السلام علیکم،میں ایک لکھاری ہوں ایسا لکھاری جو ہر موضوعات پے سوچتا اور لکھتا ہے۔

Friday, 18 June 2021

صرف ‏ایک ‏بار

صرف ایک بار 

میں خود کو بیٹھ کر روتا ہوں کہ بڑا اکیلا ہوں۔۔ایسا ہوں ویسا ہوں۔۔۔میرے جیسے نجانے اور کتنے ایسے انسان ہونگے جو اپنی زات میں اکیلے اور تن تنہا ہونگے، اور کچھ رشتوں کے ہوتے اور ان کے بیچ رہتے ہوئے بھی تن تنہا ہونگے۔۔

پر کبھی کسی نے سوچا کہ یتیم خانے میں، سڑک پے سونے والے، در در بھیک مانگنے والے، لاوارث ہونے کی بنا پے کسی برے انسان کے ہتھے چڑھ جانے والے اور مختلف ورکشاپس پے اپنی عمر سے کئی گنا بڑے کام کرنے والے بچوں کا کیا حال ہوتا ہو گا۔۔ان کی کیا سوچ و فکر ہوتی ہو گی۔۔وہ خالق و مالک سے کیا اور کیسی باتیں کرتے ہونگے۔۔کیا گلے شکوے یا دعائیں، منتیں مرادیں اور راز و نیاز کرتے ہونگے۔۔کیسے اکیلے میں روتے اور گڑگڑاتے ہونگے ۔۔ اس دنیا کو کیا سمجھتے اور کس نظر سے دیکھتے ہونگے۔۔کہ میں انسان ہوں اور آیا کہ میں واقعی میں انسانوں کی دنیا میں ہی رہتا، بستا اور جیتا ہوں۔۔

میں سمجھتا ہوں ہر انسان کو زندگی میں کم سے کم ایک ایک بار صرف ایک بار کسی بھی قریبی ہسپتال کے "ایمرجینسی وارڈ" میں، کسی یتیم خانے میں، کسی جیل کے بیرک میں، کسی جونپڑیوں والوں کی بستی میں, کسی اولڈ ہوم ایج Old Home Agez میں، کسی پاگل خانے میں، کسی بھی قسم کے Rehablitation center میں ایک بار چکر تو ضرور لگانا چاہیے۔

ان جگہوں پے جانے سے میں شرطیہ طور پے کہہ سکتا ہوں فرعون کی سی فرعونیت رکھنے والا انسان بھی کچھ سوچنے پے مجبور ہو جائے گا۔۔کچھ نا کچھ تو اس کا دل بھی پسیج جائے گا۔۔کہیں کسی جگہ کسی مقام سے تو کچھ عبرت پکڑ ہی لے گا۔۔اُس میں بھی کہیں نا کہیں کچھ نا کچھ تھوڑی بہت تو بھولی بسری ہوئی، مری کھپی ہوئی انسانیت اور مسلمانیت جاگ ہی جائے گی۔۔۔

اور سب سے آخر میں اسے کسی قدیم ترین اور خستہ حال قبرستان کا چکر لگانا چاہیے، سوچنا اور دیکھنا چاہیے کہ کیسے کیسے بڑے بڑے کاروباری، رعب و دبدبے والے، کیسے کیسے بڑے بڑے عہدوں والے، کیسے بڑے بڑے گھر بار و کوٹھی کاروں والے، کیسے انسان کو انسان نہ سمجھنے والے آج منوں مٹی تلے بے یارو مددگار بے بس و نے سُدھ پڑے ہیں اور ان کا سارا گھر بار و کاروبار، ٹھاٹھ باٹھ و شان و شوکت اور حسن و جمال خاک سے اٹا پڑا ہے۔۔۔وقت کے ساتھ قبریں پھٹ جاتی ہے، گر اور ڈھ سی جاتی ہیں اور ایک وقت آتا ہے کہ قبر کا نام و نشان تک ختم ہو جاتا ہے اور لوگ اس کی قبر کو پیروں تلے روندتے پھرتے ہیں

یہ ہے انسان کی اصل حقیقت۔۔پر انسان کو سمجھ نہیں آتی۔۔"کیا ہی بہتر ہو کہ ہر انسان جیتے جی زمین کے اوپر رہتے ہوئے انسان بن جائے ورنہ زمین کے اندر جانے پے تو تم انسان بنا ہی دیے جاؤ گے"۔

وقاص

No comments:

Post a Comment