السلام علیکم،میں ایک لکھاری ہوں ایسا لکھاری جو ہر موضوعات پے سوچتا اور لکھتا ہے۔

Monday, 26 April 2021

کچھوا ‏اور ‏خرگوش

کچھوا اور خرگوش

کی کہانی تو یقیناً ہم سب نے ہی بچپن سے ہی پڑھ اور سن رکھی ہو گی۔۔پر کیا آپ جانتے ہیں کہ ایک خرگوش کی حد سے حد عمر کتنی ہوتی ہے؟ جنگلی خرگوش کی عمر کم سے کم 8 سے 9 جبکہ گھریلو یا پالتو خرگوش کی عمر حد سے حد 12 سال تک ہوتی ہے۔۔اور کیا آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ ایک جنگلی یا پالتو کچھوے کی عمر کتنی ہوتی ہے؟ کم سے کم 80 سے 100 اور زیادہ سے زیادہ 150 سال تک ہوتی ہے۔

وکی پیڈیا کے مطابق بھارت میں ایک ایسا  کچھوا بھی پایا جاتا تھا جس کی عمر 255 سال تھی اور اس کا وزن اس کی عمر سے پانچ کلو کم یعنی 250 کلو تھا، جس کا نام بھارت کی سنسکرت زبان میں ادھ ویتہ Addwaita تھا جس کے معنی The One & Only کے ہیں یعنی اپنے آپ میں یکتا ہونا، جو Al dabra Giant Tortoise کی نسل سے تھا الدبرا کچھوے دنیا میں سب سے بڑے اور وزنی کچھوے جانے اور مانے جاتے ہیں، ادھ ویتہ Addwaita کچھوا جو سنہ 1750 سے لے کر سنہ 2006 کے مارچ کی 22 تاریخ تک زندہ رہا اور وکی پیڈیا ہی کہتا ہے کہ Believed to be the oldest terrestrial animal in the world, if verified.

کہ اگر اس بات کی تصدیق کی جائے تو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ زمین پے پائے جانے والے قدیم ترین جانوروں میں Addwaita ان میں سے ایک ہے۔

ہم کچھوے کی زیادہ سے زیادہ 150 سال جینے والی بات کو چھوڑ کر اس کے کم سے کم جینے والی عمر 80 سال کی بات کرتے ہیں اور وکی پیڈیا کہتا ہے کہ Tortoise are placid and very slow moving, with an average walking speed of 0.2–0.5 km/h کہ کچھوے سست رفتار اور بہت آہستہ چلتے ہیں ، جن کی چلنے کی اوسط رفتار 0.2-0.5 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔

اس لحاظ سے خرگوش پے تحقیق کرنے والی ایک ویب سائیڈ کے مطابق A rabbit can run at speeds of up to 35 mph (56 km/h). Some breeds of wild hare can run even faster – the jackrabbit can reach speeds of 45 mph (72 km/h). Domestic bunnies can run faster than humans کہ ایک خرگوش 35 میل فی گھنٹہ (56 کلو میٹر فی گھنٹہ) کی رفتار سے چل سکتا ہے۔ جنگلی خرگوش کی کچھ نسلیں اس سے بھی زیادہ تیزی سے چل سکتی ہیں، جیک ریبٹ 45 میل فی گھنٹہ (72 کلومیٹر فی گھنٹہ) کی رفتار تک پہنچ سکتا ہے۔  گھریلو خرگوش انسانوں سے تیز چل سکتے ہیں۔

یعنی کچھوا اور خرگوش کا موازنہ بے تکہ اور بے جوڑ سا ہے مگر اس کے باوجود بھی In the race of life, the tortoise beats the hare every time کہ زندگی کی ریس میں کچھوا ہمیشہ خرگوش کو مات دے دیا کرتا ہے۔

کچھوے اور خرگوش کی ریس میں آخر خرگوش کیوں ہار جاتا ہے جبکہ کچھوا جیت جاتا ہے تو دراصل خرگوش کے پاس پھرتی اور تیز رفتاری تو ہوتی ہے پر اس کے اندر مستقل مزاجی نہیں ہوتی جس کی وجہ سے وہ تھوڑا سا دوڑنے کے بعد یا تو سستانے لگتا ہے یا ادھر اُدھر کی چیزوں کو دیکھنے اور ان میں بھٹکنے لگتا ہے جبکہ کچھوا بھلے سست رفتار سہی مگر وہ مستقل مزاج اور ناک کی سیدھ میں چلتا رہتا ہے جس کی بدولت وہ سست ہونے کے باوجود بھی آخر کار اپنی منزل پے جا پہنچتا ہے۔

کیا کبھی کسی نے یہ غور و فکر کیا کہ آخر بچپن میں کچھوے اور خرگوش کی کہانی کو کیوں نصاب کی کتابوں میں شامل کیا اور پڑھایا جاتا ہے؟ یقیناً اسی لیے کہ گر تم کچھوے کی رفتار سے بھی مگر مستقل مزاجی سے چل رہے ہو تو یقین رکھو کہ تم ہی جیتو گے مگر افسوس ہم نے اسے بچوں کی کھیل کود کی کہانی کے طور پے پڑھ تو لیا مگر اس سے سیکھنے والا اصل سبق نہ سیکھا۔

تم بھی اگر سیدھے سادے، معصوم اور شریف النفس انسان ہونے کی وجہ سے اس چالاک، مکار، ہوشیار اور تیز طرار دنیا میں اور زندگی کی ریس میں پیچھے رہ گئے ہو، کچھوے کی چال چلتے ہو، کچھوے کی طرح سوچتے اور پھر کچھوے کی طرح ہی اس پے عمل کرتے ہو تو گھبرانے یا پریشان ہونے کی بالکل اور قطعی ضرورت نہیں ہے اور جہاں خرگوش کی سی چال چلتے ہوئے ایک انسان جو 18 سے 25 یا حد سے حد 30 سے 35 سال کی عمر میں گر سب کچھ بن کے سب کچھ نہیں بھی پا جاتا پر بہت کچھ بن کے بہت کچھ حاصل کر لیتا ہے تو یہ مت بھولو کہ خرگوش کی مختصر سی زندگی کی طرح قدرت نے اس انسان کی خوشیاں اور زندگی بھی مختصر سی لکھ رکھی ہوتی ہے جہاں اس نے مختصر عرصے میں ترقی و خوشحالی پائی ہوتی ہے وہیں کسی بڑے سانحے یا حادثے کا شکار ہو کے اپنی ترقی و خوشحالی سے یا پھر بعض دفعہ 35 سے 40 یا 45 سال کی عمر میں اپنی زندگی سے ہی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اور بعض دفعہ بہت سے لوگ کچھوے کی سی چال چلتے چلتے دنیا میں بھلے بہت دیر سے چلنا اور جینا سیکھتے ہیں اور پھر کچھوے کی ہی طرح ایک دن زندگی کی ریس جیت جاتے ہیں اور ایک دن زندگی سے قدرے اور خاصے مطمئن سے نظر آتے ہیں اور پھر  لمبے ریس کے گھوڑے کی طرح ایک لمبی عمر جیتے اور ہر وہ ایک خوشی، سکھ اور چین و آرام پا اور حاصل کر لیتے ہیں جس کے بارے ماضی میں کبھی سوچا یا خواب دیکھا کرتے تھے۔

انگریزی کی بڑی مشہور کہاوت ہے کہ Great things always take time کہ عظیم کام ہمیشہ وقت لیتے ہیں۔

تو بس وقت کے ساتھ خود کو ڈھالتے ہوئے انتھک محنت،مشقت اور لگن سے کچھوے کی طرح چلتے اور بڑھتے رہو اور سب سے بڑھ کر اپنے خالق و مالک پے یقینِ کامل اور مکمل بھروسہ رکھو کہ وہ تمہیں ایکدن ضرور نوازے گا کہ تم خوش ہو جاؤ گے اور آخر کار ایک دن منزلیں تمہارے قدم ضرور چومیں گی۔

فرمانِ اقبال رحمتہ اللہ ہے
ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے، امیدِ بہار رکھ۔

وقاص
#insaanorinsaaniyat

No comments:

Post a Comment