چند دن پہلے دوکان پے ایک سولہ سترہ سالہ بچہ گاہک بن کے آیا جس نے نیٹ کا کارڈ لیا تو میں نے زرا کھولا کہ نیٹ کس کام کے لیے استعمال کرتے ہو تو بولا بس رشتے داروں سے رابطے میں رہنے کے لیے پھر پوچھا اور کوئی وجہ ۔۔تو بولا ہاں پاکستان میں میری دور کی ایک کزن ہے اس سے بات کرتا ہوں۔۔۔پھر خود ہی شروع ہو گیا کہ میرے والدین پاکستان میں ایک رشتدار کی شادی پے گئے ہوے ہیں اور وہاں میری وہ کزن بھی آئی ہوئی ہے اور کل ابا نے مجھے فون کر کے کہا کہ اوئے وہ فلاں لڑکی تیرے بارے میں بڑی بات کر رہی تھی تیرا بڑا بار بار پوچھ رہی تھی۔۔۔میں نے چھوٹتے استہزائیہ انداز میں پوچھا۔۔تو پھر آپ کے ابا نے تو آپ کو خوب ڈانٹا ڈپٹا ہو گا اور غصے سے آپ کو کہا ہو گا کہ تمہارا کیا چکر ہے۔۔۔وہ بولا ارے نہیں ۔۔وہ تو بڑے ہنس ہنس کے اور چھیڑنے والے انداز میں پوچھ رہے تھے کہ ہاں بھائی تمہاری وہ کزن تو تمہیں بڑا یاد کر رہی ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔ اس نے اتنی بات کی اور چلتا بنا اور میں خود کو اس کی جگہ پے اور اس کے باپ کی جگہ اپنے باپ کو رکھ کے سوچنے لگ گیا کہ وقاص اگر تو ایسا کرتا اور تیرے باپ کو پتا چلتا کہ میرا بیٹا رشتدار کی فلاں لڑکی سے بات کرتا ہے تو تیرے باپ نے پہلے ٹکا کے اس لڑکی کی کلاس لگانا تھی پھر فون پے گھنٹوں کے لکچر تجھے سنانے تھے اور جب واپس سعودیہ آتے تو تب پھر دو تین گھنٹوں کی کلاس لگتی ۔۔۔اور پھر کئی دن کئی ہفتے تک کسی چھوٹی سی بھول چوک یا غلطی کوتاہی پے گاہے بگاہے تجھے لعن تعن کرتے رہتے " کہ بڑا گُھنہ ہے تُو۔۔بڑا کمینہ ہے تُو۔۔۔بڑا پاپی ہے تُو۔۔۔بڑا یہ ہے بڑا وہ ہے۔۔کہ ہمیں پتا ہی نہیں اور تُو کیا گُل کھلا رہا ہے۔۔ہمیں بدنام کرتا کل کو رشتے داروں میں۔۔۔ہماری ناک کٹواتا۔۔۔
پہلی بات میں بچپن سے بڑا سہما سہما سا تھا اور بڑا ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی حدود و قیود میں رہنے والا تھا اور آج بھی ہوں۔۔۔میں خاندان تو کیا آج تک محلے میں بھی کبھی کسی لڑکی کو ہائے ہیلو تک نہیں کہا فقط یہی سوچتے ہوئے کہ وقاص ہر انسان کی عزت اس کے اپنے پاس ہے چاہے تو بیعزتی والے کام کرکے بیعزت ہو جائے یا عزت والے کام کرکے اپنی عزت برقرار رکھے۔۔۔
پر میں سوچ رہا تھا کہ میرا باپ بھی سختی کرتا پر حد سے زیادہ سخت نا بنتا ۔۔۔تو آج میں اپنے باپ سے اتنا اور اسقدر دور نا ہوتا۔۔۔
ہمارے معاشرے میں تین قسم کے والدین پائے جاتے ہیں ایک وہ جو میرے باپ جیسے ہوتے ہیں جو حد سے زیادہ سخت گیر ہوتے ہیں جن سے ان کی اولاد متنفر ہو کے میری طرح ان سے ہمیشہ کے لیے دور ہو جاتی ہے،دوسرے وہ ہوتے ہیں جو بالکل غافل و لاپرواہ ہوتے ہیں اپنی اولاد کو ہر معاملے میں بالکل کھلی چھوٹ دے رکھتے ہیں جسکا انکی اولاد ناجائز فائدہ اٹھا کے بھٹک و بہک اور بگڑ جاتی ہے اور وہ بھی بے حد و بیجا لاڈ و پیار کی وجہ سے والدین سے دور ہو جاتی ہے۔۔۔
پھر آتے ہیں تیسرے آخری اور سمجھدار والدین کی طرف، وہ والدین جو سخت ہونے کے ساتھ نرم بھی ہوتے ہیں، جو لاڈ پیار کے ساتھ ساتھ مناسب ڈانٹ ڈپٹ بھی کرتے ہیں۔۔۔جو اولاد کے بہترین دوست بھی ہوتے ہیں۔۔جو اولاد سے عزت و ادب سے پیش آتے ہیں اور بدلے میں اولاد اور زیادہ عزت و احترام اور ادب و آداب سے پیش آتی ہے۔۔۔جو اپنے والدین ہونے کا ناجائز و غلط استعمال نہیں کرتے ہیں۔۔جو بچوں کو تعلیم و تربیت کے ساتھ انکا اچھا و برا بھلا سمجھتے بجھاتے ریتے ہیں۔۔۔انہیں زندگی کے ہر معاملے میں ایک مناسب حد تک آزدی خود مختاری بھی سونپتے ہیں۔۔۔جو اولاد کی کسی غلطی،کمی خامی اور کوتاہی کو جاننے اور دیکھنے کے بعد بھری محفل میں سرعام زدوکوب کرکے اور برا بھلا کہہ کر اولاد کو سب کے سامنے زلیل و رسوا نہیں کرتے ہیں۔۔۔بچوں کو انکا ہمسفر چننے میں انکی مدد کرتے، من مرضی و پسند و ناپسند جانتے اور ہمسفر چننے میں انہیں پورا پورا اختیار دیتے ہیں۔۔۔ور ایسے والدین کی اولاد ہی زندگی میں ابھرتے سورج کی طرح ابھرتی اور چڑھتے سورج کی طرح چڑھتی،ترقی کرتی، سدھرتی اور سنورتی چلی جاتی ہے جو اِس اُس جہاں میں کامیاب و کامران ہوتی ہے۔۔۔اور ایسے والدین ہی حقیقی معنوں میں والدین کہلانے کے حقدار ہوتے ہیں۔۔۔ایسے والدین ہی تعریف و داد کے مستحق و حقدار ٹھہرتے ہیں۔۔ایسے ہی والدین کو میں سلام پیش کرتا ہوں جو اولاد کے ساتھ دوستانہ ماحول بنا کے رکھتے ہیں اور اولاد بھی ایسے میں اپنے بہترین دوست نما والدین سے ہر بات کہتے ہیں۔۔۔اور خوش نصیب و خوش بخت ہوتی ہے ایسی اولاد جنہیں ایسے بہترین اور عظیم والدین ربّ رحمان عطا فرماتے ہیں۔۔۔
خدارہ! اپنی اولاد کو کسی پالتو بھیڑ بکری کی طرح مت پالیں کہ بس انہیں کسی کھونٹی سے باندھ کے رکھ دیا، چارہ ڈال دیا،دھوپ چھاؤں کا خیال نا کیا اور جب جی میں آیا انہیں زبح کر دیا۔۔۔
اولاد والدین کے حقوق ادا کرنے کی تب مجاز ہے جب والدین نے بھی اولاد کے حقوق ادا کیے ہوں اور جب والدین اولاد کے حقوق ادا کرنے میں غافل رہے یا غفلت برتی اور وقت پڑنے پے جب اولاد والدین کے حقوق ادا کرنا چاہ کے بھی ادا نہیں کر پاتی تو ایسے میں والدین کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ اولاد کو برا بھلا کہے ۔۔۔یا اولاد کو بد بدعا دیں یا بدتر کہے۔۔۔
وقاص
No comments:
Post a Comment