انسان جب حد سے زیادہ بے حس اور خود غرض سا ہونے لگتا ہے،اپنے سوا کسی دوسرے کو انسان نہیں سمجھتا ہے،انسانیت کو چھوڑ کے حیوانیت کو اپنانے لگتا ہے، اپنا پیٹ بھرنے کے لیے دوسروں کا پیٹ کاٹنے لگتا ہے، اپنی گردن بچوانے کے لیے بے قصوروں کی گردنیں کٹوانے سے بھی گریز نہیں کرتا ہے، اپنا گھر بھرنے کی خاطر دوسروں کا گھر اجاڑنے لگتا ہے۔۔۔ تب ہی ۔۔۔ہاں تب ہی ربّ رحمٰن اس ملک و قوم، خیش و قبیلے کے لوگوں اور اس زمین کے خطے میں بسنے والوں پے آفت،مصیبت، بلا و وبا اتار کر ان سب کو حادثے سے دوچار فرماتا ہے، ہر انسان کو دکھ درد تکالیف سے گزارتا ہے پھر سب کو ایکدوسرے کے دکھ درد کا احساس ہونے لگتا ہے ، ہر دوسرا انسان اپنے جیسا لگنے لگتا ہے، دوسروں کا دکھ درد سانجھا لگنے لگتا ہے، ہر انسان اپنا دکھ درد بھول کے ایکدوسرے کے دکھ درد کا مداوہ کرنے لگتا ہے،کوئی غیر کوئی پرایا نہیں رہتا سبھی ہم جیسے اپنے اپنے سے لگنے لگتے ہیں ۔۔تب ہی ۔۔ہاں تب ہی پھر سے حیوانیت مرنے اور انسانیت جاگنے لگتی ہے اور حادثے جہاں انسان کو انسان سے جدا اور الگ کرتے ہیں وہیں حادثے انسان کو انسان اور انسانیت سے جوڑنے و ملانے کا سبب و وسیلہ بھی بنتے ہیں۔
ربّ رحمٰن! بیشک اپنے بندوں کو دکھ درد و مصیبت میں بھی خیروبھلائی سے نوازنے والا ہے اور بیشک ربّ رحمٰن اپنے بندے کے حق میں بہتر سے " بہترین کُن " فرمانے والا ہے۔
No comments:
Post a Comment