السلام علیکم،میں ایک لکھاری ہوں ایسا لکھاری جو ہر موضوعات پے سوچتا اور لکھتا ہے۔

Monday, 30 April 2018

عورت

عورت کے ساتھ مرد کا نام جڑا ہے پھر بھی عورت اپنی من مانی کرنے پے تلی رہتی ہے۔۔اور اپنی من مانیاں کرتے چلی جاتی ہے۔۔۔

جبکہ عورت اپنے والدین بہن بھائی،دوست سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے شوہر کے گھر آتی ہے پر اس سب کے باوجود بھی عورت کچھ باتوں کو نہیں چھوڑتی، وہ باتیں جو وہ اپنے والدین کے گھر میں کرتے چلی آئی ہوتی ہے، وہ باتیں جو اسکی طبیعت اور زندگی کا حصہ بن چکی ہوتی ہیں، وہ باتیں جن پے وہ پختگی سے کاربند ہو چکی ہوتی ہے وہ باتیں۔۔۔ہاں وہی باتیں جنکی وجہ سے اکثر شوہر بیوی کو چھوڑنے پے مبجور و بے بس ہو جاتا ہے۔۔۔!

اب بہت سی عورتوں کے کمنٹس کچھ اس طرح کے ہونگے۔۔۔ہاں تو ایک عورت جہاں اپنا سب کچھ شوہر کے لیے چھوڑ کے آتی ہے تو وہاں شوہر کو خیال کرنا چاہیے، عورت بھی ججتی جاگتی انسان ہے، اسکی بھی کوئی زندگی ہے، اسکی بھی کوئی مرضی و پسند و ناپسند ہے،اسکے سینے میں بھی دل ہے وغیرہ وغیرہ۔۔

پر جو سمجھدار و سگھڑ عورتیں ہونگی وہ بات کی گہرائی کو سمجھ کے یا تو خاموش رہے گی یا پھر اگر انمیں کہیں کوئی کمی خامی ہے تو اس پے سوچ و بیچار کرکے اپنی شادی شدہ زندگی کو سنوار لیں گی۔۔۔!

Sunday, 29 April 2018

سیدھا انسان

سیدھے سادے انسان کو ہر انسان بیوقوف سمجھ کے بیوقوف بنانے کی پوری پوری اور بھرپور کوشش کرتا رہتا ہے۔۔۔!

وقاص

مروت

مروت کرنے والا انسان اکثر بے مروتی کا شکار ہوتا ہے۔

وقاص

Saturday, 28 April 2018

زندگی اور موت

ہمیں پتا لگ جائے ٹھیک ایک ہفتہ بعد مجھے موت آ جانی ہے تو سب سے پہلے ہم اپنا سارا مال و اسباب ربّ رحمان کی راہ میں قربان کر دیں گے اور اسکے بعد مسجد کے ہو کے رہ جائیں گے

پتا تو ویسے ہمیں ابھی بھی نہیں کہ موت بن بلائے مہمان کی طرح کب ہمارے سامنے باہیں پھیلا کے کھڑی ہو جائے۔۔۔!

پر یہ جینے کی چاہت ۔۔۔معذرت کے ساتھ پر یہ فقط اپنے لیے جینے کی چاہت ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑتی۔۔۔اور ہم دنیا و آخرہ میں زلیل و رسوا ہو کے رہ جاتے ہیں۔۔۔جب کہ ہم اس رسول کے امتی اور پیروکار ہیں جنکی زندگی اپنی امت کی ہدایت اور سرفرازی کے لیے وقف تھی۔۔۔خود خالی پیٹ رہ کے امت کا پیٹ بھرتے تھے، خود درد سہہ کے امت درد سے نجات دلاتے تھے۔۔۔!

بیحد و بیشمار درود و سلام میرے رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم پے۔

ایکبار درود پاک پڑھیں۔

Tuesday, 24 April 2018

کڑھا اور پڑھا

کڑھا ہوا انسان پڑھے ہوئے انسان سے کئی گنا زیادہ سمجھدار ہوتا ہے۔

وقاص

Monday, 23 April 2018

لکھاری

اپنی کمینی فطرت کے سبب بہت سے لکھاریوں خاص طور پے فیسبکی لکھاریوں نے اپنی فحش گوئی کو حق گوئی کا نام دے دیا ہے

جبکہ ربّ رحمان نے
اپنی کتاب قرآن نے فرمایا

سورۃ بقرہ، آیت نمبر 223: تمہاری عورتیں تمہار کھیتی ہیں تو اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو جاؤ۔ اور اپنے لئے ( نیک عمل) آگے بھیجو۔ اور خدا سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ (ایک دن) تمہیں اس کے روبرو حاضر ہونا ہے اور (اے پیغمبر) ایمان والوں کو بشارت سنا دو۔

ربّ رحمان نے کتنا پیارا اور بہترین انداز اپنایا ہے اور ہم انسان ایک سلجھی ہوئی بات کو بھی فحاشی میں بدل ڈالتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کچھ باتیں،کچھ مسئلے، کچھ معاملات سلجھی ہوئی باتوں کے زریعے سمجھ نہیں آتی اور نا سمجھائی جاتی ہیں۔

پر یہ نہیں کہتے کہ یہ میرے اندر کی کمینگی گندگی ہے وہ گندی فطرت بن گئی ہے جس کا اظہار گاہے بگاہے کرتا اور کمینی فطرت سے عاداتًا مجبور ہوں۔

Thursday, 19 April 2018

دل سے

دل سے کیا گیا ہر کام کمال کا ہوتا ہے۔۔۔پھر وہ چاہے نفرت ہو یا پھر وہ چاہے محبت ہو۔۔۔!

Wednesday, 18 April 2018

چاہت

پھر ایک وقت آتا ہے کہ جب ربّ رحمان کی محبت کے سامنے سب چاہتیں ہیچ،چھوٹی اور جھوٹی لگنے لگتی ہیں اور انسان سب کی سب چاہتوں کو چھوڑ چھاڑ کے ربّ رحمان کی چاہت کا خواستگار و طلبگار بن جایا کرتا ہے۔۔۔!

وقاص

Saturday, 14 April 2018

عظیم محبت

وہ محبت بہت اعلی،پاکیزہ اور عظیم ترین ہوتی ہے جو بن دیکھے ہو جاتی ہے۔۔۔!

اور بیشک سب سے اعلی،پاکیزہ اور عظیم محبت بندے کی اپنے ربّ رحمان سے ہے۔۔وہ محبت جو بندہ اپنے ربّ رحمان کو دیکھے بنا اس سے محبت کرتا ہے۔۔!

وقاص

Monday, 9 April 2018

زندگی

زندگی جب تک زندہ رہتی ہے انسان کو خود میں الجھا اور پھنسا کے رکھتی ہے۔۔۔!

Saturday, 7 April 2018

خوشبو

ہر شے کی اپنی ایک خوشبو ہوتی ہے تو پھر انسان کی خوشبو کیا اور کونسی ہے؟

مٹی پے پانی چھڑکنے پے مٹی سے جو بھینی بھینی خوشبو اٹھتی ہے وہی انسان کی خوشبو ہے۔

وقاص

Wednesday, 4 April 2018

ربّ رحمان کا قانون

ربّ رحمان کا قانون ہے کہ میرا جو بندہ میرے کسی بندے کی زندگی میں مٹھاس گھولے گا تو میں اسکی زندگی میں مٹھاس گھول دوں گا۔۔اب وہ مٹھاس اسکی دنیا کی زندگی میں گھولے یا اسکی آخرت کی زندگی میں گھولے۔۔۔

اسی طرح ربّ رحمان کا قانون یہ بھی ہے کہ میرا جو بندہ میرے کسی بندے کی زندگی میں زہر گھولے گا تو میں اسکی زندگی میں زہر گھول دوں گا۔۔۔اب وہ زہر اسکی دنیا کی زندگی میں گھولے یا آخرت کی زندگی میں ۔۔۔!

آپ نے اپنی زندگی میں کیا گھولنا ہے وہ اب آپ نے طے کرنا ہے۔

وقاص

Tuesday, 3 April 2018

سوشل میڈیا

سوشل میڈیا پے آپکی پوسٹس، آپ کی طبیعت، مزاج دلچسپی، پسند و ناپسند اور خاندانی و غیر خاندانی ہونے کا پتا بتاتی اور آپکی پہچان کرواتی ہیں۔۔۔اسلیے اپنی پوسٹس کو شیئر کرنے سے پہلے پوسٹ کو ہر لحاظ سے دیکھ بھال اور پرکھ لیا کریں کہ کیا یہ پوسٹ شیئر کرنے کے قابل ہے کہ نہیں۔۔۔کیونکہ انسان اپنے کردار و گفتار اور درخت اپنے پھل اور پھول سے پہچانا جاتا ہے۔

وقاص

Monday, 2 April 2018

ڈرامہ و فلم

ایک دور تھا جب شرم و حیا کا دور تھا کہ لڑکی اپنے بڑوں کے سامنے اپنے شوہر کے ساتھ بیٹھنے میں بھی شرماتی،جھجکتی اور کتراتی تھی، کچھ عرصہ بعد ریڈیو پھر ٹی وی ایجاد ہوا تو بھی بچے اور نوجوان بڑوں کے ساتھ بیٹھ کے ریڈیو سننے اور ٹی وی دیکھنے کو بڑوں کی توہین اور بے ادبی گردانتے تھے۔۔۔پھر دور بدلا اور آج یہ حال ہے کہ سارا کا سارا معاشرہ لبرل ہوا پھرتا ہے۔۔۔بڑی سی ایل سی ڈی پے بڑے مزے اور اہتمام کے ساتھ فلمیں اور ڈرامے چلائے جاتے ہیں، وہ فلمیں ڈرامے، جنمیں لڑکا و لڑکی کی شادی سے پہلے کی پیار محبت کی کہانی سے لے کے شادی ہونے تک اور سہاگ رات سے لے کر و بوس و کنار تک اور بوس و کنار سے لے کر بچہ پیدا ہونے تک کے مناظر دیکھائے جاتے ہیں ۔۔۔اور یہ سب سارا گھر بھر ایک ساتھ بیٹھ کے دیکھتا ہے اور پھر کہتے ہیں۔۔کہ اولاد بگڑ گئی، بے شرم و بے حیا اور واہیات و نافرمان. ہو گئی۔۔۔!!

وقاص

Sunday, 1 April 2018

دوستانہ

چند دن پہلے دوکان پے ایک سولہ سترہ سالہ بچہ گاہک بن کے آیا جس نے نیٹ کا کارڈ لیا تو میں نے زرا کھولا کہ نیٹ کس کام کے لیے استعمال کرتے ہو تو بولا بس رشتے داروں سے رابطے میں رہنے کے لیے پھر پوچھا اور کوئی وجہ ۔۔تو بولا ہاں پاکستان میں میری دور کی ایک کزن ہے اس سے بات کرتا ہوں۔۔۔پھر خود ہی شروع ہو گیا کہ میرے والدین پاکستان میں ایک رشتدار کی شادی پے گئے ہوے ہیں اور وہاں میری وہ کزن بھی آئی ہوئی ہے اور کل ابا نے مجھے فون کر کے کہا کہ اوئے وہ فلاں لڑکی تیرے بارے میں بڑی بات کر رہی تھی تیرا بڑا بار بار پوچھ رہی تھی۔۔۔میں نے چھوٹتے استہزائیہ انداز میں پوچھا۔۔تو پھر آپ کے ابا نے تو آپ کو خوب ڈانٹا ڈپٹا ہو گا اور غصے سے آپ کو کہا ہو گا کہ تمہارا کیا چکر ہے۔۔۔وہ بولا ارے نہیں ۔۔وہ تو بڑے ہنس ہنس کے اور چھیڑنے والے انداز میں پوچھ رہے تھے کہ ہاں بھائی تمہاری وہ کزن تو تمہیں بڑا یاد کر رہی ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔ اس نے اتنی بات کی اور چلتا بنا اور میں خود کو اس کی جگہ پے اور اس کے باپ کی جگہ اپنے باپ کو رکھ کے سوچنے لگ گیا کہ وقاص اگر تو ایسا کرتا اور تیرے باپ کو پتا چلتا کہ میرا بیٹا رشتدار کی فلاں لڑکی سے بات کرتا ہے تو تیرے باپ نے پہلے ٹکا کے اس لڑکی کی کلاس لگانا تھی پھر فون پے گھنٹوں کے لکچر تجھے سنانے تھے اور جب واپس سعودیہ آتے تو تب پھر دو تین گھنٹوں کی کلاس لگتی ۔۔۔اور پھر کئی دن کئی ہفتے تک کسی چھوٹی سی بھول چوک یا غلطی کوتاہی پے گاہے بگاہے تجھے لعن تعن کرتے رہتے " کہ بڑا گُھنہ ہے تُو۔۔بڑا کمینہ ہے تُو۔۔۔بڑا پاپی ہے تُو۔۔۔بڑا یہ ہے بڑا وہ ہے۔۔کہ ہمیں پتا ہی نہیں اور تُو کیا گُل کھلا رہا ہے۔۔ہمیں بدنام کرتا کل کو رشتے داروں میں۔۔۔ہماری ناک کٹواتا۔۔۔

پہلی بات میں بچپن سے بڑا سہما سہما سا تھا اور بڑا ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی حدود و قیود میں رہنے والا تھا اور آج بھی ہوں۔۔۔میں خاندان تو کیا آج تک محلے میں بھی کبھی کسی لڑکی کو ہائے ہیلو تک نہیں کہا فقط یہی سوچتے ہوئے کہ وقاص ہر انسان کی عزت اس کے اپنے پاس ہے چاہے تو بیعزتی والے کام کرکے بیعزت ہو جائے یا عزت والے کام کرکے اپنی عزت برقرار رکھے۔۔۔

پر میں سوچ رہا تھا کہ میرا باپ بھی سختی کرتا پر حد سے زیادہ سخت نا بنتا ۔۔۔تو آج میں اپنے باپ سے اتنا اور اسقدر دور نا ہوتا۔۔۔

ہمارے معاشرے میں تین قسم کے والدین پائے جاتے ہیں ایک وہ جو میرے باپ جیسے ہوتے ہیں جو حد سے زیادہ سخت گیر ہوتے ہیں جن سے ان کی اولاد متنفر ہو کے میری طرح ان سے ہمیشہ کے لیے دور ہو جاتی ہے،دوسرے وہ ہوتے ہیں جو بالکل غافل و لاپرواہ ہوتے ہیں اپنی اولاد کو ہر معاملے میں بالکل کھلی چھوٹ دے رکھتے ہیں جسکا انکی اولاد ناجائز فائدہ اٹھا کے بھٹک و بہک اور بگڑ جاتی ہے اور وہ بھی بے حد و بیجا لاڈ و پیار کی وجہ سے والدین سے دور ہو جاتی ہے۔۔۔

پھر آتے ہیں تیسرے آخری اور سمجھدار والدین کی طرف، وہ والدین جو سخت ہونے کے ساتھ نرم بھی ہوتے ہیں، جو لاڈ پیار کے ساتھ ساتھ مناسب ڈانٹ ڈپٹ بھی کرتے ہیں۔۔۔جو اولاد کے بہترین دوست بھی ہوتے ہیں۔۔جو اولاد سے عزت و ادب سے پیش آتے ہیں اور بدلے میں اولاد اور زیادہ عزت و احترام اور ادب و آداب سے پیش آتی ہے۔۔۔جو اپنے والدین ہونے کا ناجائز و غلط استعمال نہیں کرتے ہیں۔۔جو بچوں کو تعلیم و تربیت کے ساتھ انکا اچھا و برا بھلا سمجھتے بجھاتے ریتے ہیں۔۔۔انہیں زندگی کے ہر معاملے میں ایک مناسب حد تک آزدی خود مختاری بھی سونپتے ہیں۔۔۔جو اولاد کی کسی غلطی،کمی خامی اور کوتاہی کو جاننے اور دیکھنے کے بعد بھری محفل میں سرعام زدوکوب کرکے اور برا بھلا کہہ کر اولاد کو سب کے سامنے زلیل و رسوا نہیں کرتے ہیں۔۔۔بچوں کو انکا ہمسفر چننے میں انکی مدد کرتے، من مرضی و پسند و ناپسند جانتے اور ہمسفر چننے میں انہیں پورا پورا اختیار دیتے ہیں۔۔۔ور ایسے والدین کی اولاد ہی زندگی میں ابھرتے سورج کی طرح ابھرتی اور چڑھتے سورج کی طرح چڑھتی،ترقی کرتی، سدھرتی اور سنورتی چلی جاتی ہے جو اِس اُس جہاں میں کامیاب و کامران ہوتی ہے۔۔۔اور ایسے والدین ہی حقیقی معنوں میں والدین کہلانے کے حقدار ہوتے ہیں۔۔۔ایسے والدین ہی تعریف و داد کے مستحق و حقدار ٹھہرتے ہیں۔۔ایسے ہی والدین کو میں سلام پیش کرتا ہوں جو اولاد کے ساتھ دوستانہ ماحول بنا کے رکھتے ہیں اور اولاد بھی ایسے میں اپنے بہترین دوست نما والدین سے ہر بات کہتے ہیں۔۔۔اور خوش نصیب و خوش بخت ہوتی ہے ایسی اولاد جنہیں ایسے بہترین اور عظیم والدین ربّ رحمان عطا فرماتے ہیں۔۔۔

خدارہ! اپنی اولاد کو کسی پالتو بھیڑ بکری کی طرح مت پالیں کہ بس انہیں کسی کھونٹی سے باندھ کے رکھ دیا، چارہ ڈال دیا،دھوپ چھاؤں کا خیال نا کیا اور جب جی میں آیا انہیں زبح کر دیا۔۔۔

اولاد والدین کے حقوق ادا کرنے کی تب مجاز ہے جب والدین نے بھی اولاد کے حقوق ادا کیے ہوں اور جب والدین اولاد کے حقوق ادا کرنے میں غافل رہے یا غفلت برتی اور وقت پڑنے پے جب اولاد والدین کے حقوق ادا کرنا چاہ کے بھی ادا نہیں کر پاتی تو ایسے میں والدین کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ اولاد کو برا بھلا کہے ۔۔۔یا اولاد کو بد بدعا دیں یا بدتر کہے۔۔۔

وقاص