شیطان اگر شیطانیت اور حیوان اگر حیوانیت کرے گا تو اس سے سوال و جواب نہیں ہو گا کیونکہ شیطان نے شیطانیت اور حیوان نے حیوانیت ہی تو کرنی ہے پر اگر انسان جب شیطانیت اور حیوانیت کرے گا تو دنیا میں بھی سوال و جواب ہو گا اور روزِ آخرت اس سے حساب و کتاب ہو گا "کہ تُو تو انسان تھا نا پھر تُو انسانیت کو چھوڑ کر شیطانیت و حیوانیت پے کیونکر چلتا رہا۔۔۔!
السلام علیکم اس بلاگ میں آپ کو ہر وہ بات ملے گی جسمیں انسانوں کے لیے انسانیت کا میسج ہو گا ایسا میسج جو آپ کو کچھ سوچنے،سمجھنے اور پرکھنے پے مجبور کرے گا۔ تو خود بھی جوائن کریں اعر دوست احباب کو بھی Invite کریں۔ شکریہ۔ وقاص
السلام علیکم،میں ایک لکھاری ہوں ایسا لکھاری جو ہر موضوعات پے سوچتا اور لکھتا ہے۔
Wednesday, 29 May 2019
Tuesday, 28 May 2019
گفتار و کردار
انسان ہونے کے ناتے اپنے گفتار و کردار میں انسانیت پیدا کریں ایسی انسانیت کہ بد تمیز اور بدتہذیب انسان بھی آپکی انسانیت سے متاثر ہو کے اپنے اندر انسانیت پیدا کرلے۔
Monday, 27 May 2019
بھوک
بھوک انسان کو حیوان اور شیطان بنا دیتی ہے وہ بھوک پھر بھلے پیٹ کی ہو یا پھر نفس کی اور وہ اعلی و بہترین انسان ہوتا ہے جو انسان کی پیٹ اور نفس کی بھوک کو مٹانے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے اور ان کی بھوک کو ایک حلال زریعے سے مٹانے اور بجھانے کا بندوبست کرتا ہے اور حلال زندگی مہیا کر کے انہیں انسانیت کی طرف واپس لاتا ہے۔
Friday, 24 May 2019
نکاح
نکاح
کے وقت آج کل لڑکا اور اسکے خاندان والے بڑی بے شرمی،ڈھٹائی اور ہٹ دھرمی سے بڑا سا منہ کھولے جہیز کی لسٹ لڑکی کے والدین کے ہاتھ میں تھما دیتے ہیں جبکہ لڑکی کے نام کچھ سونا،دیگر زیورات،زمین،گھر مکان لکھ کر دینے یا طلاق دینے کی صورت میں اتنا اتنا پیسہ لکھ کر دینے والی بات پے انہیں سانپ سا سونگھ جاتا ہے۔
اب پہلی بات کہ لڑکے میں اتنی شرم اور غیرت تو ہونی چاہیے کہ وہ لڑکی کے گھر والوں کو سختی سے روکے کہ مجھے جہیز نہیں چاہیے،لڑکی کے والدین کو انکی بیٹی کی رخصتی میں آسانی دے اور بیوی سے کہے کہ ہم شادی کے بعد مل جل کر ضروریات زندگی آہستہ آہستہ خرید لیں گے آپ میرا ساتھ دینا میں آپ کا ساتھ دونگا پر تب تک گھر کے کام کاج آپ کو خود کرنے ہونگے اور کچھ کام ہم دونوں مل جل کر کیا کریں گے کیونکہ ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے تمام کام اپنے مبارک ہاتھوں سے ادا فرمائے تھے۔
اور جب لڑکا اتنی شرم و حیا،غیرت اور خود داری دکھائے گا واللہ میں کہتا ہوں لڑکی کے والدین لڑکے سے نا تو سونا ڈالنے کی بات کریں گے، نا زمین جائیداد نام کرنے کا کہیں گے نا ہی کوئی اور مطالبہ سامنے رکھے گے اور وہ اپنی بیٹی کو ہنسی خوشی رخصت کر دیں گے اور بعد میں دونوں میاں بیوی اپنے داماد پے بیٹھے رشک کیا کریں گے کہ جیسا باحیا،باغیرت اور خود دار داماد ربّ رحمٰن نے ہمیں عطا کیا ہے خالق و مالک ایسا خود دار داماد سب والدین کو عطا فرمائے۔آمین۔
یہ ہے ایک مرد کی پہچان،یہ ہے ایک مرد کی شان اور یہی ہے ایک مرد کی عزت وقار کہ ربّ رحمٰن نے مرد کو،طاقتور،مضبوط،کما کر دینے،نوازنے،پالنے پوسنے،ڈھانپنے،حفاظت کرنے اور رزق کو بانٹنے والا بنایا ہے پر افسوس مرد اپنی مردانگی کو چھوڑ اور بھول بیٹھا ہے کہ ایک کمزور عورت سے طرح طرح کی مانگ اور مطالبات کرتا ہے ایک کرپٹ سیاستدان کی طرح لڑکی اور اس کے والدین سے سب کچھ چھین لینا،لوٹنا کھسوٹنا چاہتا ہے انہیں بے سروسامانی اور بھیکاری پن کی حالت میں چھوڑنا چاہتا ہے کہ مجھے جہیز دو،اس میں ضروریات زندگی کا سامان دو، گھر دو، زمین دو، گاڑی دو،یہ دو وہ دو ، فلاں شے دو اور فلاں فلاں شے دو پر یہ نہیں کہتا کہ میں ایک بے شرم لعنتی انسان ہوں، لعنتی سوچ اور کردار کا مالک ہوں مجھے بہت سارے جہیز کے ساتھ ساتھ لعنتیں بھی بیشمار دو۔
مرد اگر نکاح کو آسان بنانا چاہے اور معاشرے میں ایک اچھی،سلجھی اور بہترین مثال قائم کرنا چاہے تو سب کچھ کر سکتا ہے کیونکہ ربّ رحمٰن نے مرد کو حاکم بنایا ہے وہ حاکم جو ہر مسئلے اور ہر مشکل کو اپنی حکمت و دانائی سے حل کر گزرتا ہے پر اس کے لیے غیرتِ ایمانی چاہیے، مردانہ غیرت،انا اور خود داری چاہیے۔
اللہ تمام مردوں کو غیرتِ ایمانی اور مردانہ غیرت اور خود داری عطا فرمائے تاکہ معاشرے کے نکاح جیسے بڑے بڑے مسئلے حل ہونے میں مدد مل سکے۔آمین۔
ایک بار درود پاک پڑھیں۔
وقاص
خالصتاً
انسان جیسے بدی چھپ چھپا کر خالصتاً شیطان کے لیے کرتا ہے اگر اسی طرح نیکی بھی چھپ چھپا کر خالصتاً ربّ رحمٰن کے لیے کرے تو ربّ رحمٰن کے ہاں انسان کا مقام و مرتبہ کہاں سے کہاں پہنچ جائے۔
Saturday, 18 May 2019
حق سچ
ازان کی آواز سن کر میرے لب خود بخود اور بے اختیار پکار اٹھتے ہیں کہ یہی حق سچ آواز ہے یہی حق سچ کلمات ہیں،باقی سب جھوٹ ہے،سب جھوٹ ہے پر افسوس صد افسوس ہم جھوٹ کے قریب اور اسی حق سچ سے کوسوں اور میلوں دور ہیں۔
Big bang
جو لوگ کہتے ہیں Big Bang ہوا اور اس کے تحت دنیا وجود میں آ گئی اور خدا کا کوئی وجود نہیں ہے اور دنیا سائنس کے تحت چل رہی ہے۔
میں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ ایک دو ٹکے کا گروپ خود بخود نہیں بنتا،اسے بھی بنانے کی ضرورت پڑتی ہے تبھی وہ بنتا ہے،پھر آپ گروپ بنا بھی لو اور پھر اسے اس کے حال پے چھوڑ دو تو وہ گروپ پٹ جاتا اور خراب ہو جاتا ہے گروپ کو بنانے کے بعد اسے چلانے کے لیے بھی مسلسل ایک ایڈمن کی ضرورت ہوتی پڑتی ہے
تو عقل کے اندھوں جب ایک معمولی سا گروپ خود نہیں بنتا نا ہی خود بخود ٹھیک ٹھیک چلتا رہتا ہے تو پھر اتنی بڑی دنیا خود کیسے وجود میں آ گئی اور پھر وجود میں آنے کے بعد سالہا سال صدیوں سے خود بخود کیسے چل رہی ہے۔۔۔!!!
زرا سا نہیں سارا سوچو اور ڈھیر سارا سوچو۔
Thursday, 16 May 2019
گفتار و کردار
یہاں انسان، انسان کے گفتار و کردار کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کے مال و دولت اور ساز و سامان کی وجہ سے عزت و احترام کرتا،قریب ہوتا ہے اور مال و دولت ساز و سامان نا ہونے پے دور بھاگتا اور زلیل کرتا رہتا ہے۔۔پر پتا ہے اچھوں کی قدر و قیمت کب معلوم ہوتی ہے جب بُروں سے پالا اور واسطہ پڑتا ہے۔
Wednesday, 15 May 2019
خوشی و غم
ایک ہی جملہ مجھے دو حالتوں میں یاد آنے کے ساتھ بہت کچھ سیکھا جاتا ہے،پہلی جب سکھ چین،راحت و خوشی کی حالت میسر آئے تو میں خوشی میں بھی اپنی حد سے اور آپے سے باہر نہیں ہوتا اور اپنی اوقات میں رہتا ہوں،دوسری جب دکھ درد،غم و الم کی حالت آئے تب پرسکون،مطمئن اور اطمنان میں آ جاتا ہوں " کہ یہ وقت بھی گزر جائے گا".
زندگی
انسان کی زندگی میں غم آ جائے تو سوچتا ہے اب کبھی خوشی نہیں آئے گی اور جو خوشی آ جائے تو خیال کرتا ہے اب کبھی غم نہیں آئے گا۔۔پر انسان یہ بھول جاتا ہے کہ جب صبح ہوتی ہے تو شام بھی ہوتی ہے جہاں دھوپ ہوتی ہے وہاں چھاؤں بھی ہوتی ہے۔
Monday, 13 May 2019
والدین اور اولاد
کیا ایسا ہی نہیں ہے کہ اکثر والدین اولاد کو یہی کہتے،سناتے اور جتاتے رہتے ہیں کہ ہمارے والدین نے ہمارے ساتھ ایسا اور ایسا کیا تھا ایسا اور ایسا ہوا تھا۔۔میں تمام والدین سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ کے والدین نے آپ کے ساتھ اگر غلط کیا تو پھر آپ اپنی اولاد کے ساتھ بھی غلط ہی کرتے رہیں گے۔۔ایک غلط بات اور کام کو نسل در نسل چلتے اور بڑھتے رہنے دیں گے!
فالورز
کچھ لوگ آپ کو آپکی اچھائی کی وجہ سے متاثر ہو کے نہیں بلکہ آپ میں برائی تلاشنے اور ڈھونڈنے کی غرض سے آپ کی پیروی اور پیچھا (Follow) کیا کرتے ہیں۔
Sunday, 12 May 2019
چادر و چار دیواری
جیسے مچھلی کو پانی میں رہ کر سکون ملتا ہے،پانی میں وہ پرسکون،مطمئن اور بے خوف رہتی ہے کیونکہ مچھلی کو بنایا ہی پانی کے لیے گیا ہے، اسکی ساخت اور فطرت ہی ایسی بنائی گئی ہے کہ وہ پانی میں رہے تو زندہ اور گر پانی سے باہر رہے تو تڑپنے اور مرنے لگتی ہے
ٹھیک اسی طرح عورت کو گھر میں چادر اور چاردیواری میں سکون ملتا ہے،گھر میں وہ پرسکون،مطمئن اور بے خوف رہتی ہے کیونکہ عورت کو بنایا ہی گھر کے لیے ہے،اسکی ساخت اور فطرت ہی گھر میں رہنے والی بنائی ہے کہ وہ گھر میں رہے تو امن و امان اور محفوظ رہتی جبکہ باہر نکلے تو غیر محفوظ،خوف زدہ،خدشات میں گِھری،بے سکون اور غیر مطمئن سی رہتی ہے۔
Saturday, 11 May 2019
مجموعہ
انسان تین چیزوں اور باتوں کا مجموعہ ہے، انسانیت،شیطانیت اور حیوانیت پر انسان اکثر شیطانیت اور حیوانیت کو تو جگائے رکھتا ہے جبکہ انسانیت کو اکثر سلائے رکھتا ہے۔
سنبھلا اور گرا ہوا
گلاب کے پودے کے پاس گزرنے پے جیسے پودے پے لگے پھول کو توڑنے کی بجائے پودے سے ٹوٹ کر گرے ہوئے پھول کو اٹھایا اور سنبھالا جاتا ہے ٹھیک اسی طرح سنبھلے اور سنورے ہوئے انسان کو گرانے کی بجائے کسی گرے ہوئے انسان کو سنبھالا اور سنوارہ جاتا ہے اور اسی کو ہی انسانیت کہتے ہیں۔
Friday, 10 May 2019
خاص
جیسے خاص نیکیاں ہوتی ہیں اسی طرح کچھ خاص گناہ بھی ہوتے ہیں،پھر جیسے خاص نیکیوں خاص رحم و کرم ہوتا ہے ویسے ہی خاص گناہوں پے خاص گرفت،پکڑ اور سزا ہوتی ہے اسلیے خاص نیکیاں کرتے رہیں اور خاص گناہوں سے بچتے رہیں۔
ٹوٹا اور جڑا
ربّ رحمٰن سے ٹوٹے ہوئے بندے پے شیطان حملوں پے حملے کر کر کے اسے اور زیادہ توڑتا چلا جاتا ہے اور ایک دن بندہ شیطان کے کسی کاری وار کی زد میں آ کے زندگی سے ہی چلا جاتا ہے جبکہ ربّ رحمٰن سے جڑے ہوئے بندے سے شیطان اپنے ٹوٹنے کے ڈر سے اس سے کوسوں اور میلوں میل دور رہتا ہے اور اس کا ربّ رحمٰن سے جڑے رشتے کے ٹوٹنے کے انتظار میں رہتا ہے۔تو پتا چلا کہ جڑے رہنے سے انسان جڑا اور ٹوٹے رہنے سے انسان ٹوٹتا ہی چلا جاتا ہے۔
Wednesday, 8 May 2019
FAVOURITE TEACHER
Favourite Teacher
میں پانچویں کلاس میں تھا اور ایک ایسے پرائیویٹ سکول میں تھا،جو تھا تو گرلز ہائی سکول پر لڑکوں کے لیے پانچ کلاس تک پڑھنے کی اجازت تھی۔ جہاں ساری فیمیل ٹیچر ہی تھیں۔ خوش قسمتی سے ہماری کلاس ٹیچر مس انیلا تھی۔ساری ٹیچر آتی پڑھاتی اور چلی جاتی تھی۔کوئی سخت تو کوئی نرم مزاج کی ٹیچر تھی،کوئی ہوم ورک نا کرکے لانے پے پہلے غصہ کرتی پھر ہاتھ کی لیکروں پے ڈھنڈے برساتی اور ہم بچے اوئی ہائی کرتے ہاتھوں کو بغلوں میں دبائے اور سہلاتے رہتے تھے، تو کوئی نرم و نازک گالوں پے اپنے ہاتھ کی چھاپ چھوڑ جاتی تو کوئی کان کو لال و لال کر جاتی،کوئی کہتی تھی اچھا کل یاد سے دو دن کا ہوم ورک کرکے لانا، کوئی مرغا بناتی تو کوئی سزا کے طور پے ٹیبل پے ہی چڑھ جانے کو کہتی تھیں،اس ہی لیے میں نے کہا کہ خوش قسمتی سے مس انیلا ہماری کلاس ٹیچر تھی۔۔کیونکہ مس انیلا یا تو وہ خود بہت اچھی تھی یا پھر وہ بچوں کی نفسیات کو بہت ہی اچھے سے سمجھتی تھیں یا یوں کہنا زیادہ بہتر ہو گا "کہ مس انیلا بچوں کی ماہر نفسیات تھیں".
مس انیلا جیسے ہی کلاس روم میں داخل ہوتی تو سب بچوں کے چہرے پے مسکراہٹ بکھر جاتی اور ایک خوشی کی لہر سی دوڑ جاتی تھی اور سب بچے بیک زبان ہو کر السلام علیکم ٹیچر کی سدا لگاتے۔ اور مس انیلا جن کے چہرے پے ہر وقت ایک ہلکی سی مسکان رہتی تھی وہ بھی ہنستے مسکراتے ہوئے بچوں کو وعلیکم السلام سے جواب دیا کرتی تھیں۔
پھر مس کہتی چلو اپنی اپنی جگہ پے کھڑے ہو جاؤ اور ہلکی پھلکی ورزش کے انداز میں اپنے ہاتھ اوپر اور پھر نیچے کرنے کو کہتی،اور بچے فوراً جی حضوری کرتے ہوئے مس کی بات پے عمل کرتے،ایک سے دو منٹ ورزش کرانے کے بعد مس پوچھتی اچھا تو جی آج آپ نے ناشتے میں کیا کیا کھایا؟ سب بچے ایک ساتھ بولنے لگتے،مس میں نے،مس میں نے۔۔تو مس کہتی سب باری باری بتاؤ،ہاں تم بتاؤ،اچھا تم بتاؤ، اچھا وقاص تم بتاؤ تم نے کیا کھایا۔۔میں کہتا مس میں نے انڈا پراٹھا کھایا، کوئی کہتا میں نے سلائس کھائے تو کوئی کہتا میں نے کچھ نہیں کھایا تو مس پوچھتی کیوں،تو بچہ کہتا مس لیٹ ہونے کی وجہ سے بغیر ناشتہ کیے آ گیا،کوئی کہتا مس میں نے آدھا پراٹھا کھایا میں سکول آ گیا،مس کہتی بیٹا جلدی سویا کرو اور جلدی اٹھا کرو، اور ناشتہ کیے بغیر کوئی بچہ بھی نا آئے اور جس بچے نے ناشتہ نا کیا ہوتا اسے اپنے ساتھ لائے لنچ میں سے کھانے کو دیتی اور اگر کسی دن لنچ نا لا پاتی تو باہر سے کچھ نا کچھ کھانے کو منگوا کر دیتی اور جو بچہ کہتا مس گھر میں آٹا یا گھی نہیں تھا تو مس کہتی اچھا کل اپنی امی کو ساتھ لانا اور مس انیلا سب ٹیچر سے بات کرکے اس بچے کی ماں کی کچھ مدد کر دیتی یوں مس سب سے پوچھنے کے بعد کہتی چلو بچوں بیگ سے کتاب نکال لو اور مس سبق یا نظم کو کھیل کود والے انداز میں ہنستے کھیلتے پڑھاتی تھیں اور بچے بھی خوب جی جان سے سبق کو پڑھتے اور یاد کرتے تھے۔
پھر مس انیلا ہفتے میں ایک دو بار کلاس میں ہی بچوں کو کھیل کود کا موقع دیا کرتی تھی، کہ ساری ٹیبل اور کرسیاں دیوار کے ساتھ لگوا کر کلاس کے بیچوں بیچ دو ٹیبل کو رکھ دیتی اور کہتی کہ چلو بچوں تم اور تم آ جاؤ تم نے بھاگنا ہے اور تم نے اسے پکڑنا ہے، مگر دیکھو چوٹ نا لگنے پائے،اور پھر دو بچوں کےدرمیان پکڑن پکڑائی شروع ہو جاتی اور پوری کلاس میں گہما گہمی اور قہقوں کی آواز گونجنے لگتی،اور گر جو بچہ دوڑنے میں تیز طرار ہوتا اور پکڑنے والا گر تھوڑا کمزور ہوتا تو مس دوڑنے والے بچے کو خود کہتی سنو اور جب بچہ بات سنے کو جوں ہی رکتا تو پکڑنے والا بچہ اسے پکڑ لیتا اور جب بچہ پکڑا جانے والا بچہ جب کہتا کہ مس میں تو آپ کی بات سننے کے لیے رکا تھا تو مس کہتی میں نے تو دوسرے بچے کو آواز دی تھی اور یوں بچے ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو جاتے، اور ایک دوسرے کو پکڑنے پے خوب ہلا گلا کرکے خوش ہوتے۔
کسی دن مس کہتی اچھا نظم کس کس کو آتی ہے،تو کچھ ہاتھ کھڑے کرتے اور کچھ کہتے مس مجھے نہیں آتی جس کو نظم آتی اسے سنانے کو کہتی اور جس کو نا آتی اسے کہتی آپکو میں سیکھاؤ گی،اور کلاس میں جس کو نظم آتی اسے اپنے پاس بلا کر کوئی اچھی سی نظم یاد کرواتی اور پوری کلاس سے کہتی کہ یہ پڑھے گا تو آپ سب نے بھی اس کے ساتھ ساتھ پڑھنا ہے۔
اسی طرح مس کسی دن کہتی اچھا کہانی کس کس کو آتی ہے، تو کوئی کہتا مس مجھے ،مس مجھے، مجھے میری مما نے کہانی سنائی تھی وہ سناؤں،کوئی کہتا میری دادی اماں نے کہانی سنائی تھی وہ سناؤں مس اس بچے کو بلوا کر کہانی سنواتی اور کہانی میں کہیں کوئی بھول چوک یا غلطی ہوتی تو سب بچے قہقے لگا کر بات بے بات پے ہنسنے لگتے اور یوں کہانی ختم ہو جاتی۔
تو کسی دن مس کلاس میں آتی تو سلام جواب کے بعد کہتی اچھا بتاؤ میں آج میرے بیگ میں کیا ہے۔۔۔! تو سب بچے بیک زبان ہو کر کہتے مس ٹوفی۔۔اور مس کہتی ہاں۔۔آج میں آپ سب کے لیے اچھی سی ٹوفی لائی ہوں اور باری باری لائن میں لگوا کر بچوں کو ایک ایک ٹوفی دیتی، اور گر کوئی بچہ ایک ٹوفی کھانے کے بعد دوبارا لائن میں لگ جاتا تو مس اسے پیار سے سمجھاتی آپ ابھی لے کر گئے ہو نا تو بچہ آئیں بائیں کرنے لگتا تو مس پیار سے ایک اور ٹوفی دیتی اور کہتی کہ دیکھو سب کو ایک ایک دی ہے تو آپ کو بھی آئندہ ایک ہی ملے گی اور اسے سمجھ آ جاتا کہ اپنے حصے کی ہی چیز لی جاتی ہے۔
اس طرح میں نے ہنستے کھیلتے پانچویں کلاس سیکنڈ پوزیشن سے پاس کر لی اور مجھے یقین ہی نا آیا کہ میں پوری کلاس میں سیکنڈ آیا ہوں اور رزلٹ والے دن میری والدہ نے مس انیلا کو خوشی میں پھولوں کا ہار پہنایا۔
واقعی مس انیلا پھولوں کے ہار کی ہی مستحق تھی کیونکہ وہ جانتی کہ قوم کے پھولوں کو کب کب اور کیسے کیسے پڑھانا،لکھانا اور سیکھانا ہے اور پھولوں کے ساتھ کس نرمی،شگفتگی اور اپنائیت سے پیش آنا ہے اور کیسے کیسے پھولوں کو تروتازہ اور صحت مند بنانا ہے، مس انیلا واقعی پھولوں کے باغ کی مالی تھی جنہیں ہر پھول کو کھلانا اور مہکانا آتا تھا اور اس پھولوں کے باغ کو سرسبز و شاداب رکھنا آتا تھا اور جنہیں پھولوں کو سینچنا اور جوڑنا اور کامیاب بنانا آتا تھا۔
میں چاہتا ہوں ہر سکول میں ہر ٹیچر مس انیلا کے جیسی ہو اور اگر ہر ٹیچر مس انیلا جیسی بھلے نا ہو تو کم سے کم ایک ٹیچر تو مس انیلا جیسی ہونی چاہیے جس کے آنے اور پڑھانے پے بچوں کے خوف و ڈر والے چہروں پے مسکراہٹ کھل اٹھے جو دیگر ٹیچرز کی بچوں پے ڈانٹ ڈپٹ اور سختی کی کو کچھ کم کر سکے اور پھولوں کو مرجھانے کی بجائے تروتازہ رکھ سکے۔
Tuesday, 7 May 2019
خدا اور سائنس
جو لوگ جانتے ہیں کہ سائنس کی آڑ میں پاکستان میں کئی پیجز ہیں،کئی گروپس ہیں جو مسلمانوں کو اسلام سے ہٹا کر سائنس کو خدا منوانے پے تلے ہوئے ہیں۔ انہیں Atheist بنانے کے مشن پے لگے ہوئے ہیں،کوئی ڈھکے چھپے تو کوئی سرعام سائنس کو خدا مانتے اور منواتے ہیں۔ اسی پیش نظر پوسٹ کے آخر میں سوال کیا۔ اور سوال کا پس منظر یہ تھا کہ ربّ رحمٰن اگر بیٹا دینا چاہے تو سائنس بیٹی پیدا کرنا چاہے تو بھی بیٹا ہی پیدا ہو گا، اور اگر ربّ رحمٰن بیٹی دینا چاہے اور سائنس بیٹا پیدا کرنے کے سو جتن کرلے تو بھی بیٹی ہی پیدا ہو گی۔ ٹھیک اسی طرح جب حضرت حکیم لقمان علیہ السلام نے اپنے کسی جسمانی درد یا مرض کی بنا پے جب دوا بنا کر کھائی تو آرام نا آیا، دوسری اور تیسری بار بھی جب دوا کھانے کے بعد بھی جب آرام نا آیا تو ربّ رحمٰن نے اپنے بندے سے فرمایا ائے لقمان تیری بنائی ہوئی دوا میں کوئی فرق نہیں ہے، پر میں نے وہ دوا تیرے حلق سے نیچے اترنے ہی نہیں دی تو پھر دوا کا اثر کیسے ہو گا اور پھر حضرت لقمان علیہ السلام کو سمجھ آیا کہ یہ زہانت،یہ عقل و شعور،یہ حکمت دانائی تب ہی کارگر ثابت ہوتی ہے جب تک انسان انسان رہتا ہے، خود کو انسان ہی سمجھتا ہے ناکہ خود کو ہی خدا تصور کرنے لگے اس بات پے جو اسکی ہے ہی نہیں، جو اللہ کی طرف سے اسے دی اور عطا کی گئی۔ وہاں ربّ رحمٰن نے حضرت لقمان کو بتایا،سمجھایا کہ لقمان علیہ السلام جب تک میں چاہوں میری مرضی میرا کُن فیکون تیری حکمت ودانائی میں شامل حال رہے گا تب تک تُو بھی اور تیری حکمت بھی کارگر اور کارآمد ثابت ہونگے اور جو گر میں نا چاہوں تو تُو بھی اور تیری حکمت و دانائی بھی دھری کی دھری رہ جائیں گے۔، اس لیے مجھ سے اور میرے رحم و کرم اور فضل سے جڑا رہ ناکہ میری ہی دی ہوئی عطا پے مجھ ہی سے غافل و لاپرواہ ہو جانا۔ مختصر یہ ہے کہ آپ کا ہنر،آپ کی کاریگری،آپ کی زہانت تب تک چلے گی جب تک آپ میں،میں، انا،تکبر اور غرور نا آنے پائے اور خود کو ہی سب کچھ نا خیال کرنے لگ جاؤ۔
انسان ترقی کرتا ہے، ترقی کرنا اس کا حق ہے، پھر وہ سائنس کی ترقی ہو یا جدید ٹیکنالوجی کی۔ ترقی کرنا چاہیے، پر جب وہ یا کوئی انسان یہ خیال اور گمان کرنے لگتا ہے کہ جی میں تو اب کوئی چیز اور شے بن گیا ہوں،مجھے خدا کی کی بھلا کیا ضرورت ہے، میں تو خود اپنا خدا ہوں،اور پھر وہ دوسروں کا بھی خدا بننے لگ جاتا ہے تب۔۔ ہاں تبھی ربّ رحمٰن اسے بتاتا ہے کہ ائے میرے بندے تجھے انسان بنایا تھا تو انسان تو بن نا سکا اور گمان کرنے لگا خدائی کا۔ پھر ربّ رحمٰن بندے کو اسکی اوقات پے لاتا اور اسکی اصل اوقات اسے دکھاتا ہے۔ کہ یہ ہے تو اور یہ ہے تیری اوقات۔
جس کی جیتی جاگتی زندہ مثال مصر میں فرعون کی لاش ہے، وہ بھی انسان ہو کر انسان تو با بن سکا مگر خدائی کا دعویٰ کر بیٹھا اور آج سالہا سال سے عبرت کا نشان بنے لیٹا ہوا ہے۔
مطلب جہاں ربّ رحمٰن کی مرضی چلنی ہے وہاں انسان کی مرضی نہیں چلے گی، نا چل سکتی ہے نا ہی کبھی چل پائے گی۔ ہاں انسان کی مرضی تب چلے گی جب وہ عاجزی و انکساری کے ساتھ ربّ رحمٰن کے حضور جھکے گا، سجدہ ریز ہو کر دعا اور التجا کرے گا تب ہی اسے اسکی مرضی دے دی جائے گی، اور پھر بھی ربّ رحمٰن کو جو منظور ہو گا ہو گا وہی۔
میں سائنس کو مانتا ہوں، ماننا چاہیے، ایک علم ہے، ایک عقل و شعور کی قسم ہے، اس سے فائدہ اٹھانے چاہیے، پر اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ آپ سائنس کو ہی خدا ماننے لگ جاؤ، سائنس کو ہی اپنا سب کچھ مان جان لو۔
سائنس نے اتنی ترقی کر ہی لی ہے کہ جب جو چاہے جیسے چاہے انسانوں اور حیوانوں کی جنس پیدا کر لیتی ہے۔ چلو مان لیا۔ پھر زندگی موت جو اللہ کی بنائی ہوئی ہے،سائنس اس میں آج تک ایسی ایجاد کیوں نہیں کر پائی کہ موت کو ہی موت دے دی جائے، اور ہمیشہ رہنے والی ایسی کوئی دوا،کوئی طریقہ،کوئی بھی بات پیدا،بنا اور ایجاد کر لی جائے کہ موت کبھی آئے ہی نا، اور چلو موت اگر آ بھی جائے تو اسے پھر سے سائنس کے تحت اس مردہ انسان کو زندہ کر لیا جائے چلو یہ ساری باتیں چھوڑو، سائنس اتنا ہی کر لے یا کر دکھائے کہ انسان کے بڑھاپے کو ہی روک کے دکھا دے تاکہ انسان جوان کا جوان ہی رہے،بڑھاپا کبھی نا آنے پائے۔
لیکن سائنس کی بھی ایک حد ہے،اسکی بھی ایک اوقات ہے،وہ بھی انسان کے جیسے مجبور اور لاچار ہے ربّ رحمٰن کے " کٰن فیکون " کے آگے۔ سائنس کا بھی ربّ رحمٰن کے " کُن" کے آگے بس نہیں چلتا، سائنس بھی "کُن" کی منتظر رہتی ہے۔ اور ربّ رحمٰن کے " کُن فیکون " کے آگے ماتھا اور گھٹنے ٹیک دیتی ہے۔
اسی لیے پہلی پوسٹ کے آخر میں کہا تھا کہ سائنس کو تسلیم کرنا ہو گا کہ جہاں پے سائنس ختم ہو جاتی ہے ،تھک ہار کر بیٹھ جاتی ہے وہیں سے،ہاں وہیں سے ہی ربّ رحمٰن اپنے "کُن فیکون " کی طاقت، معجزے اور کرشمے دکھاتا ہے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ سائنس کو سائنس ہی رہنے دو، سائنس کو اللہ عزوجل پے فوقیت و ترجیح مت دو، نعوذ باللہ من زالک سائنس نے اللہ کو پیدا نہیں کیا بلکہ میرے اللہ نے سائنس کو پیدا کیا،انسانوں کی بھلائی کے لیے، تاکہ وہ اس سے فائدہ حاصل کر سکے۔ پر کچھ انسانوں کی عقل اور مت ماری جاتی ہے کہ جس اللہ نے سائنس کو انسان کے فائدے کے لیے،انسان کی بھلائی اور خیر کے لیے بنایا اور پیدا کیا اسی اللہ کا شکر ادا کرنے کی بجائے سائنس کا شکر ادا کرنے اور سائنس کو ہی اپنا باپ اور خدا سمجھنے بیٹھ جاتے ہیں۔
جیسے خدا نے اپنی خدائی،معجزے،کرشمے اور قدرت دکھانے کی خاطر اور اپنے نا ماننے والے کفر و شرک کرنے والوں کو اپنا آپ منوانے کے لیے معجزے اور کرشمے سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بن باپ کے پیدا کر دکھایا تو کم اور بد عقل کفاروں نے ربّ رحمٰن پے ایمان لانے کی بجائے عیسیٰ علیہ السلام کو ہی خدا کا بیٹا ماننا شروع کر دیا، مطلب ایک چھوٹی جہالت سے نکل کر بڑی جہالت میں جا پڑنا۔
سٹیفن ہاکنگ جو بہت بڑا سائنسدان مانا جانا جاتا ہے،معذرت ہے نہیں تھا، اسکی سائنس بھی اسے ٹھیک نا کر پائی، اسکی سائنس اسے نئی زندگی نا دے پائی اور وہ بھی قدرت کے بنائے ہوئے قانون کے تحت ایک وقت مقررہ تک دنیا میں رہنے کے بعد موت کی آغوش میں منّوں مٹی تلے جا سویا۔
کہاں گیا سٹیفن اور کہاں گئی اسکی سائنس۔ دھری کی دھری رہ گئی نا، سٹیفن دنیا سے چلا گیا اور سائنس اسے روک بھی نا سکی بلکہ ٹک ٹکی باندھے سٹیفن کو جاتے اور دفن ہوتے دیکھتی رہ گئی۔
میں پھر کہہ رہا ہوں، میں سائنس کو مانتا ہوں مگر اس سے پہلے میں اللہ کو مانتا ہوں، اللہ کی قدرت اور اس کے کُن فیکون کو مانتا ہوں، میں سائنس پے ایمان رکھتا ہوں مگر اس سے پہلے اپنے اللہ عزوجل پے ایمان رکھتا ہوں،اسکی طاقت،معجزے اور کرشمے پے ایمان رکھتا ہوں اور یہ ایمان رکھتا ہوں کہ میرے اللہ بے دیگر باتوں کی طرح سائنس کو بھی انسان کی خیروبھلائی کے لیے پیدا کیا، تاکہ انسان اللہ کی بنائی ہوئی چیزوں اور باتوں سے فائدہ اٹھا کر اس کے حضور شکر گزار اور احسان مند رہے۔
اللہ ہی سب کچھ ہے، دنیا کی ہر اچھی،بھلی اور خیر کی بات اللہ ہی کی زات سے جڑی ہے، اسی نے ہر اچھی بھلی اور خیر و بھلائی اور فائدے کی بات کو پیدا اور تخلیق کیا تاکہ انسان دنیا کی زندگی میں اس سے فائدہ و نفع اٹھا سکے۔
خدارا ! سائنس سے فائدہ لو، اسے اپنا باپ یا خدا نا بناؤ۔
نوٹ: تحریر میں کوئی بھی دینی بات کے بیان کرنے میں کمی پیشی ہوئی تو اسکی تصحیح کر دے اور اللہ اس کمی پیشی کو معاف فرمائے یا سائنسی بات کے بیان کرنے میں کوئی کمی پیشی رہ گئی ہو تو سائنس اور سائنسدانوں سے معذرت۔