السلام علیکم،میں ایک لکھاری ہوں ایسا لکھاری جو ہر موضوعات پے سوچتا اور لکھتا ہے۔

Tuesday, 31 August 2021

برتھ ‏ڈے

برتھ ڈے۔۔۔کیک 
کیا یہ جہالت نہیں چند ایک کو چھوڑ کر اکثر برتھ ڈے پر جس انسان کی برتھ ڈے ہوتی ہے کیک کو اسی کے چہرے پے مل دیا جاتا ہے۔۔۔ 
پانی روٹی کی طرح کیک بھی تو نعمت ہے اور پھر کیک تو روٹی پانی کی نسبت کافی محنت سے بنتا اور خاصہ مہنگا خریدا جاتا ہے۔۔۔اور پھر کیک تو ویسے بھی،کریم، چاکلیٹ اور فروٹس سے تیار ہوتا ہے جو اتنی اعلی اور مہنگی اشیا سے تیار ہو پھر اس نعمت کی اتنی ہی زیادہ بے قدری اور ناشکری کیونکر ہو؟ 
کیا برٹھ ڈے پارٹیز پے اس غلط رسم و رواج اور بیہودہ پن کو ختم نہیں ہونا چاہیے۔۔یا آپ اگر برتھ ڈے مناتے ہیں تو کیا آپ چاہیں گے کہ آپ کی برتھ ڈے پے رزق کو پیروں تلے روندھا جائے۔۔اسے چہرے اور کپڑوں پے مل کر رزق کی بے قدری اور ناشکری کی جائے۔۔اگر آپ اس کے خلاف ہیں تو آپ عہد کریں کہ آپ اپنی برتھ ڈے پے اپنے تمام عزیز و اقارب کو پہلے سے منع کر دیں کہ میری برتھ ڈے پے جس نے یہ حرکت کرنی ہے وہ نہ آئے۔۔۔اور اپنے دوست احباب اور عزیز و اقارب کو بھی باور کروا دیں کہ جو اپنی برتھ ڈے پے کیک کو چہرے پے یا کپڑوں پے مل کر ضائع کرے گا میں اس کی برتھ ڈے میں شامل نہیں ہونگا۔۔آپ کو اپنی اچھی اور منفرد سوچ سے اپنا معیار اور عزت و وقار بنانا ہے۔۔ایسی سوچ جو نئی، منفرد اور دوسروں کی روایتی سوچ و فکر سے ہٹ کر ہو جس سے معاشرے میں ایک اچھی ریت و رسم قائم ہو اور جس کے کرتا دھرتا آپ ہوں۔۔کل کلاں کو جب کوئی کسی اچھی بات، کسی مثال یا کسی ریت و رسم کی مثال دے تو وہ آپ کا نام لے۔ 
جو جو میری اس بات سے اتفاق کرتے ہیں وہ چاہیں تو اس تحریر کو اپنے دوست و احباب اور عزیز و اقارب کے ساتھ شیئر کریں اور اس بیہودگی کو روکنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ 
ہاں میں مفت کا مشورہ ضرور دینا چاہوں گا گر جو کوئی عمل کرنا چاہے تو۔۔۔آپ اپنی آنے والی برتھ ڈے کو کسی قریبی جونپڑیوں میں رہنے والے، پکھی واس، خانہ بدوش یا در بدر سڑکوں اور اشاروں پے مانگنے والے فقیروں کے ساتھ برتھ ڈے منائیں جنہیں ہر دن پانی اور روٹی کے لالے پڑے ہوتے ہیں اگر ان کو اپنی برتھ ڈے کی خوشیوں میں شامل کر لیا جائے اور ممکن ہو تو ان میں اپنی حیثیت کے مطابق چند روپے یا چند دنوں کا راشن ڈلوا دیا جائے تو یقیناً عید سے پہلے ان کی عید ہو جائے گی۔۔بھلے چھوٹی عید ہی سہی مگر ان کے لیے یہ عید جیسا سما ہی ہو گا کیونکہ انہیں ایسی عیاشی شاز و نادر ہی میسر ہوتی ہو۔۔اور اگر اس سے بھی اعلی و اولیٰ کام کرنا ہے تو پھر اپنے کسی نادر، مستحق سفید پوش رشتے دار کے ہاں جا کر ان کے ساتھ اپنی برتھ ڈے منائیں اور اسی دوران چپکے سے انکی مالی یا کھانے پینے کی اشیا سے مدد کر دیں اور اگر ایسے رشتے دار بھی نہ ہوں تو اپنے محلے میں، اپنے آفس میں، اپنے ارد گرد کے کسی بھی مستحق و نادار، سفید پوش اور خود دار انسان یا خاندان کے ساتھ برتھ ڈے منائیں اور ان کی مالی یا راشن سے مدد کریں۔۔یقین کریں آپ کی ایسی برتھ ڈے زندگی کی سب سے حسین ترین اور بہترین یادگار برتھ ڈے بن جائے گی اور ایسی برتھ ڈے بھلا کیونکر یاد گار نہیں بنے گی جس میں نیکی اور انسانیت ہو۔۔مشورہ میرا تھا اب مشورے پے عمل کرنا نہ کرنا آپ پر منحصر ہے۔ 
اور آپ ایسی یادگار برتھ ڈے کو تصاویر اور ویڈیوز میں محفوظ کر لیں تاکہ آپ انہیں پھیلا کر دیگر لوگوں کو بھی اس کار خیر میں شامل ہونے کا خاموش پیغام دے سکے۔۔پر ایک بات یاد رہے کہ اس سب میں ایسے لوگوں کی دل آزاری نہ ہو، انکی عزت نفس کو ٹھیس نہ پہنچنے پائے اور جس میں ریاکاری نہ ہو۔۔فقط خالص و خالصتاً ربّ رحمٰن کے بندوں کے چہروں پے مسکراہٹیں بکھیرنا نیت ہو اور اس کے پیچھے ربّ رحمٰن کی رضا و خوشنودی پانا مقصود ہو۔ 
"اصل خوشیاں تو ہوتی ہی وہیں ہیں جو بانٹنے سے اداس، افسردہ اور غمگین چہروں پے بھی مسکراہٹیں بکھیر جائیں اور ان ہنستے کھلکھلاتے اور مسکراتے چہروں کو دیکھ کر آپ کی خوشیاں دوبالا ہو جائیں، آپ اندر سے خوشی کو محسوس کرنے لگیں اور ایسی خوشی جو آپ کی روح تک کو سرشار کر جائے"۔ 
نوٹ: برتھ ڈے منانا جائز ہے یا ناجائز، حلال ہے یا حرام، فضول خرچی ہے، کیک کے پیسے کسی غریب کو دے دو وغیرہ وغیرہ جیسی بحث سے گریز کریں۔۔جو جو برتھ ڈے مناتے ہیں یہ تحریر فقط انہی کے لیے ہے کہ وہ اس خرافات کو ختم کریں اور رزق کی بے ادبی و توہین کو بند کریں اور معاشرے میں ایک اچھی و منفرد مثال قائم کریں۔ 
#insaanorinsaaniyat 
تحریر- وقاص

ماں ‏کی ‏مار ‏میں ‏پیار

کیا یہ سچ نہیں کہ بچپن میں جب والدہ سے مار پڑتی تھی تو کچھ بھی اچھا نہیں لگتا تھا اور اب بڑے ہو جانے پے وہی مار رہ رہ کر یاد آتی ہے،ماں کی مار میں بھی پیار نظر آنے لگتا ہے اور خاص طور پے اس وقت شدت سے یاد آتی ہے جب ماں دنیا سے چلی جاتی ہے۔۔۔

Friday, 6 August 2021

نفسیاتی ‏مریض

نفسیاتی مریض

ہم اکثر سنتے ہیں کہ فلاں فلاں انسان تو نفسیاتی مریض ہے وغیرہ وغیرہ

آپ کے نزدیک کسی کے بھی نفسیاتی مریض ہونے کی کیا کیا اور کون کون سی وجوہات اور اسباب ہو سکتے ہیں؟

میں سمجھتا ہوں کہ فرض کریں کہ اگر کوئی بھی انسان نفسیاتی مریض ہے بھی تو دینی و دنیاوی اور اخلاقی طور پے ہمیں اسے نفسیاتی مریض نہیں کہنا چاہیے۔۔۔سوچ لیں آپ کے والدین یا بہن بھائی، یا شوہر، بیوی یا اولاد اگر نفسیاتی مریض ہیں تو کیا آپ اسے نفسیاتی مریض کہیں گے۔۔نہیں نا۔۔کیونکہ آپ کو وہ عزیز ہونگے۔۔ان سے محبت ہو گی۔۔آپ کے دل میں ان کے لیے عزت و قدر ہو گی۔۔تو گر کوئی غیر انسان بھی اگر نفسیاتی مریض ہے بھی تو آپ اسے عزیز نہ جانیں۔۔۔اس سے بھلے محبت نہ کریں۔۔پر اسے بھی انسان سمجھتے ہوئے کم سے کم اس کی عزت تو کریں۔۔ایک انسان کو انسان سمجھتے ہوئے اس کی قدر تو کریں۔۔اسے خیر نہیں دے سکتے تو کم سے کم اسے شر تو مت دیں۔۔اسے پیار کے دو میٹھے بول نہیں دے سکتے تو کم سے کم اپنے اندر کی نفرت اور زہر تو اسے مت دیں۔۔اسی کا نام انسانیت ہے۔۔۔گر جو تم سمجھو تو۔۔

جیسے ایک قاتل کو آپ اس کے سامنے قاتل کہیں گے تو بہت ممکن ہے کہ وہ نفرت میں آ کر آپ کو ہی قتل کر دے ۔۔پر دوسری طرف کوئی بھی سمجھدار انسان کسی قاتل کے شر سے بچنے کے لیے اس کے منہ پے قاتل نہیں کہے گا۔۔گر کوئی پاگل ہو چکا ہو تو کیا آپ اسے اس کے سامنے پاگل پاگل کہیں گے ہرگز نہیں۔۔کیونکہ اگر آپ اسے پاگل کہیں گے تو بہت ممکن ہے کہ اس کے اندر کا پاگل پن وحشی انسان بن کر آپ کو شدید ترین نقصان پہنچا دے۔۔اس لیے آپ اسے پاگل نہیں کہیں گے۔۔اسی طرح کچھ لوگ نفسیاتی مریض کو نفسیاتی مریض جب کہیں گے تو اس کا مرض بڑھے گا یا گھٹے گا۔۔یقیناً بڑھے گا۔۔۔کسی بھی لاعلاج سے لاعلاج مرض کو آپ اچھے سلوک، اچھے رویے اور اچھی بات سے ختم بھلے نہ کر سکیں پر آپ اسے کسی نہ کسی حد تک کم اور گھٹا ضرور دیں گے۔۔۔

تو حاصل کلام یہ ہے کہ گر کسی کسی نفسیاتی مریض کا آپ کو پتا لگ بھی جائے تو اس سے نفرت کرنے، حقارت سے دیکھنے اور حقیر سمجھتے ہوئے اسے نفسیاتی مریض مت پکاریں۔۔۔اس کے نفسیاتی امراض کو کم یا گھٹا نہیں سکتے تو کم سے کم اپنی ناسمجھی اور جہالت سے اس کے نفسیاتی امراض میں اضافہ کرنے کا سبب مت بنیں۔۔اور آخر میں آپ گر انسان پیدا کر دیے گئے ہیں تو اپنی سوچ و فکر اور اپنے گفتار و کردار سے واقعی میں اور حقیقی انسان بنیں۔۔کیونکہ انسان صرف اور صرف وہی ہے جس میں انسانیت ہے۔۔اور جس انسان میں انسانیت نہیں وہ حیوان ہوتا ہے یا پھر شیطان یا پھر حیوان اور شیطان دونوں ہوتا ہے۔۔

تحریر-وقاص

Sunday, 1 August 2021

لنگر ‏اور ‏کارخانہ

لنگر اور کارخانہ

راستے میں کسی فقیر کے سوال کرنے پے اسے نوکری دینے یا نوکری پے لگوانے کی پیشکش کرنے کی بجائے اسے چند ٹکے دے کر جان چھڑانے والے بھی کہتے پائے جاتے ہیں " کہ ایک کارخانہ ہزار لنگر خانوں سے بہتر ہے"۔۔۔بندہ پوچھے کہ بھائی تم نے معاشرے میں کونسی نئی مثال قائم کر دی ہے، کون سے نئی اور وکھری قسم کی داغ بیل ڈال دی ہے۔۔جو تم بھی کارخانے کی بات کا رٹّا لگا رہے ہو۔۔۔بات کرنے میں کیا ہے۔۔بات ہی کرنی ہینا تو کرتے جاؤ۔۔۔جی بھر بھر کے کرو۔۔۔اور جتنی مرضی باتیں کرتے اور ہانکتے جاؤ۔۔۔مزا تو تب ہے کہ تم باتیں کرنے کی بجائے کچھ کر کے دکھاؤ۔۔بھلے چھوٹی سی چھوٹی شروعات کر گزرو، پھر بھلے چھوٹے سے چھوٹے پیمانے سے ابتدا کرو۔۔پر خدارا باتیں کم، بھلے تھوڑا اور چھوٹا ہی سہی پر کچھ کام کر کے دکھاؤ۔۔کیونکہ دنیا کو باتیں کرنے والوں کی نہیں بلکہ کچھ عمل کر گزرنے والوں کی ضرورت ہے اور دنیا باتیں کرنے والوں کو نہیں بلکہ کام کر گزرنے والوں کو یاد رکھتی ہے۔۔۔تو پھر ہے ہمت۔۔۔کہ آج کے بعد سوال کرنے والے کو کارآمد بناؤ گے ناکہ اسے چند ٹکے دے کر جان چھڑاؤ گے اور پھر راگ الاپتے اور دانشوری جھاڑتے ہوئے کہتے پھرو گے " کہ جی ایک کارخانہ ہزار لنگر خانوں سے بہتر ہے"۔