عزت و احترام اور دعا
ہم کسی عام سے عام انسان کو بھی جب عزت و احترام سے اس کا نام لے کر پکارتے، آپ جناب کر کے مخاتب کرتے ہیں تو وہ انسان پھولے نہیں سماتا کہ مجھے کتنی اہمیت اور عزت و احترام دیا جا رہا ہے۔۔اور وہ شخص خود کو آپ کو مقروض سمجھنے لگتا ہے۔۔اور چاہتا ہے کہ عزت و احترام کرنے والے کی ہر لحاظ سے خوب عزت و احترام سے نوازہ اور اس کی خوب خاطر تواضع کی جائے۔۔جتنی عزت اس نے آپ کی، کی ہے اس سے زیادہ آپ اس انسان کی عزت و تکریم کرنا چاہتے ہیں۔۔
آپ اگر عرب ممالک میں رہیں ہوں یا کبھی عربی خبریں سنی ہوں تو ملک کے بادشاہ، وزیر مشیر یا چھوٹے سے چھوٹے حکومتی عہدہ رکھنے والے کو بھی اس کے عہدے کے مطابق عزت و احترام کے ساتھ اس کا نام لیا اور پکارا جاتا ہے جیسے صاحب السمو، His Highness صاحب الملکی، Royal Highness صاحب السمو رئیس الدولة royal Highness Mr President صاحب السمو الشیخ فلاں فلاں نام لے کر پکارا جاتا ہے۔۔
حرمین شریفین کے جتنے ، قاری اور حافظ ہیں، امام کعبہ و امام مسجد النبوی ہیں ان سب کو ان کے حساب سے عزت و تکریم دی جاتی ہے، جیسے قاری الشیخ امام الکعبہ، قاری الشیخ امام حرم المکی، قاری الشیخ امام المسجد النبوی وغیرہ وغیرہ۔۔
پھر ہم اپنے معاشرے میں دیکھ لیں کہ استاد، معلم کی بڑی عزت کی جاتی ہے۔۔استاد کو عزت و احترام کی نظر سے روحانی والد کا مقام و درجہ دیا گیا ہے۔۔۔عربی میں بھی استاد کو یا استاذ کہہ کر بڑے عزت سے پکارا جاتا ہے۔۔
اللہ۔۔۔جو تمام بادشاہوں کا بادشاہ ہے، جو تمام قاری، حافظ ، شیخ، مفتیوں اور عالموں کا اللہ ہے، جو تمام استادوں کا استاد ہے جو مکی و مدنی اماموں کا امام ہے جو دو جہانوں کا تن تنہا اور اکیلا وارث ہے اور اُس اُس جہاں کا بھی تخلیق کار اور وارث ہے جس کا ہمیں علم تک بھی نہیں ہے۔۔جو ساری عزتوں کا اصل مستحق و حقدار ہے، ہاں وہی اللہ ہی ساری کی ساری عزت و تکریم کا اصل مستحق و حقدار ہے جو تمام مخلوقات کا اکیلا تخلیق کار و پالنہار ہے، ساری عبادتیں اسی واحد لا شریک لا کے لیے ہیں۔۔۔
تو جب ہم اللہ سے دعائیں، التجائیں، منتیں، مرادیں اور حاجات مانگتے ہیں تب ہمیں اس بات کا خاص الخاص دھیان رکھنا اور خاص اہتمام کرکے دعا مانگنا چاہیے کہ ہم دعا کی ابتدا اللہ کی تعریف سے شروع کریں ناکہ سیدھا اپنے مطلب اور مدعے کی دعا مانگنا شروع کر دیں اور دعا میں اللہ کو اس کے بہترین ناموں، اس کی بہترین خوبیوں اور بہترین صفات سے یاد کریں۔۔اللہ کو اس کے 100 ناموں سے یاد کریں۔۔اس کی بیشمار تعریف و حمد و ثنا بیان کریں۔۔۔جیسے اللہ کو اللہ ربّ العزت کہیں، فقط ربّ کہنے کی بجائے ربّ رحمٰن کہیں، ربّ رحیم، ربّ کریم، ربّ عظیم، ربّ العالمین، ربّ العرش العظیم کہیں۔۔ربّ غفور رحیم کہیں اور جتنا مرضی اور جس طرح سے چاہیں اپنے انداز سے اللہ ربّ العزت کو بہترین سے بہترین ناموں اور بہترین صفات سے جی بھر کر ربّ رحمٰن کو پکاریں اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پے درود و سلام بھیجیں۔۔۔ کیونکہ اللہ ربّ العزت کو راضی و خوش کرنا ہے تو اللہ کے محبوب سے محبت کرنا ہو گی۔۔رسول کی آل اولاد سے پیار کرنا ہو گا، آپ کے صحابہ کرام کی عزت و تکریم کرنا ہو گی۔۔درود پاک میں آل اولاد کو لازمی شامل کرنا ہو گا کہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بجائے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پڑھنا ہو گا۔۔دین اسلام میں ہے کہ وہ دعا زمین اور آسمان کے درمیان معلق یعنی لٹکی رہتی ہے جس دعا میں درود نہ پڑھا جائے۔۔
تو جب آپ اور میں اس طریقے اور اسلوب اور انداز سے ربّ رحمٰن سے ہم کلام اور مخاطب ہونگے تو ربّ رحمٰن بھی آپ پے اپنا خاص رحم و کرم فرمائے گا اور خالق و مالک کا آپ کے دعا مانگنے کا طریقہ و انداز پسند آ گیا تو وہ ربّ رحمٰن آپ کی مانگی گئی دعا سے آپ کی خالی جھولی کو بھی بھر بھر دے گا۔۔
ربّ رحمٰن! سے جب بھی دعا مانگیں تو ایسے مانگیں جیسا ایک منگتا، فقیر اور بھکاری کسی دنیاوی مالدار سے مانگتا ہے کہ جس میں انداز میں عاجزی اور لجاجت بھری ہوتی ہے۔۔۔
ربّ رحمٰن! تو پھر کائناتوں کا ربّ رحمٰن ہے، کائناتوں کا تخلیق کار ہے، کائناتوں کا پالنہار ہے اور تمام کائناتوں کے تمام خزانوں کا اکیلا وارث ہے۔۔اُس سے مانگو، اسی سے بار بار مانگو، وہی دیتا ہے، وہی دے گا، وہی نوازتا ہے تو وہی نوازے گا اور وہی عطا فرماتا ہے تو وہی عطا فرمائے گا اور وہی ہر بے چین و بے سکون دل اور روح کو سکون اور قرار عطا فرماتا ہے۔
اے خالق مالک! زندگی، موت، قبر اور آخرت خیر کی عطا فرما اور زندگی، موت، قبر اور آخرت کی سختیوں، مصیبتوں، مشکلوں، پریشانیوں اور عذابوں سے اپنی امن عطا فرما، یا سمیع، یا واسع،آمین
ایکبار درود پاک پڑھیں۔
تحریر- وقاص
#insaanorinsaaniyat
No comments:
Post a Comment