ربّ رحمٰن فرماتا ہے! ہر نفس کو موت کا مزا چھکنا ہے جبکہ ربّ رحمٰن نے یہ نہیں کہا کہ تمہیں زندگی کا مزا چکھنا ہے،موت کا بھی بھلا کوئی مزا ہوگا، موت کا سن کر موت کی شکل و ہیبت اتنی بھیانک، ڈراونی اور خوفناک و خطرناک سی بن کے زہن پے ابھرتی ہے کہ انسان کانپ اور ڈر سا جاتا ہے،جسم میں تھرتھری اور جھرجھری سی آ جاتی ہے تو پھر ایسی بدمزہ سی موت کو ربّ رحمٰن نے اس انداز سے کیوں بیان فرمایا کہ " ہر نفس کو موت کا " مزا " چھکنا ہے،بھلا موت کا بھی کوئی مزا ہوتا ہے، بھلا موت بھی اپنے اندر کوئی مزا رکھتی ہے۔۔۔ہرگز نہیں۔۔۔موت تو سارے مزوں کو کرکرا کرکے رکھ دیتی ہے۔۔سارا مزا خراب کرکے رکھ دیتی ہے۔۔ہاں۔۔۔اسی لیے۔۔۔اس ہی لیے تو ربّ رحمٰن نے انسان سے اس انداز میں کہا کہ "ہر نفس کو موت کا زائقہ چکھنا ہے"، یہاں پر ربّ رحمٰن خاص کر ان انسانوں سے خاطب ہے جو دنیا میں ہر ہر اور ہر ہر حرام کام کا مزا چکھ چکے ہوتے ہیں اور حرام کاموں میں ہر دن کچھ نیا کرکے اور بڑھ چڑھ کے حرام کا مزا چکھنے کے خواہشمند رہتے ہیں۔۔جو دنیا کے کھیل کود اور تماشے میں سرگرم ہیں۔۔جو دوسروں کا جینا عذاب بنا دیتے ہیں،جو دوسروں کا مال متاع لوٹنے کھسوٹنے میں مشغول رہتے ہیں۔۔جو سالہا سال مظلوموں کے ساتھ ظلم و زیادتی سے پیش آتے رہتے ہیں۔۔جو یتیموں مسکینوں کے مال و دولت کو ہڑپ کرتے رہتے ہیں۔۔جو ناحق کسی کے جان و مال کو نقصان پہنچاتے رہتے ہیں۔۔جو زرا زرا سی اور معمولی سی بات پے سیخ پا اور آپے سے باہر ہو کے مار دھاڑ اور شروفساد کرتے اور حقیر سی بات پے قتل و غارت کا بازار گرم کرتے رہتے ہیں۔۔۔جو اپنے مال و دولت کے نشے میں دھت رہ کر انسان کو انسان نہیں سمجھتے ہیں۔۔ہاں انہی کے لیے۔۔۔ہاں ایسے ہی انسانوں کے لیے تو ربّ رحمٰن فرماتا ہے کہ " ہر نفس کو موت کا زائقہ چکھنا ہے " کہ ائے حرام کاموں میں گِھرے پڑے رہنے اور ان حرام کاموں کا مزا چکھنے والوں۔۔ سنو۔۔" اب زرا موت کا مزا بھی چکھ لو"۔۔ربّ رحمٰن یہاں پے حرام کاموں میں مصروف عمل انسانوں کو ڈرانے، تنبیح کرنے اور یاد دلانے کے لیے فرما رہا ہے کہ " ہر نفس کو موت کا زائقہ چکھنا ہے" اور موت کا مزا چکھنے کے بعد تم سے ہر ہر اس اس مزے کا پورا پورا اور ٹھیک ٹھیک حساب لیا جائے گا جن مزوں کے نشے میں تم نے ساری زندگی گزار دی۔
اس سے یہ بات بھی پتا چلتی اور ثابت ہوتی ہے کہ زندگی میں انسان کو زندگی کا نہیں موت کا مزا چھکتے رہنا پڑے گا۔۔۔اسے زندگی میں رہتے ہوئے بھی زندگی نہیں موت ہی ملا کرے گی۔۔اسے جیتے جی بھی بار بار مرتے رہنا ہو گا۔۔۔یہی اس کا امتحان اور اسکی آزمائش ہو گی۔۔۔کبھی بھوک پیاس سے تو کبھی خوف و ڈر سے مرتے رہنا ہو گا۔۔۔اب ضروری تو نہیں کہ سانسیں رک اور تھم جانے کا نام ہی صرف موت ہے۔۔کسی بہت پیارے کے چلے یا بچھڑ جانے پے بھی تو ہم پے موت جیسی کیفیت طاری ہو جاتی ہے،تب بھی تو سانیسیں رکنے اور تھمنے سی لگتی ہیں، کسی بہت اپنے کو دکھ درد میں دیکھ کر بھی تو ہم موت کی گہری کھائی میں ڈوب اور کھو سے جاتے ہیں،تب بھی تو جسم بے جان و بے سدھ اور ساکت سا ہو کے رہ جاتا ہے، دماغ پھٹنے اور دل بیٹھنے سا لگتا ہے۔۔۔پر۔۔پر انسان زندگی میں زندگی کا مزا چھکنے کے پیچھے بھاگتا رہتا ہے کہ شائد یہاں نہیں تو وہاں، اس جگہ نا سہی تو اُس جگہ زندگی مل جائے گی۔۔پر ربّ رحمٰن کی بات ہی نے سچ ثابت ہو کے رہنا اور سچ ثابت ہوتے رہنا ہے اور انسان نے جیتے جی بار بار اور کئی کئی بار موت کا مزا چکھ چکنے کے بعد بھی بار بار موت کا مزا چکھتے ہی رہنا ہے، اسوقت تک جبتک اس کی سانسوں نے چلتے اور دل کی دھڑکن نے دھڑکتے رہنا ہے ۔۔۔ اس ساری بات کا نچوڑ اور حاصل کلام یہ ہے کہ جو انسان اس زندگی میں بار بار مرتا رہا، جو اپنی نفسانی و حیوانی و شیطانی خواہشات کو بار بار مارتا رہا وہی آخرت کی ہمیشہ و دائمی زندگی کو جیئے چلا جائے گا اور جس نے اپنے نفس کی غلامی کرتے ہوئے اپنی نفسانی،حیوانی و شیطانی خواہشات کو پورا کرکے اسے زندہ رکھا وہی آخرت کی ہمیشہ و دائمی زندگی میں بار بار اور کئی کئی بار مرتا چلا جائے گا۔
وقاص بشیر۔