آپ انسانیت کی سوچ رکھتے ہو، انسانیت کا دکھ درد محسوس کرتے ہو، حسبِ توفیق و استعداد انسانیت کے کام آتے ہو، اور انسانیت پے چلنے اور قائم رہنے کی پوری کوشش کرتے رہتے ہو پر بدلے میں سالہا سال ہر انسان آپ سے خود غرضی، بے حسی، مطلب پرستی و مفاد پرستی کے سوا کچھ پیش آئے تو آپ آخر کب تک انسانیت کی سوچ کو لیے پھرو گے، کب تلک انسانیت انسانیت کا راگ الاپتے پھرو گے، کب تک خود کو سمجھتے پھرو گے کہ تجھے انسانیت ملے یا نا ملے پر تو نے انسانیت پے ہی چلتے رہنا اور قائم رہنا ہے۔۔۔آخر کب تک۔۔۔دودھ کو بھی زیادہ آنچ ملے وہ بھی ابلنے لگتا ہے، پانی کا گلاس حد سے زیادہ بھر جائے تو وہ بھی چھلکنے لگتا ہے۔۔۔ایسے میں انسان کیا کرے پھر۔۔۔
جانور،جانوروں کو چیر پھاڑ کر کھا پی جاتے ہیں اور انسان کیا کر رہے ہیں۔۔۔!
No comments:
Post a Comment