری آتی ہے تو تب اپنی معاشرتی ضروریات اور حاجات یاد آ جاتی ہیں۔۔ہاں دوسروں کو باتیں دیتے رہو۔۔باتوں سے پیٹ بھی بھرے گا۔۔رزق بھی ملے گا۔۔نکاح بھی ہو گا اور زندگی بھی گزرے بڑے سکون سے گزرے گی۔۔
سارے انبیا و رسل نے انسانوں کو انسانوں کے ساتھ انسانیت، مسلمانیت اور مومنیت سے پیش آنے اور رہنے کا تلقین کی۔۔اور جتنے بھی انبیا و رسل دنیا میں آئے یہی پیغام لے کر آئے کہ تم سب ایک جسم کی مانند ہو، تمارا ایمان اس وقت تک کامل ہی نہیں جب تک تمہاری زات کے شر سے تمہارا مسلمان بھائی بہن محفوظ نا رہے۔۔اور تمہارا ایمان تب بھی کامل نہیں کہ تمہارا پیٹ بھرا ہو اور تمہارے ہمسائے بھوکے سو رہے ہوں۔۔تمہیں اس دنیا میں تمہاری اپنی اکیلی زات کے لیے نہیں بھیجا بلکہ تمہیں تمہارے جیسے دیگر انسانوں کے لیے رحمت بنا کے بھیجا گیا ہے ناکہ تم دوسروں کے لیے زحمت بنتے پھرو۔۔
اب دیکھتا ہوں کہ لوگ اس ساری پوسٹ کے اصل مقصد ، اصل مدعے اور اصل بات کو سمجھتے ہیں یا اس پوسٹ کے مقصد، مدعے اور اصل بات کو چھوڑ کر اس میں سے کون کون سے کیڑے نکالتے کون کون سی بات کو پکڑ کے مجھ پے نئے فتوے، نئی تنقید و تمہید باندھتے ہیں اور کون اس سنجیدہ پوسٹ میں سے بھی شغل میلا اور تفریح کا عنصر نکالتے ہیں۔۔۔
Waiting Your Reply..
Waqas
Sunday, 11 October 2020
تھکا دینے والی زندگی
ربّ کا فرمان "اور بیشک دنیا کی زندگی تھکا دینے والی ہے" کو سوچ کے میرے زہن میں منفی سوچ ابھری اور سوچوں میں ہی ربّ سے سوال جواب شروع ہو گئے۔۔کہ مالک تو نے بندے کو تھکانے کے لیے دنیا میں بھیجا تھا؟ تو بندے کو آخر کیوں تھکانا چاہتا ہے؟ بندے کو تھکا کر آخر تجھے کیا مل جاتا ہے..وغیرہ وغیرہ۔۔
اور پھر مثبت سوچ بھی ابھری اس نے منفی سوچ اور منفی سوالوں کا جواب دینا شروع کیا۔۔۔کہ بندے کو ہر سکھ و آسائش گر دے دی جائے تو ہر انسان فرعون بن جائے اور فرعون کے جیسے انسان خدائی کا دعوے دار بن بیٹھے، ہر خوشی دے دی جائے تو انسان خدا کی زات کو یکسر طور پے ہی فراموش کر دے، ابھی تو زندگی کو تھکا دینے والا بنایا ہے تو بھی انسان اپنی جسمانی و زہنی تھکان اتارنے اور پرسکون ہونے کے لیے نا تو میرے پاس میرے در پے آتا ہے اور ناہی مجھے پکارتا ہے، ہاں بھاگ بھاگ بس دنیا والوں کے پاس جاتا ہے، انہی سے ہی سوال کرتا ہے۔۔اور میں اس کے انتظار میں رہتا ہوں کہ میرا بندہ میرے در پے کب آئے گا، مجھ سے ملاقات کا شرف کب حاصل کرے گا۔۔ہاں اسی لیے میں نے دنیا کو تھکا دینے والا بنایا تاکہ میرا بندہ میرے در پے آئے، مجھ سے ملے، مجھ سے جڑ جائے اور مجھ سے سوال کرے، مجھے پکارے۔۔اور میں اس کی پکار سنوں، اس کی منتوں مرادوں کو پورا کروں، اس کی مشکلوں پریشانیوں کو آسان کروں۔۔مگر انسان میرا ہو کے بھی میرا نہیں بنتا۔۔۔ہاں اسی لیے میں اسے اور زیادہ تھکاتا ہوں کہ کبھی تو تھک ہار کر اور ٹوٹ بکھر کر مجھ سے ہم کلام ہو گا۔۔۔
Saturday, 10 October 2020
منحوس
ایک خاتون کا انٹریو دیکھا جس میں خاتون کا کہنا تھا " کہ لوگ مجھے منحوس کہتے ہیں اس لیے کیونکہ میں طلاق یافتہ ہوں"
اور مجھے اپنے معاشرے کی زہنی پستی پے افسوس ہوا۔۔کہ طلاق یافتہ صرف عورت ہی ہوتی ہے کیا؟ مرد طلاق یافتہ نہیں کہلایا جائے گا؟..اور اگر طلاق یافتہ عورت منحوس ہے تو جس نے اس عورت کو طلاق دے کے اسے منحوس بنایا تو وہ کونسا خوش بخت ہے۔۔وہ بھی تو بدبخت ہوا نا۔۔۔؟ بدبخت ہوا کہ نہیں ہوا۔۔۔!
سو میں سے 10 دس فیصد یا بہت زیادہ کہہ لو تو بیس 20 فیصد ایسے کیسز ہونگے جن میں طلاق کی وجہ عورت خود ہوتی ہے یا اسکی کچھ چند باتیں ایسی ہوتی ہیں مگر اسی 80 فیصد طلاق کی وجہ مرد خود ہوتے ہیں ان کے اندر زیادہ سے زیادہ عورتوں کو پانے اور انہیں حاصل کرنے کی جو چاہ اور خواہش ہے اسکی وجہ سے مرد دوسری عورت کی خاطر پہلی اور تیسری کی خاطر دوسری اور چوتھی کی خاطر تیسری عورت کو مختلف حیلے بہانے اور تاویلیں گھڑ گھڑ کے طلاق پے طلاق دیتا رہتا ہے یہ سوچے سمجھے بنا کہ اپنی خواہش کی خاطر کسی ایک عورت کسی ایک خاندان بھر کی ہنستی بستی زندگی کو جیتے جی اجاڑنے جا رہا ہے۔۔لڑکی کو طلاق دے کر طلاق یافتہ اور اسکے خاندان بھر کو ایک بدنما داغ دینے جا رہا ہے کہ جی انکی بیٹی میں نجانے کیا عیب تھا جو طلاق لے کے بیٹھی ہے جبکہ اس میں بیچاری لڑکی یا اسکے خاندان بھر کا کیا قصور کہ لڑکی کے شوہر نے اور ان کے داماد نے طلاق دے دی ہے۔۔
اسی طرح کسی لڑکی کا شوہر وفات پا جائے تو لڑکی کو منحوس اور بدبخت کہا جاتا ہے۔۔مگر لڑکے کی بیوی وفات پا جائے تو لڑکے کو منحوس یا بدبخت کہنے کی بجائے لڑکے کی فوری طور پے شادی کا بندوبست کیا جاتا ہے تاکہ اس کی انسانی اور شہوانی ضرورت کو جائز اور حلال طریقے سے پورا کیا جائے۔۔ جبکہ اس کے برعکس لڑکی بیوہ ہو جائے تو اسے معاشرے میں سٹور میں رکھے کسی فالتو شے کی طرح استعمال کیا جاتا رہتا ہے، نا اس کی دلجوئی کی جاتی ہے اور نا ہی اسکی انسانی ضرورت اور شہوانی خواہشات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کے نکاح کا فوری طور پے بندوبست کیا جاتا ہے ۔۔
ہمارے معاشرے کے اسی دوہرے معیار کی وجہ سے ہی عورت ایسی گھٹیا اور فرسودہ رسموں اور باتوں کی وجہ سے باز دفعہ خود سر اور بے حیا ہو کے جینے لگتی ہے کہ جب میں ہوں ہی منحوس، بدبخت اور بری تو پھر لو دنیا والوں اب میں تمہیں بری بن کے کیوں نا دکھاؤں۔۔جو جو برے القاب اور لقب تم نے مجھے دیے ان پے آؤ تمہیں عمل کرکے دکھاؤں۔۔
اور پھر وہی دنیا کہتی نظر آتی ہے ہائے کیسی بے شرم اور بے حیا عورت ہے اس میں تو شرم و حیا نام کی کوئی شے ہی نہیں ہے، ہائے یہ تو بڑی منہ پھٹ اور بڑی ہی خود سر ہے۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔
زندگی موت ربّ سوہنے کے ہاتھ میں ہے جب جسے چاہے موت میں سے زندگی عطا فرما دے اور جب جسے چاہے زندگی میں سے موت دے دے۔۔
پتا ہے اس دنیا کا سارا امتحان اور آزمائش ہی اسی میں ہے کہ میرا کون سا بندہ میرے کون سے بندے کو مارتا اور کاٹتا پیٹتا ہے اور میرا کون سا بندہ میرے کون سے بندے کو جوڑتا اور سینچتا ہے۔۔
بات صرف اتنی سی ہے کہ جب مرد عورت سے چاہتا ہے کہ وہ مجھے میرے پورے پورے حقوق دے تو پھر وہی مرد عورت کو اس کے پورے پورے حقوق دینے سے کیوں کنی کتراتا اور بے حس اور بے غیرت بن کے اس کے حقوق غصب کرتا رہتا ہے۔۔۔
زرا نہیں! سارا سوچو!
وقاص
Sunday, 4 October 2020
فائدہ
ایک انسان اپنی عمر کے چالیس سال ایمانداری سے گزارتا رہا مگر اسے کسی نے ایمانداری سے جینے نا دیا اور ناہی ایمانداری کا صلہ دیا اور زندگی کے آخری حصے میں وہ بہک اور بھٹک کر آخر کار بے ایمانی کے رستے پے چل پڑتا ہے
ایک بے ایمان انسان اپنی عمر کے چالیس سال بے ایمانی میں مبتلا رہا اور خوب دنیاوی مال و متاع سمیٹتا رہا عیش و آرام کرتا رہا اور زندگی کے آخری حصے میں آخر کار اسے ہدایت مل گئی
اب سوال یہ ہے کہ فائدے میں کون رہا ایماندار یا پھر بے ایمان؟
الٹی دنیا
آپ جتنا مرضی دنیا کے ساتھ سیدھا چل لو ۔۔۔ پر دنیا آپ کے ساتھ پھر بھی الٹا ہی چلے گی۔۔ دنیا آپ کے ساتھ تب سیدھا چلنا شروع کرتی ہے جب آپ دنیا کے ساتھ دنیا کی طرح الٹے چلنا شروع کرتے ہیں۔
راستہ
ہوتے ہیں کچھ میرے جیسے بھی جو دوسروں کو راستہ دیتے دیتے خود راستے میں ہی رکے اور کھڑے کے کھڑے ہی رہ جاتے ہیں اس آس و امید پے کہ شائد کوئی رک کر مجھے بھی راستہ دے گا مگر دنیا چلتی بڑھتی بھاگتی دوڑتی زندگی کی دوڑ میں کہاں سے کہاں پہنچ جاتی ہے اور ہم لوگ دوسروں کا احساس و خیال کرتے ہوئے وہیں کے وہیں راستے میں کھڑے کے کھڑے ہی رہ جاتے ہیں اور آخر میں ناکام و خالی ہاتھ کھڑے خود کو اور دنیا کو خالی نظروں سے تکتے رہ جاتے ہیں۔۔
Friday, 2 October 2020
باتیں
صرف اچھی باتیں کرنے والے اور ان پے عمل نا کرنے والے کی مثال اس موزن جیسی ہے جو ازان تو پانچ وقت دیتا ہے مگر نماز ایک بار بھی ادا نہیں کرتا ہے۔