Favourite Teacher
میں پانچویں کلاس میں تھا اور ایک ایسے پرائیویٹ سکول میں تھا،جو تھا تو گرلز ہائی سکول پر لڑکوں کے لیے پانچ کلاس تک پڑھنے کی اجازت تھی۔ جہاں ساری فیمیل ٹیچر ہی تھیں۔ خوش قسمتی سے ہماری کلاس ٹیچر مس انیلا تھی۔ساری ٹیچر آتی پڑھاتی اور چلی جاتی تھی۔کوئی سخت تو کوئی نرم مزاج کی ٹیچر تھی،کوئی ہوم ورک نا کرکے لانے پے پہلے غصہ کرتی پھر ہاتھ کی لیکروں پے ڈھنڈے برساتی اور ہم بچے اوئی ہائی کرتے ہاتھوں کو بغلوں میں دبائے اور سہلاتے رہتے تھے، تو کوئی نرم و نازک گالوں پے اپنے ہاتھ کی چھاپ چھوڑ جاتی تو کوئی کان کو لال و لال کر جاتی،کوئی کہتی تھی اچھا کل یاد سے دو دن کا ہوم ورک کرکے لانا، کوئی مرغا بناتی تو کوئی سزا کے طور پے ٹیبل پے ہی چڑھ جانے کو کہتی تھیں،اس ہی لیے میں نے کہا کہ خوش قسمتی سے مس انیلا ہماری کلاس ٹیچر تھی۔۔کیونکہ مس انیلا یا تو وہ خود بہت اچھی تھی یا پھر وہ بچوں کی نفسیات کو بہت ہی اچھے سے سمجھتی تھیں یا یوں کہنا زیادہ بہتر ہو گا "کہ مس انیلا بچوں کی ماہر نفسیات تھیں".
مس انیلا جیسے ہی کلاس روم میں داخل ہوتی تو سب بچوں کے چہرے پے مسکراہٹ بکھر جاتی اور ایک خوشی کی لہر سی دوڑ جاتی تھی اور سب بچے بیک زبان ہو کر السلام علیکم ٹیچر کی سدا لگاتے۔ اور مس انیلا جن کے چہرے پے ہر وقت ایک ہلکی سی مسکان رہتی تھی وہ بھی ہنستے مسکراتے ہوئے بچوں کو وعلیکم السلام سے جواب دیا کرتی تھیں۔
پھر مس کہتی چلو اپنی اپنی جگہ پے کھڑے ہو جاؤ اور ہلکی پھلکی ورزش کے انداز میں اپنے ہاتھ اوپر اور پھر نیچے کرنے کو کہتی،اور بچے فوراً جی حضوری کرتے ہوئے مس کی بات پے عمل کرتے،ایک سے دو منٹ ورزش کرانے کے بعد مس پوچھتی اچھا تو جی آج آپ نے ناشتے میں کیا کیا کھایا؟ سب بچے ایک ساتھ بولنے لگتے،مس میں نے،مس میں نے۔۔تو مس کہتی سب باری باری بتاؤ،ہاں تم بتاؤ،اچھا تم بتاؤ، اچھا وقاص تم بتاؤ تم نے کیا کھایا۔۔میں کہتا مس میں نے انڈا پراٹھا کھایا، کوئی کہتا میں نے سلائس کھائے تو کوئی کہتا میں نے کچھ نہیں کھایا تو مس پوچھتی کیوں،تو بچہ کہتا مس لیٹ ہونے کی وجہ سے بغیر ناشتہ کیے آ گیا،کوئی کہتا مس میں نے آدھا پراٹھا کھایا میں سکول آ گیا،مس کہتی بیٹا جلدی سویا کرو اور جلدی اٹھا کرو، اور ناشتہ کیے بغیر کوئی بچہ بھی نا آئے اور جس بچے نے ناشتہ نا کیا ہوتا اسے اپنے ساتھ لائے لنچ میں سے کھانے کو دیتی اور اگر کسی دن لنچ نا لا پاتی تو باہر سے کچھ نا کچھ کھانے کو منگوا کر دیتی اور جو بچہ کہتا مس گھر میں آٹا یا گھی نہیں تھا تو مس کہتی اچھا کل اپنی امی کو ساتھ لانا اور مس انیلا سب ٹیچر سے بات کرکے اس بچے کی ماں کی کچھ مدد کر دیتی یوں مس سب سے پوچھنے کے بعد کہتی چلو بچوں بیگ سے کتاب نکال لو اور مس سبق یا نظم کو کھیل کود والے انداز میں ہنستے کھیلتے پڑھاتی تھیں اور بچے بھی خوب جی جان سے سبق کو پڑھتے اور یاد کرتے تھے۔
پھر مس انیلا ہفتے میں ایک دو بار کلاس میں ہی بچوں کو کھیل کود کا موقع دیا کرتی تھی، کہ ساری ٹیبل اور کرسیاں دیوار کے ساتھ لگوا کر کلاس کے بیچوں بیچ دو ٹیبل کو رکھ دیتی اور کہتی کہ چلو بچوں تم اور تم آ جاؤ تم نے بھاگنا ہے اور تم نے اسے پکڑنا ہے، مگر دیکھو چوٹ نا لگنے پائے،اور پھر دو بچوں کےدرمیان پکڑن پکڑائی شروع ہو جاتی اور پوری کلاس میں گہما گہمی اور قہقوں کی آواز گونجنے لگتی،اور گر جو بچہ دوڑنے میں تیز طرار ہوتا اور پکڑنے والا گر تھوڑا کمزور ہوتا تو مس دوڑنے والے بچے کو خود کہتی سنو اور جب بچہ بات سنے کو جوں ہی رکتا تو پکڑنے والا بچہ اسے پکڑ لیتا اور جب بچہ پکڑا جانے والا بچہ جب کہتا کہ مس میں تو آپ کی بات سننے کے لیے رکا تھا تو مس کہتی میں نے تو دوسرے بچے کو آواز دی تھی اور یوں بچے ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو جاتے، اور ایک دوسرے کو پکڑنے پے خوب ہلا گلا کرکے خوش ہوتے۔
کسی دن مس کہتی اچھا نظم کس کس کو آتی ہے،تو کچھ ہاتھ کھڑے کرتے اور کچھ کہتے مس مجھے نہیں آتی جس کو نظم آتی اسے سنانے کو کہتی اور جس کو نا آتی اسے کہتی آپکو میں سیکھاؤ گی،اور کلاس میں جس کو نظم آتی اسے اپنے پاس بلا کر کوئی اچھی سی نظم یاد کرواتی اور پوری کلاس سے کہتی کہ یہ پڑھے گا تو آپ سب نے بھی اس کے ساتھ ساتھ پڑھنا ہے۔
اسی طرح مس کسی دن کہتی اچھا کہانی کس کس کو آتی ہے، تو کوئی کہتا مس مجھے ،مس مجھے، مجھے میری مما نے کہانی سنائی تھی وہ سناؤں،کوئی کہتا میری دادی اماں نے کہانی سنائی تھی وہ سناؤں مس اس بچے کو بلوا کر کہانی سنواتی اور کہانی میں کہیں کوئی بھول چوک یا غلطی ہوتی تو سب بچے قہقے لگا کر بات بے بات پے ہنسنے لگتے اور یوں کہانی ختم ہو جاتی۔
تو کسی دن مس کلاس میں آتی تو سلام جواب کے بعد کہتی اچھا بتاؤ میں آج میرے بیگ میں کیا ہے۔۔۔! تو سب بچے بیک زبان ہو کر کہتے مس ٹوفی۔۔اور مس کہتی ہاں۔۔آج میں آپ سب کے لیے اچھی سی ٹوفی لائی ہوں اور باری باری لائن میں لگوا کر بچوں کو ایک ایک ٹوفی دیتی، اور گر کوئی بچہ ایک ٹوفی کھانے کے بعد دوبارا لائن میں لگ جاتا تو مس اسے پیار سے سمجھاتی آپ ابھی لے کر گئے ہو نا تو بچہ آئیں بائیں کرنے لگتا تو مس پیار سے ایک اور ٹوفی دیتی اور کہتی کہ دیکھو سب کو ایک ایک دی ہے تو آپ کو بھی آئندہ ایک ہی ملے گی اور اسے سمجھ آ جاتا کہ اپنے حصے کی ہی چیز لی جاتی ہے۔
اس طرح میں نے ہنستے کھیلتے پانچویں کلاس سیکنڈ پوزیشن سے پاس کر لی اور مجھے یقین ہی نا آیا کہ میں پوری کلاس میں سیکنڈ آیا ہوں اور رزلٹ والے دن میری والدہ نے مس انیلا کو خوشی میں پھولوں کا ہار پہنایا۔
واقعی مس انیلا پھولوں کے ہار کی ہی مستحق تھی کیونکہ وہ جانتی کہ قوم کے پھولوں کو کب کب اور کیسے کیسے پڑھانا،لکھانا اور سیکھانا ہے اور پھولوں کے ساتھ کس نرمی،شگفتگی اور اپنائیت سے پیش آنا ہے اور کیسے کیسے پھولوں کو تروتازہ اور صحت مند بنانا ہے، مس انیلا واقعی پھولوں کے باغ کی مالی تھی جنہیں ہر پھول کو کھلانا اور مہکانا آتا تھا اور اس پھولوں کے باغ کو سرسبز و شاداب رکھنا آتا تھا اور جنہیں پھولوں کو سینچنا اور جوڑنا اور کامیاب بنانا آتا تھا۔
میں چاہتا ہوں ہر سکول میں ہر ٹیچر مس انیلا کے جیسی ہو اور اگر ہر ٹیچر مس انیلا جیسی بھلے نا ہو تو کم سے کم ایک ٹیچر تو مس انیلا جیسی ہونی چاہیے جس کے آنے اور پڑھانے پے بچوں کے خوف و ڈر والے چہروں پے مسکراہٹ کھل اٹھے جو دیگر ٹیچرز کی بچوں پے ڈانٹ ڈپٹ اور سختی کی کو کچھ کم کر سکے اور پھولوں کو مرجھانے کی بجائے تروتازہ رکھ سکے۔
No comments:
Post a Comment