السلام علیکم،میں ایک لکھاری ہوں ایسا لکھاری جو ہر موضوعات پے سوچتا اور لکھتا ہے۔

Friday, 22 February 2019

موت کا مزا

ربّ رحمٰن فرماتا ہے! ہر نفس کو موت کا مزا چھکنا ہے جبکہ ربّ رحمٰن نے یہ نہیں کہا کہ تمہیں زندگی کا مزا چکھنا ہے،موت کا بھی بھلا کوئی مزا ہوگا، موت کا سن کر موت کی شکل و ہیبت اتنی بھیانک، ڈراونی اور خوفناک و خطرناک سی بن کے زہن پے ابھرتی ہے کہ انسان کانپ اور ڈر سا جاتا ہے،جسم میں تھرتھری اور جھرجھری سی آ جاتی ہے تو پھر ایسی بدمزہ سی موت کو ربّ رحمٰن نے اس انداز سے کیوں بیان فرمایا کہ " ہر نفس کو موت کا " مزا " چھکنا ہے،بھلا موت کا بھی کوئی مزا ہوتا ہے، بھلا موت بھی اپنے اندر کوئی مزا رکھتی ہے۔۔۔ہرگز نہیں۔۔۔موت تو سارے مزوں کو کرکرا کرکے رکھ دیتی ہے۔۔سارا مزا خراب کرکے رکھ دیتی ہے۔۔ہاں۔۔۔اسی لیے۔۔۔اس ہی لیے تو ربّ رحمٰن نے انسان سے اس انداز میں کہا کہ "ہر نفس کو موت کا زائقہ چکھنا ہے"، یہاں پر ربّ رحمٰن خاص کر ان انسانوں سے خاطب ہے جو دنیا میں ہر ہر اور ہر ہر حرام کام کا مزا چکھ چکے ہوتے ہیں اور حرام کاموں میں ہر دن کچھ نیا کرکے اور بڑھ چڑھ کے حرام کا مزا چکھنے کے خواہشمند رہتے ہیں۔۔جو دنیا کے کھیل کود اور تماشے میں سرگرم ہیں۔۔جو دوسروں کا جینا عذاب بنا دیتے ہیں،جو دوسروں کا مال متاع لوٹنے کھسوٹنے میں مشغول رہتے ہیں۔۔جو سالہا سال مظلوموں کے ساتھ ظلم و زیادتی سے پیش آتے رہتے ہیں۔۔جو یتیموں مسکینوں کے مال و دولت کو ہڑپ کرتے رہتے ہیں۔۔جو ناحق کسی کے جان و مال کو نقصان پہنچاتے رہتے ہیں۔۔جو زرا زرا سی اور معمولی سی بات پے سیخ پا اور آپے سے باہر ہو کے مار دھاڑ اور شروفساد کرتے اور حقیر سی بات پے قتل و غارت کا بازار گرم کرتے رہتے ہیں۔۔۔جو اپنے مال و دولت کے نشے میں دھت رہ کر انسان کو انسان نہیں سمجھتے ہیں۔۔ہاں انہی کے لیے۔۔۔ہاں ایسے ہی انسانوں کے لیے تو ربّ رحمٰن فرماتا ہے کہ " ہر نفس کو موت کا زائقہ چکھنا ہے " کہ ائے حرام کاموں میں گِھرے پڑے رہنے اور ان حرام کاموں کا مزا چکھنے والوں۔۔ سنو۔۔" اب زرا موت کا مزا بھی چکھ لو"۔۔ربّ رحمٰن یہاں پے حرام کاموں میں مصروف عمل انسانوں کو ڈرانے، تنبیح کرنے اور یاد دلانے کے لیے فرما رہا ہے کہ " ہر نفس کو موت کا زائقہ چکھنا ہے" اور موت کا مزا چکھنے کے بعد تم سے ہر ہر اس اس مزے کا پورا پورا اور ٹھیک ٹھیک حساب لیا جائے گا جن مزوں کے نشے میں تم نے ساری زندگی گزار دی۔

اس سے یہ بات بھی پتا چلتی اور ثابت ہوتی ہے کہ زندگی میں انسان کو زندگی کا نہیں موت کا مزا چھکتے رہنا پڑے گا۔۔۔اسے زندگی میں رہتے ہوئے بھی زندگی نہیں موت ہی ملا کرے گی۔۔اسے جیتے جی بھی بار بار مرتے رہنا ہو گا۔۔۔یہی اس کا امتحان اور اسکی آزمائش ہو گی۔۔۔کبھی بھوک پیاس سے تو کبھی خوف و ڈر سے مرتے رہنا ہو گا۔۔۔اب ضروری تو نہیں کہ سانسیں رک اور تھم جانے کا نام ہی صرف موت ہے۔۔کسی بہت پیارے کے چلے یا بچھڑ جانے پے بھی تو ہم پے موت جیسی کیفیت طاری ہو جاتی ہے،تب بھی تو سانیسیں رکنے اور تھمنے سی لگتی ہیں، کسی بہت اپنے کو دکھ درد میں دیکھ کر بھی تو ہم موت کی گہری کھائی میں ڈوب اور کھو سے جاتے ہیں،تب بھی تو جسم بے جان و بے سدھ اور ساکت سا ہو کے رہ جاتا ہے، دماغ پھٹنے اور دل بیٹھنے سا لگتا ہے۔۔۔پر۔۔پر انسان زندگی میں زندگی کا مزا چھکنے کے پیچھے بھاگتا رہتا ہے کہ شائد یہاں نہیں تو وہاں، اس جگہ نا سہی تو اُس جگہ زندگی مل جائے گی۔۔پر ربّ رحمٰن کی بات ہی نے سچ ثابت ہو کے رہنا اور سچ ثابت ہوتے رہنا ہے اور انسان نے جیتے جی بار بار اور کئی کئی بار موت کا مزا چکھ چکنے کے بعد بھی بار بار موت کا مزا چکھتے ہی رہنا ہے، اسوقت تک جبتک اس کی سانسوں نے چلتے اور دل کی دھڑکن نے دھڑکتے رہنا ہے ۔۔۔ اس ساری بات کا نچوڑ اور حاصل کلام یہ ہے کہ جو انسان اس زندگی میں بار بار مرتا رہا، جو اپنی نفسانی و حیوانی و شیطانی خواہشات کو بار بار مارتا رہا وہی آخرت کی ہمیشہ و دائمی زندگی کو جیئے چلا جائے گا اور جس نے اپنے نفس کی غلامی کرتے ہوئے اپنی نفسانی،حیوانی و شیطانی خواہشات کو پورا کرکے اسے زندہ رکھا وہی آخرت کی ہمیشہ و دائمی زندگی میں بار بار اور کئی کئی بار مرتا چلا جائے گا۔

وقاص بشیر۔

Wednesday, 20 February 2019

بندہ و بندر

بندہ اور بندر میں صرف ایک حرف کا فرق ہے بندہ سے ہ ہٹا کر ر لگا دیا جائے تو لفظ کیا سے کیا بن جاتا ہے،اب میں بات اس طرح بھی شروع کر سکتا تھا بندر اور بندہ یعنی پہلے بندر اور بعد میں بندہ لکھتا لیکن یہ غلط ہو جاتا کیونکہ بندہ پہلے اور بعد میں بندر ہے۔

اب جو بندہ انسانیت پے چلتا رہتا ہے وہ تو بندہ یعنی انسان کہلاتا ہے اور جو انسانیت سے ہٹ جاتا اور اسے چھوڑ دیتا ہے تو وہ بندر یعنی حیوان کہلاتا ہے آپ نے کیا کہلوانا ہے یہ آپ نے اپنی گفتار و کردار سے طے کرنا ہے۔

وقاص

Saturday, 16 February 2019

باپ یا شوہر کا نام

یہ ایک عام اور معروف بات ہے کہ لڑکی کے نکاح کے بعد اسکے نام کے ساتھ اسکے شوہر کا نام لگ جاتا ہے، اور لڑکی بول چال اور لکھت پڑھت میں اپنے نام کو شوہر کے نام سے جوڑتی ہے۔ مثال کے طور پے ردا کاشف، ہادیہ عثمان وغیرہ وغیرہ۔

پر دوسری طرف چند ایک جگہوں پے کچھ دینی لوگوں کو کہتے سنا اور کچھ جگہوں پے پڑھنے کو ملا کہ عورت کو نکاح کے بعد بھی اپنے باپ کا نام ہی اپنے نام کے ساتھ جوڑنا چاہیے ناکہ شوہر کے نام کو اپنے نام سے جوڑنا چاہیے اور جو عورت اپنے شوہر کے نام کو اپنے نام سے جوڑتی ہے تو وہ گنہگار بنتی ہے اور آخرت میں اس سے پوچھا جائے گا کہ اپنے باپ کے نام کی جگہ پے شوہر کا نام کیوں لگایا؟

اب گر کوئی اس پہلو پے دینی و دنیاوی نقطہ نظر سے مستند اور دلائل کے ساتھ جواب دے تو بہت سے لوگوں کو اس مسئلے کے سمجھنے میں آسانی ہو جائے گی کہ آیا کہ عورت کو باپ کا نام ہی اپنے نام کے ساتھ جوڑے رکھنا چاہیے یا پھر نکاح کے بعد شوہر کے نام کے ساتھ اپنے نام کو جوڑنا چاہیے۔

Thursday, 14 February 2019

نیکی

دوسروں کا گھر بچاتے بچاتے اپنا گھر اکثر بکھر کر تباہ اور برباد ہو جایا کرتا ہے اور جن کا گھر بچایا ہوتا ہے انہیں ہمارے بکھرے گھر کو نا تو کوئی فکر ہوتی ہے اور ناہی انہیں ہماری بربادی کا زرا برابر احساس تک ہوتا ہے تبھی تو کسی دانا نے کیا خوب کہا نیکی کر دریا میں ڈال، پر کسی دانا نے یہ بھی کہا ہے کہ نیکی کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔

جس خالق و مالک نے نیکی اور بدی کو تخلیق کیا ہے وہ اپنے بندے کی بدی پے اسے سزا دے یا نا دے پر اسکی نیکی پے اسے جزا ضرور دیتا ہے اب وہ الگ بات ہے کہ مالِک وہ جزا اسے اِس جہاں دے یا پھر اُس جہاں میں دے پر جزا ملتی ضرور ہے۔

سوال

پتا ہے کہ جب ہم اپنے زہن میں کسی ابھرتے،چبھتے اور الجھے ہوئے سوال کو کسی بھری محفل میں اٹھاتے ہیں تو محفل میں سوال کے اندازِ بیان پے ہی کچھ لوگ بہت کچھ سوچ اور سمجھ کر واہ واہ اور عش عش کر اٹھتے ہیں، کیا بات کہہ دی صاحب، بہت اعلی، واہ کیا بات ہے، اجی سوال میں ہی جواب کہہ گئے آپ تو،ارے واہ واہ، کیا کہنے، واہ بہت عمدہ وغیرہ وغیرہ۔۔اور کچھ ناسمجھ کچھ بھی نا سمجھتے ہوئے واہ واہ کرنے کی بجائے لعن تعن اور واویلا کرنے لگتے ہیں کہ یہ کیا ہے، کیسی بات ہے، یہ کیا بولا اور یہ کیا کہہ دیا ، کیسا عجیب سوال ہے، بھلا یہ بھی کوئی سوال ہے، بھلا یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے وغیرہ وغیرہ۔۔پر پتا ہے سائل واہ واہ اور واویلا کرنے والوں کو نظر انداز کرکے اپنی سوالیہ نظروں سے بھری محفل میں ہر شخص کے چہرے پے باری باری نظریں گھوماتا اور گاڑھتا رہتا ہے اور پھر۔۔۔اور پھر۔۔۔جب اسے جواب نہیں ملتا تو وہ اپنا سوال اور اپنا سا منہ لے کر چپ ہو کر رہ جاتا ہے کہ سوال کا جواب مانگا تھا پر سوال پے ہی واہ واہ کرنا شروع ہو گئے کہ میں نے پوچھا کیا اور مجھے جواب کیا ملا۔۔اور سائل کا سوال ،سوال ہی رہ جاتا ہے۔۔۔پھر اسی بھری محفل میں سے کوئی ایک۔۔۔ہاں کوئی ایک سوال کو اور سوال کے اندر کی چھپی کہانی اور بے چینی کو جان اور بھانپ کر سوال کرنے والے کو تسلی بخش،لاجواب اور مطمئن کر دینے والا جواب دیتا ہے اور سائل کو جب اپنے سوال کا جب جواب مل جاتا ہے تو ایسے میں سائل بھری محفل کو چھوڑ کر اس ایک انسان کو اپنے اور خود اس کے قریب ہو جاتا ہے۔۔تاکہ آئندہ بھری محفل میں جانے،وہاں سوال اٹھانے اور ہر ایک چہرے پے اپنا جواب ڈھونڈنے اور تلاشنے کی بجائے اس ایک اکیلے انسان کی محفل میں بیٹھ کر بھری محفل سے کچھ زیادہ سیکھا،جانا،پرکھا اور سمجھا جائے۔۔۔اور پتا ہے ہمارے ابھرتے،چبھتے اور الجھے ہوئے ہر سوالوں کا جواب دینا والا تن تنہا اور اکیلا انسان ہی ہمارے لیے بھری محفل کا مقام رکھتا ہے اور ہم ہر پل ہر وقت اور ہر لمحہ اسی کی محفل میں اٹھنا بیٹھنا،جاگنا اور سونا چاہتے ہیں اور پتا ہے ایسا انسان کسی کو بن مانگی دعا کے موافق مل جایا کرتا ہے اور کسی کو بس بھری محفلوں کی چھان چھانٹتے ہوئے عمر گزر جایا کرتی ہے۔

Monday, 4 February 2019

محبوب قدموں میں

جو جعلی عامل،پیرو فقیر کہتے ہیں "کہ ایکدن میں محبوب آپ کے قدموں میں ہو گا" اور جو نام نہاد جاہل و گنوار عاشق محبوب کو قدموں میں گرانا چاہتے ہیں درحقیقت انہیں خود ٹھڈوں کی ضرورت ہوتی ہے" کیونکہ محبوب کو قدموں میں نہیں بلکہ عزت سے دل میں بٹھایا اور بسایا جاتا ہے۔ 

جسم و جان

انسان جب اندر سے ہی اداس ہو باہر سے کیسے خوش دِکھ سکتا ہے اور جب اندر سے خوش ہو تو باہر کیسے خوشی کو چھپا سکتا ہے، ساری بات اندر کی ہے، دل کہاں ہوتا ہے اندر نا، اور دل بند ہو جائے تو دماغ بھی کام کرنا چھوڑ دیتا ہے اور روح کہاں ہوتی ہے، اندر نا، اور جب روح نکل جاتی ہے تو باہر بت بے سدھ پڑا ہوتا ہے۔انسان باہر کو صاف کرتا اور دھوتا رہتا ہے، باہر کے بت کو چمکاتا نکھارتا سنوارتا رہتا ہے اور اندر۔۔۔اندر جلن،حسد،کینہ بغض ،لالچ و حوس کے کوڑا کِرکٹ اور اسکی میل کچیل کو جمع کرتا ہے اور باہر کا بت جس پے اتنی محنت کی تھی وہ بے جان ہو کے رہ جاتا ہے اور اندر یعنی جسے بھولے اور چھوڑے رکھا وہ غلیظ ترین اور بدترین صورت میں اپنے مالک کے سامنے شرمندگی و ندامت اور پچھتاوے کے ساتھ جا کھڑی ہوتی ہے۔

اپنے اندر دل میں جھانکو، اپنی اندر کو پہچانو اور اپنی روح اس باہر والے بت کے اندر قید ہے اسے صاف و شفاف رکھو تاکہ جب یہ روح اپنے خالق و مالک کے حضور پیش ہو تو ندامت و شرمندگی کی بجائے اطمنان اور سکون کی حالت میں کھڑی ہو۔

Sunday, 3 February 2019

نیند

جب جس رات نیند نا آ رہی ہو اس رات خالق کا زکروفکر کر لیں یا پھر اسی خالق کی مخلوق کی خدمت کر لیں۔ اس کے بعد وہ نیند آئے گی جو پہلے کبھی نہیں آئی ہو گی۔

دکھ

دکھ تو تب ہوتا ہے کہ جب انسان دوسرے انسان سے انسانیت سے پیش آنے کی بجائے حیوانیت سے پیش آتا ہے۔ حیوانوں کی دنیا میں حیوان جبکہ انسانوں کی دنیا میں انسان نہیں ملتے۔

Saturday, 2 February 2019

زندگی

ہر بندہ دوسرے کو مار کر خود جینا چاہتا ہے۔۔پر۔۔پتا ہے کہ انسان کون ہے۔۔جو خود مر کر دوسروں کو زندگی دے کر جینا سیکھا جاتا ہے۔

نیت

نیت جب صاف ہو نا تو خراب راستے بھی صاف ہو جایا کرتے ہیں اور جب نیت ہی خراب ہو تو صاف راستے بھی خراب ہو جایا کرتے ہیں۔